سبری مالا مندر معاملے میں فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے کہا کہ مذہبی مقامات میں خواتین کے داخلے پر پابندی صرف سبری مالا تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ دیگر مذاہب میں بھی ایسا ہے۔سبری مالا، مسجدوں میں خواتین کے داخلے اور داؤدی بوہرا کمیونٹی میں خواتین میں ختنہ جیسے مذہبی مدعوں پر فیصلہ بڑی بنچ لےگی۔
نئی دہلی: سپریم کورٹ نے سبری مالا معاملے میں دیے گئے اپنے فیصلے کا تجزیہ کی مانگ کرنے والی عرضیاں سات ججوں کی بڑی بنچ کے پاس بھیجتے ہوئے جمعرات کو کہاکہ مذہبی مقامات میں خواتین کے داخلے پر پابندی صرف سبری مالا تک ہی محدود نہیں ہےبلکہ دیگر مذاہب میں بھی ایسا ہے۔ چیف جسٹس رنجن گگوئی نے اپنی طرف سے اور جسٹس اے ایم کھانولکر اور جسٹس اندوملہوترا کی طرف سے فیصلہ پڑھا۔ اس میں انہوں نے کہا کہ سبری مالا، مسجدوں میں خواتین کے داخلے اور داؤدی بوہرا کمیونٹی میں خواتین میں ختنہ جیسے مذہبی مدعوں پرفیصلہ بڑی بنچ لےگی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار مذہب اور عقیدہ پر بحث پھر سے شروع کرناچاہتے ہیں۔لائیو لاء کے مطابق، اکثریت والے فیصلے کو پڑھتے ہوئے سی جے آئی گگوئی نےکہا، ‘ یہاں عدالت کے اختیار کو لےکر ایک مدعا ہے کہ کیا ایک آئینی عدالت مذہب کے ایسےاندرونی معاملوں میں مداخلت کر سکتی ہے۔ ‘مسجدوں میں خواتین کے داخلے پر روک کا حوالہ دیتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کو سبری مالا جیسے مذہبی مقامات کے لئے ایک جیسی پالیسی بنانا چاہیے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ایسے مذہبی مدعوں پر سات ججوں کی بنچ کو غور کرناچاہیے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے سبری مالا معاملے میں نظرثانی سمیت تمام دیگرعرضیاں سپریم کورٹ کے سات ججوں کی بنچ کے پاس بھیج دیں ۔ سپریم کورٹ کی آئینی بنچ میں چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس روہنٹن نریمن،جسٹس اے ایم کھانولکر، جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس اندو ملہوترا شامل ہیں۔سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ 3-2 کی اکثریت سے سنایا۔
سبری مالا معاملے پر فیصلے میں جسٹس آر ایف نریمن اور جسٹس ڈی وائی چندرچوڑکی رائے الگ تھی۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، اکثریت کے فیصلے سے الگ رائے رکھتے ہوئے جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس نریمن نے کہا کہ 2018 کے سپریم کورٹ کے فیصلے پرعمل نہ کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔عدالت نے 28 ستمبر 2018 کو 4 کے مقابلے ایک کی اکثریت سے فیصلہ دیا تھا جس میں کیرل کے مشہورایاپا مندر میں 10 سال سے 50 کے سال کی لڑکیوں اور خواتین کے داخلے پر لگی روک کو ہٹا دیا گیاتھا۔ فیصلے میں عدالت نے صدیوں سے چلی آ رہی اس مذہبی روایت کو غیر قانونی اور غیر آئینی بتایا تھا۔
گزشتہ6 فروری کو پورے دن چلی سماعت کے بعد سپریم کورٹ کی آئینی بنچ نے سبری مالامندر معاملے میں داخل نظرثانی کی عرضی پر اپنا فیصلہ محفوظ رکھ لیا تھا۔ انہوں نے تراونکور دیوسوم بورڈ، پانڈلم رائل فیملی اور عقیدت مندوں کے گروپ کی کئی عرضیوں پر سماعت کی تھی۔ ان عرضیوں میں سپریم کورٹ کے 28 ستمبر، 2018 کے اس فیصلےکو چیلنج دیا گیا تھا جس میں مندر میں داخلے کو تمام عمر کے طبقے کی خواتین کا حق بتایا تھا۔
بتا دیں کہ اس قدیم سبری مالا مندر میں 10 سال سے لےکر 50 سال تک کی عمرکی خواتین کا داخلہ ممنوع تھا۔ ایسا مانا جاتا ہے کہ بھگوان ایاپا برہمچاری ہے اورچونکہ اس عمر کی خواتین کو حیض آتا ہے، اس سے مندر کا تقدس قائم نہیں رہے گا۔ سبری مالا مندر انتظامیہ نے سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ 10 سے 50 سال کی عمر تک کی خواتین کے داخلے پر اس لئے پابندی لگائی گئی ہے کیونکہ حیض کے وقت وہ پاکیزگی قائم نہیں رکھ سکتیں۔
درخواست گزاروں کا یہ بھی دعویٰ تھا کہ آئینی اخلاقیات ایک عملی تجربہ ہےجس کو عقیدے کے معاملوں پر نہیں نافذ کیا جا سکتا ہے۔ مذہبی عقیدے کو دلائل کی بنیاد پر نہیں ٹیسٹ کیا جا سکتا ہے۔ پوجا کرنے کا حق خدا کی فطرت اور مندر کی روایت کی بنیاد پر طے ہوتا ہے۔ انہوں نے یہ مدعا بھی اٹھایا تھا کہ کورٹ نے مندر کی تاریخ کو سمجھے بناآرٹیکل 17 کے تحت بنا وجہ چھواچھوت کی بھی بات کی تھی۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں