اگر شہریت قانون دوسرے ملکوں کے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے، تو این آر سی ہندوستان کے موجودہ شہریوں کے تئیں عداوت ہے، جس کی وجہ سے یہ کہیں زیادہ خطرناک ہے۔
حکومت اور اس کے حمایتی اور مداحوں کےذریعے یہ باربار کہا جا رہا ہے کہ شہریت قانون سے ‘ہندوستان کا ایک بھی شہری’متاثر نہیں ہوگا اور یہ شہریت ھن قانون صرف تین پڑوسی ملکوں مسلم اکثریت بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے آنے والے لوگوں پر نافذ ہوتا ہے اور ہندوستانیوں کو اس سے فکرمندہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اسی کے ساتھ کیا جانے والا ایک اور دعویٰ یہ بھی ہے کہ ان تینوں ملکوں میں کہیں بھی مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک نہیں ہوتا ہے اور ہندو ،ہندوستان کے علاوہ اور کہاں جا ئیں گے؟اس دلیل کو کچھ منٹوں میں ہی رد کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ دعویٰ ہی اپنے آپ میں درست نہیں ہے کہ مسلم ملکوں میں ذاتی طورپراورادارہ جاتی سطح پر بھی مسلمان امتیازی سلوک کے شکار نہیں ہوتے ہیں۔
حقیقت میں سرکار کےذریعے اپنی پالیسی کے سب سے زیادہ مسئلہ پیداکرنے والےمرحلے این آر سی سے لوگوں کا دھیان ہٹانے کی شرمناک کوششیں ہندوستان میں رہنے والے لوگوں کے لیے زیادہ باعث تشویش ہیں۔سی اے اے کے ساتھ مل کراین آر سی ایک خوفناک منصوبہ ہے، جو نہ صرف ہندوستان کی ایک بڑی آبادی کو باہر کر دےگا اور ان سے ان کی شہریت چھین لےگا، بلکہ ان شہریوں کواقتدار کے رحم و کرم پر چھوڑ دےگا۔
کسی کو اس رجسٹر میں شامل کرنے یا نہ کرنے کا اختیات سرکار اور نوکر شاہی کے پاس آ جائے گا۔یوں کہیں کہ، تو اگر کسی کو یہ لگتا ہے کہ چونکہ وہ مسلمان نہیں ہے، اس لیے محفوظ ہے، تو وہ غفلت میں ہے۔سرکار اور اس کی طرفداری کرنے والے یہ لگاتار کہہ رہے ہیں کہ این آر سی کو پورے ہندوستان میں نافذ نہیں کیا گیا ہے۔ لیکن ایسی منشا کسی اور نے نہیں، خود امت شاہ نے ظاہر کی تھی۔
آج نہ کل وہ دن بھی آئےگا۔
تب ملک کے ہر شہری کو اپنی ہندوستانیت ثابت کرنی پڑےگی۔ اس کے لیے اسے ایک طے شدہ فہرست میں سے دستاویز پیش کرنا ہوگا۔ اس مرحلے میں، اگر کسی کے پاس دستاویز ہے بھی اور ہو سکتا ہے کہ لاکھوں کروڑوں لوگوں کے پاس ایسا کوئی دستاویز ہو ہی نہیں تو بھی کوئی بابو اس میں نقص نکال سکتا ہے۔
یقینی طور پر لوگوں کے پاس درخواست نہ کرنے کااختیارہوگا، لیکن ہندوستانی خود کو بچاکر چلنا چاہتے ہیں اور ہرممکن سرکاری دستاویز اپنے پاس جمع کر لینا چاہتے ہیں۔لوگوں کو لگتا ہے کہ پتہ نہیں کب کس دستاویز کی ضرورت پڑ جائے۔ مثال کے طورپر بڑے شہروں کی جھگی جھوپڑیوں میں لوگوں کے پاس اکثر آدھار کارڈ، پین، راشن کارڈ، ووٹر آئی ڈی کارڈ اوردوسرے کاغذات ہوتے ہیں، جن کے بل پر وہ سرکاری ایجنسیوں کے سامنے خود کو محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
این آر سی کی پوری قواعد کے مکمل ہونے پر آسام میں کافی خرچ کرنے کے بعد یہ کام کئی سالوں میں پورا ہو سکا ایک بڑا سرکاری عملہ ان کاغذات کی جانچ کرےگا اور سبھی شہریوں کی ایک فہرست جاری کرےگا۔اگر آپ کا نام اس فہرست میں شامل ہے، تو اچھا ہے، لیکن اگر آپ کے ذریعے جمع کئے گئے کاغذات طے شدہ کسوٹیوں پر کھرے نہیں اترتے، تو آپ عملی طورپرہندوستان کے شہری نہیں رہیں گے۔
اس نکتے پر سی اے اے، جو اس قواعد کا زیادہ خطرناک حصہ ہے، کا کھیل شروع ہوگا۔ جن کا نام این آر سی میں شامل نہیں ہوگا، وہ شہریت کے لیے درخواست دیں گے۔ لیکن بدقسمتی سے، این آر سی سے باہر رہ گئے مسلمان اس کے لیے درخواست نہیں کر سکیں گے۔ ہندوستان میں کئی نسلوں سے رہ رہی مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی، خود کو باہر پائےگی۔ وہ بے وطن ہو جائیں گے۔
حکومت انہیں ملک بدر کرنا چاہےگی کوئی نہیں جانتا کہاں اور اگر کوئی ملک انہیں قبول نہیں کرےگا، تو انہیں حراست کیمپ(ڈٹینشن سینٹر)میں رکھ دیا جائےگا۔عام سمجھ کے مطابق ہندوؤں کے لیے اتنی بڑی مصیبت نہیں کھڑی ہوگی۔ این آر سی سے باہر رہ گئے لوگوں کو اب یہ دعویٰ کرنا پڑےگا کہ وہ متذکرہ تین ملکوں سے آئے ہوئے پناہ گزین ہیں اور وہ چھ سالوں سے ہندوستان میں رہ رہے ہیں۔
اگر یہ تصور کریں کہ ایک بڑی آبادی اس طرح سے شہریت پانے کی اہل مانی جائےگی، تب بھی یہ قواعد انہیں اپنے ہی ملک میں، دہائیوں سