کئی نارتھ ایسٹ ریاستوں میں شہریت ترمیم بل کے نافذ نہ ہونے کے باوجود اس علاقے کی ریاستوں میں اس کے خلاف لگاتار مظاہرے ہو رہے ہیں۔
سوموار 9 دسمبر کو مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ جب لوک سبھا میں شہریت ترمیم بل 2019 پیش کر رہے تھے، اس وقت نارتھ ایسٹ کی کئی ریاستوں میں لوگ اس بل کی مخالفت میں سڑکوں پر اترے ہوئے تھے۔ آسام،تریپورہ، منی پور، ناگالینڈ میں گزشتہ کئی ہفتوں سے اس بل کی مخالفت جاری ہے۔اکتوبر کے شروعاتی ہفتے میں وزیر داخلہ امت شاہ کے اس بل کو آئندہ پارلیامنٹ سیشن میں پیش کرنے کے اعلان کے بعد سےہی اس کی مخالفت شروع ہو گئی تھی۔ تنظیموں کے ذریعے جاری ایک ریلیز میں کہا گیاتھا کہ یہ بل نارتھ ایسٹ علاقے کی قبائلیوں کے سر پر لٹک رہی خطرہ کی تلوار ہے۔
مختلف ریاستوں کی الگ الگ تنظیموں کے مظاہرہ کے درمیان نارتھ ایسٹ اسٹوڈنٹس یونین (این ای ایس یو)نے 10دسمبر کو نارتھ ایسٹ میں بند کا اعلان بھی کیا تھا، جس کا اثر تمام ریاستوں میں دیکھنے کو ملا۔واضح ہو کہ شہریت ترمیم بل2019 میں31 دسمبر 2014 کو یا اس سے پہلے پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آئےان ہندوؤں، جین، عیسائیوں، سکھوں، بودھ اور پارسیوں کو غیر قانونی پناہ گزین نہ مانتے ہوئے ہندوستانی شہریت دی جائےگی، جو اپنے ملک میں استحصال کی وجہ سےہندوستان آئے تھے۔
اس بل میں ان ممالک سےہندوستان میں پناہ لینے والی غیرمسلم کمیونٹی کے لوگوں کو شہریت پانے کے لئے 12سال ہندوستان میں رہنے کی ضرورت کو چھ سال کیا گیا ہے۔ حالانکہ بل میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ نارتھ ایسٹ کی جن ریاستوں(اروناچل پردیش، ناگالینڈ، سکم اور میزورم)میں’انر لائن پرمٹ ‘کا انتظام اور جو علاقہ آئین کی چھٹی فہرست کے تحت آتے ہیں، ان کو اس بل کے دائرے سے باہر رکھا جائےگا۔
چھٹی فہرست کے اندر آسام کی تین آٹونامس ڈسٹرکٹ کونسل، میگھالیہ میں شیلانگ کو چھوڑکرتمام حصہ، تریپورہ کے کچھ علاقہ آتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس بل کے کے ذریعے ہندوستانی شہریت پانے کے بعد اروناچل پردیش، ناگالینڈ، سکم، میزورم اور چھٹی فہرست کے تحت آنے والے علاقوں میں نہیں بس سکیںگے۔ ساتھ ہی موجودہ ہندوستانی شہریوں پر بھی یہی پابندیاں نافذ رہیںگی۔
سوموار کو لوک سبھا میں یہ بل پیش کرنے کے دوران مرکزی وزیر داخلہ نے کہا کہ منی پور بھی اب سے انر لائن پرمٹ انتظام کے تحت آئےگا، جس کی وجہ سےیہاں بھی شہریت ترمیم بل نافذ نہیں ہوگا۔ 2014 اور 2019 دونوں لوک سبھا انتخاب سے پہلے جاری منشور میں بی جے پی نے یہ بل لانے کا وعدہ کیا تھا۔ 2019 کی شروعات میں اس وقت کے این ڈی اےحکومت نےنارتھ ایسٹ ریاستوں کی بھاری مخالفت کے درمیان اس کو لوک سبھا میں پیش کیا تھا، لیکن راجیہ سبھا میں اس کو پیش نہیں کیا جا سکا تھا، جس کی وجہ سےیہ غیرمؤثر ہو گیا تھا۔
اس سال اکتوبر میں مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ نارتھ ایسٹ کے دورے پر گئے تھے، جب انہوں نے اس بل کو پارلیامنٹ کے سرمائی اجلاس میں پیش کئے جانے کا اعلان کیا۔ اس کے بعد سے ہی مختلف ریاستوںمیں اس کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں۔نارتھ ایسٹ کی مختلف ریاستیں اس بل کو قبائلی وقار اور مذہب کی بنیاد پر شہریت طے کرنے کے لئے آئین کے اصولوں مد نظر اس پر سوال اٹھائے جا رہے ہیں۔
آسام
آسام میں شہریت ترمیم بل کےخلاف مشتعل مظاہرے ہوئے ہیں۔ ریاست کی حکومت میں شامل آسام گن پریشد(اے جی پی)نے جنوری 2019 میں اس بل کے اس وقت کی لوک سبھا میں پیش ہونے کے بعد حکومت سےحمایت واپس لے لی تھی۔ پارٹی نے وزیراعلیٰ سربانندسونووال پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے بل کو لےکر اے جی پی کو تعاون نہ کرنے اورآسامی لوگوں کے جذبات اور مفادات کی قدر نہیں کرنے کا الزام لگایا تھا۔ پارٹی کا واضح طورپر کہنا تھا کہ یہ آسام سمجھوتہ کی خلاف ورزی ہے۔
بتا دیں کہ آسام میں مقامی بنام باہری کا مدعا دہائیوں سے مؤثر رہا ہے، جس کے لئے 80 کی دہائی میں چلی آسام تحریک کے نتیجہ کے طورپر آسام سمجھوتہ بنایا گیا تھا۔ آسام سمجھوتہ میں 24 مارچ1971 کی تاریخ کو کٹ آف مانا گیا تھا اور طے کیا گیا تھا کہ اس وقت تک آسام میں آئےہوئے لوگ ہی یہاں کے شہری مانے جائیںگے۔گزشتہ دنوں مکمل ہوئے این آرسی کی کارروائی کا اہم پوائنٹ بھی یہی کٹ آف تاریخ ہے۔ اس کے بعد ریاست میں آئےلوگوں کو’ غیر ملکی ‘ مانا جائےگا۔ اب شہریت بل کو لےکر مخالفت بھی اسی پوائنٹ کو لےکر ہے۔ شہریت بل میں 31 دسمبر 2014 تک ہندوستان میں آئے لوگوں کو شہریت دینے کی بات کہی گئی ہے۔
مقامی تنظیموں کا کہنا ہے کہ آسام کے لئے ایک کٹ آف تاریخ طے ہے تو ہندو بنگلہ دیشیوں کو شہریت دینے کے لئے یہ بل لایا جا رہا ہے۔ کئی تنظیم دعویٰ کرتے ہیں کہ آسام سمجھوتہ کے اہتماموں کےمطابق 1971 کے بعد بنگلہ دیش سے آئے تمام غیر قانونی غیر ملکی شہریوں کو وہاں سےجلا وطن کیا جائےگا بھلےہی ان کا مذہب کچھ بھی ہو۔بل کو لےکر ریاست کی برہمپتراور براک وادی میں رہنے والے لوگوں کے درمیان اختلاف ہے۔ بنگالی اکثریت والی براک وادی بل کے حق میں ہے، جبکہ برہمپتر وادی کے لوگ اس کے خلاف ہیں۔
گزشتہ دنوں مظاہرہ کرنے اترےمظاہرین کا کہنا ہے کہ اس بل میں ترمیم کرکے حکومت غیر قانونی ہندو مہاجروں کوبسانے اور آسام مخالف پالیسی اپنا رہی ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آسام کے مقامی لوگ اس کو منظور نہیں کر سکتے کیونکہ یہ بل دیگر ممالک کے لوگوں کو یہاں بساکر یہاں کےباشندوں کواور ان کی زبان کو خطرے سے دوچار کر دےگا، ساتھ ہی ان کےروزگارپر بھی بحران کھڑا ہو جائےگا۔
تریپورہ
تریپورہ کے کچھ حصے چھٹی فہرست کے تحت آتے ہیں، لیکن قبائلی اکثریتی اس ریاست میں شہریت ترمیم بل کی پرزورمخالفت ہو رہی ہے۔ ان میں سب سے زیادہ مخالفت تریپورہ ٹرائبل آٹونامس ڈسٹرکٹ کونسل (ٹی ٹی اے ڈی سی) میں ہو رہی ہے۔ ساتھ ہی لمبے وقت سے چلی آ رہی الگ ریاست’تپرالینڈ’کی مانگ پھر سے اٹھائی جا رہی ہے۔مخالفت کی بنیاد قبائلی پہچان کو اس بل سے ہونے والا خطرہ ہے۔ مخالفت کرنے والی جماعتوں میں آئی پی ایف ٹی اہم ہے، جو ریاست کی بی جے پی حکومت میں شامل بھی ہے۔ پارٹی کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ اس بل کے خلاف ہیں اور ان کو اپنی ایک الگ ریاست چاہیے۔
اس کے ساتھ ہی کئی قبائلی،سیاسی اور سماجی جماعت اس کے خلاف ساتھ آ گئے ہیں اور ‘ جوائنٹ موومینٹ اگینسٹ سٹیزن شپ امینڈمنٹ بل ‘کے بینر تلے اکٹھا ہوکر اس کی مخالفت کر رہے ہیں۔ اس تنظیم کے کنوینر اینتھونی دیب برما کا کہنا ہے، ‘ بنگلہ دیش سے بڑی تعداد میں لوگوں کی آمدکی وجہ سے ویسے بھی ہماری کمیونٹی گنتی کی ہی بچی ہے۔ ہم نہیں چاہتے کہ اس بل کے کی وجہ سےحالت اور خراب ہو جائے۔ ‘
کئی دیگر قبائلی تنظیم بھی اس بل کے خلاف کھڑے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ اس بل کے آ جانے کے بعد سرحد پار سےگھس پیٹھ اور بڑھ جائےگی۔ وہ دلیل دیتے ہیں کہ تریپورہنارتھ ایسٹ کی واحد ایسی ریاست ہے، جہاں مشرقی پاکستان (اب بنگلہ دیش)سے غیر-آدیواسیوں کی بڑی آبادی آنےکی وجہ سےآدیواسی آبادی اقلیت ہو گئی ہے۔
آئی ایل پی ریاست
منی پور
9 دسمبر کو جب مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ نے شہریت ترمیم بل لوک سبھا میں پیش کیا تھا، تب تک منی پور ا س کےدائرے میں تھا۔ بل پر بحث کے دوران شاہ نے کہا کہ ہم منی پور کے لوگوں کے جذبات کودیکھتے ہوئے ان کو بھی انر لائن پرمٹ میں شامل کر رہے ہیں۔ حالانکہ اس کے باوجود منی پورمیں بل کی مخالفت ہو رہی ہے۔ منی پور کی کچھ طلبا تنظیم اب بھی اس کی مخالفت میں ہیں۔ ان کی یہ مخالفت نارتھ ایسٹ اسٹوڈنٹس یونین کے ذریعے بلائے گئے بند اور ان کی حمایت میں ہے۔
میزورم
یہ ریاست بھی انر لائن پرمٹ کے دائرے میں ہے، لیکن یہاں بھی مقامیوں کا ڈر رہا ہے کہ اس بل کے آنے کے بعد غیرقانونی طور پر بنگلہ دیش سے ریاست میں آئے چکمہ بودھ کو جواز مل جائےگا۔ ساتھ ہی کچھ تنظیم یہ بھی مانتے ہیں کہ آسام اس بل کے آنے کے بعد بڑی آبادی کے آنے سے متاثر ہوگا، ایسے میں ممکن ہے کہ پڑوسی ریاست ہونے کی وجہ سے میزورم میں بھی اس کا اثر دیکھا جائے ۔
