خبریں

تقریباً 100 مسلم شخصیات نے ایودھیا فیصلے میں ریویو پٹیشن کی مخالفت کی، کہا-اس سے مسلمانوں کو نقصان ہوگا

فلم ،ادب اور صحافت سمیت مختلف شعبوں کی معروف مسلم شخصیات  نے ایودھیا معاملے میں ریویو پٹیشن کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ معاملے کو جاری رکھنے سے سنگھ پریوار کا ایجنڈہ پورا ہوگا ۔وہیں  سنی وقف بورڈ نے  کہا کہ –  وہ کورٹ کے فیصلے کو  چیلنج نہیں کریں گے۔

A photograph of the Babri Masjid from the early 1900s. Copyright: The British Library Board

A photograph of the Babri Masjid from the early 1900s. Copyright: The British Library Board

نئی دہلی: اداکار نصیرالدین شاہ اور شبانہ اعظمی سمیت ملک بھر کی 100 جانی مانی ہستیوں  نے ایودھیا پر آئے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف ریویو پٹیشن  دائر کرنے کی مخالفت کی ہے۔ ان لوگوں کا کہنا  ہے کہ رام جنم بھومی- بابری مسجد معاملے کے کچھ فریق کے ریویو کی عرضی  دائر کرنے کا فیصلہ معاملے  کو زندہ رکھے گا اور مسلمانوں  کو نقصان پہنچائےگا۔ریو یو کی عرضی  دائر کرنے کی مخالفت کرنے والے بیان پر دستخط کرنے والوں میں اسلامی اسکالر،سماجی کارکن ، وکیل، صحافی ، کاروباری، شاعر، ایکٹر، فلمساز، تھیٹر آرٹسٹ،موسیقار اور طلبا شامل ہیں۔

بیان میں بتایا گیا ہے کہ ،‘ہم اس بات  پر ہندوستانی مسلم کمیونٹی ، آئینی ماہرین  اور سیکولر تنظیموں  کی ناراضگی  کو شیئر کرتے ہیں کہ ملک  کی سب سے بڑی عدالت نے اپنا فیصلہ  سناتے ہوئے آستھا کو قانون سے اوپررکھا۔’ بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم اس بات سے متفق  ہیں کہ فیصلہ میں کئی   خامیاں ہیں ، لیکن ہمارا مضبوطی سے ماننا ہے کہ ایودھیا تنازعہ  کو زندہ رکھنا ہندوستانی مسلمانوں کو نقصان پہنچائے گا اور ان کی مدد نہیں کرےگا۔

 بیان پر دستخط کرنے والوں میں نصیر الدین شاہ، شبانہ اعظمی، فلم رائٹر انجم راج بلی ،صحافی  جاوید آنند سمیت دوسرے لوگ شامل ہیں۔بیان میں کہا گیا ہے کہ ہم نے تین دہائی پرانے رام جنم بھومی –بابری مسجد معاملے کے دوران جو کچھ حاصل کیا ہے اس پر مسلمانوں کو غو رکرنا چاہیے ۔ کیا اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اس سے مسلمانوں کی زندگی اور جائیداد متاثر ہوئی ہےوہیں سنگھ پریوار کی سیاست کو بڑے پیمانے پر موقع ملا ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ ، کیا ہم نے تلخ تجربے سے نہیں سیکھا کہ کسی بھی فرقہ وارانہ فساد میں غریب مسلمانوں کو قیمت چکانی پڑتی ہے۔

بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ، کئی لوگ مسلمانوں کو اس سے آگے بڑھنے کی صلاح دے رہے ہیں ۔مسلمانوں سے ہماری اپیل ہے کہ وہ مندر –مسجد تنازعہ سے دور رہیں کیوں یہ صرف سنگھ پریوار کے اصلی  ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں مدد کرتا ہے اور ان کا ایجنڈہ بالکل  صاف ہے کہ وہ اس سیکولر اور جمہوری ملک کو ہندو راشٹر بنانا چاہتے ہیں ۔بیان میں بتایا گیا ہے کہ ، ہمارا ماننا ہے کہ عدالت میں معاملے کو جاری رکھنے سے مسلم مخالف پرپیگنڈہ اور اسلاموفوبیا کو بڑھاوا ملے گا ، جس کی وجہ سے پولرائزیشن ہوگا۔وہیں دوسری طرف معاملے کو طول نہ دینے پر مسلمانوں کو سیکولر لوگوں کی ہمدردی حاصل ہوگی ۔ یہ ملک اور کمیونٹی دونوں کے لیے سب سے اچھا ہوگا۔

ریویو پٹیشن کی مخالف کرنے والوں کے نام یہاں پڑھے جاسکتے ہیں ۔

دریں اثنا سنی وقف بورڈ کے عبدالرزاق نے کہا ہے کہ سنی وقف بورڈ نے معاملے میں ریویو کی عرضی دائر نہیں کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔بورڈ کے صدر ظفر فاروقی نے میٹنگ کے بعد بتایا کہ بورڈ کے آٹھ میں سے سات ممبروں نے حصہ لیا ۔ ان میں سے 6 نے ایودھیا معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج نہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

اس سے پہلے ہلی واقع جامع مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری نے کہا تھا کہ ایودھیا معاملے کو اب آگے نہیں بڑھانا چاہیے اور سپریم کورٹ  کے فیصلے کے خلاف ریویو پیٹیشن دائر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔انہوں نےیہ امید بھی ظاہر کی تھی  کہ اب ملک میں فرقہ وارانہ کشیدگی  کے لیے جگہ نہیں ہوگی اور آگے سے ایسے مدعوں کو ہوا نہیں دی جائےگی۔

بخاری  نے صحافیوں  سے کہاتھا، ‘میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ملک  قانون اور آئین سے چلتاہے۔ 134 سال سے چل رہے تنازعہ  کاخاتمہ ہوا۔ پانچ رکنی بنچ  نےفیصلہ لیا۔ گنگا جمنی تہذیب  اور بھائی چارے کو دیکھتے ہوئے یہ کوشش  کرنی ہوگی کہ آگے ملک کو اس طرح کے تنازعہ سے نہ گزرنا پڑے۔’انہوں نے کہا، ‘ملک آئین کے تحت چلے، قانون پر عمل ہوتا رہے، فرقہ وارانہ کشیدگی نہ ہو اور سماج نہ بنٹے، اس کے لیے سب کو اپنا رول ادا کرنا ہوگا۔ ہندو مسلم کی بات بند ہونی چاہیے اور ملک کو آگے بڑھانے کے لیے سب مل کر چلیں۔’

غورطلب ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر کا راستہ صاف کرتے ہوئے متنازعہ مقام  پر مسلم فریق  کا دعویٰ خارج کردیا ہے۔ فیصلے کے مطابق رام جنم بھومی ٹرسٹ  کو 2.77 ایکڑ زمین کا مالکانہ حق دیا جائےگا۔اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے سرکار کوہدایت  دی ہے کہ وہ ایودھیا میں مسجد کے لیے کسی اہم جگہ پر پانچ ایکڑ زمین دے۔ یہ زمین سنی وقف بورڈ کو دی جائےگی۔قابل ذکر ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں یہ بھی کہا کہ 1992 میں بابری مسجد کو گرانا اور 1949 میں مورتیاں رکھنا غیرقانونی تھا۔اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے مرکزی حکومت کو مندر بنانے کے لیے تین مہینے میں منصوبہ تیار کرنے اور ٹرسٹ بنانے کی ہدایت دی ہے۔