ریاست کے ایک مؤثر تنظیم سینٹرل ینگ میزو ایسوسی ایشن کے جنرل سکریٹری لال مچوانا کا کہنا ہے، اس لئے بہترہوتا کہ نارتھ ایسٹ کے پورے علاقے کو اس بل کے دائرے سے باہر رکھا جاتا۔’وہیں سابق وزیراعلیٰ لال تھانہولا بھی چاہتے ہیں کہ یہ چھوٹ بڑھائی جائیں۔ ان کا کہنا ہے کہ صرف آسام اورمنی پور کو سزا کیوں دی جا رہی ہے۔
وہ اس بل کے مقصد پر سوال کھڑے کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ‘ حکومت اس کو اس لئے لانا چاہتی ہے کہ ان تینوں پڑوسی ممالک میں زیادہ تر اقلیت ہندو ہیں، عیسائیوں کی تعداد برائے نام کی ہے۔ ان کا ارادہ صاف ہے۔ یہ پورے نارتھ ایسٹ کے لئے اشارہ ہے۔ اس کے بعد وہ یونیفارم سول کوڈ لائیںگے۔ ‘اس کے علاوہ یہاں بھی کئی مقامی تنظیمیں نارتھ ایسٹ اسٹوڈنٹس یونین کی حمایت میں ہیں، جونارتھ ایسٹ ریاستوں میں اس بل کو نافذ کرنے کی مخالفت کر رہی ہیں۔
ناگالینڈ
ناگا قبائلی تنظیم نگا ہوہو بھی شہریت ترمیم بل کے خلاف ہے۔ تنظیم اس پر سوال اٹھا رہی ہے کہ آخر اس کی ضرورت ہی کیوں ہے۔نگا ہوہو کے جنرل سکریٹری کےایل ڈانگ کہتے ہیں،’ہم انر لائن پرمٹ کی وجہ سے اس سے بچے ہوئے ہیں لیکن اس کی ضرورت کیا ہے؟ اس سے نارتھ ایسٹ کے قبائلی ریاستوں کی جغرافیائی حالت متاثر ہوگی۔ ‘
ان کا کہنا ہے کہ نگاؤں میں یہ ڈر بھی ہے کہ مہاجر نگا علاقوں میں بھی بسیںگے۔
میگھالیہ
میگھالیہ سے آنے والی حکمراں نیشنل پیپلس پارٹی(این پی پی)کا رکن پارلیامان اگاتھا سنگما نے لوک سبھا میں اس بل کی حمایت تو کی لیکن یہ اپیل بھی کی کہ پورے نارتھ ایسٹ کو ا س کے دائرے میں نہ رکھا جائے۔ حالانکہ ان کا حزب ان کی پارٹی اور حکمراں میگھالیہ ڈیموکریٹک الائنس(ایم ڈی اے)کے حزب کے برعکس تھا۔گزشتہ30 نومبر کو وزیراعلیٰ کونراڈ سنگما نے اس بل کی مخالفت میں ایک تجویز منظور کی تھی اور ان کی رہنمائی میں دہلی میں ریاست کے ایک وفدنے مرکزی وزیر داخلہ سے ملاقات کرکے میگھالیہ میں یہ بل نافذ نہ کرنے کی اپیل کی تھی۔
ریاست میں یہ بل نافذنہیں ہے، لیکن باقی ریاستوں میں ہو رہی مخالفت کی حمایت میں یہاں بھی مظاہرے ہو رہےہیں۔ سابق وزیراعلیٰ اور کانگریس رہنما مکل سنگما بھی اس بل کی مخالفت میں کھڑے ہیں۔ انہوں نےنارتھ ایسٹ ریاستوں میں ہو رہے تمام مخالفت کے باوجود اس بل کو منظور کرنے کے لئے مرکز کی این ڈی اےحکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ نارتھ ایسٹ کے لوگوں نے اپنے مفادات کو لےکر حکومت کو واضح طور پر بتایا تھا لیکن انہوں نے اس کا الٹا کیا۔ اس بل سے پورے نارتھ ایسٹ پر گہرا سماجی اثر پڑےگا۔ وہ وزیر داخلہ سے ملنے والےوفد کا حصہ بھی تھے، لیکن ان کا یہ ماننا ہے کہ بل کے مقصد کو اس طرح سےڈھکنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ نارتھ ایسٹ کی ریاست آئی ایل پی اور چھٹی فہرست کی وجہ سے بچے ہوئے ہیں۔ یہ سب صرف دکھاوے کے لئے ہے۔
منگل کو بلائے گئے نارتھ ایسٹ اسٹوڈنٹس یونین کے بند کا اثر یہاں بھی دیکھنے کو ملا تھا۔
اروناچل پردیش
آل اروناچل پردیش اسٹوڈنٹس یونین لمبے وقت سے اس بل کے خلاف رہا ہے۔ ریاست میں بل نافذ نہ ہونے کےباوجود 10 دسمبر کو بلائے گئے بند کا اثر ریاست میں پوری طرح دیکھنے کو ملا۔ مختلف طلبا اور قبائلی تنظیمیں اس کے خلاف سڑکوں پر اتری ہیں۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ اس بند کا مقصد اس علاقے کی عوام اور آدیواسیوں کے مفاد میں ہے۔نارتھ ایسٹ ریاستوں کی سخت مخالفت کے باوجودمرکز کی بی جے پی حکومت کے ذریعے اس کو پاس کیا جا رہا ہے۔
تنظیم کے صدر ہاوا بگانگ کاکہنا ہے کہ اس علاقے کی تمام ریاستوں کو بل کے دائرے سے باہر رکھا جانا چاہیے۔انہوں نے کہا، ‘ ہم تمام چھوٹی ریاستیں ہیں اور یکجہتی اہم ہے۔ اور اسی یکجہتی کےلئے ہم اس بل کے خلاف نارتھ ایسٹ اسٹوڈنٹس یونین کے بند کی حمایت کر رہے ہیں۔ اسی طرح کی سوچ یونائٹیڈاروناچل انڈیجنس پیپلس فورم کی بھی ہے۔ سوموار کو بل کی مخالفت میں سڑکوں پر اتری تنظیم کے کارکنان کا کہنا تھا کہ وزیر داخلہ اس طرح نارتھ ایسٹ کی ریاستوں میں فرق نہیں کر سکتے۔
اس فورم کے صدر لافے پفا کاکہنا ہے کہ بل کے مسئلے پر مرکزی حکومت نارتھ ایسٹ ریاستوں کو گمراہ کر رہی ہے۔انہوں نے کہا، ‘آپ (وزیر داخلہ امت شاہ) نارتھ ایسٹ میں امتیاز نہیں کر سکتےکیونکہ سیون سسٹر ایک ہی ہیں۔ اگر آسام اس مدعے پرسلگ رہا ہے، تو پڑوسی ہونے کےناطے اروناچل بھی یہ درد محسوس کرےگا۔ ہم پوری طرح سے اس بل کے خلاف ہیں۔ ‘
سکم
سکم میں آرٹیکل371 ایف کےخاص اہتمام نافذ ہیں، ایسے میں اگر یہاں یہ بل لایا جاتا ہے، تو وہ غیرآئینی ماناجائےگا۔ سکم کا نام اس بل میں نہیں ہیں، جس کی وجہ سے بل کو لےکر کشمکش کی حالت بنی ہوئی ہے۔
سکم کرانتکاری مورچہ کے رکن پارلیامان اندر ہنگا سبا اس کے خلاف ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ‘ سکم آزادی کے وقت تک ہندوستان کا حصہ نہیں تھا، لیکن 1975 میں اس کا ہندوستان میں انضمام ہوا اورآرٹیکل 371 ایف کے اہتماموں کے تحت ہمارے روایتی قوانین کی حفاظت متعین کی۔ ہم چاہتے ہیں کہ سکم کو اس بل سے چھوٹ ملے اور جب تک ایسا نہیں ہوتا، ہم اس کی مخالفت کریںگے۔ ‘
سکم کانگریس اور فٹ بال کھلاڑی بائیچنگ بھوٹیا کی ہمرو سکم پارٹی نے بھی اس بل کی مخالفت کی ہے۔ بھوٹیانے ڈر ظاہر کیا کہ اس بل کی وجہ سے ہمالیائی ریاست کو ملنے والے خصوصی اہتمام کمزور پڑ سکتے ہیں، جو اس کو آئین کے آرٹیکل 371 ایف کے تحت حاصل ہے۔
بھوٹیا کا بھی کہنا ہے کہ دیگرنارتھ ایسٹ ریاستوں کی طرح بل میں سکم کا بھی تحریری طورپر ذکر کیا جائے۔
Categories: خبریں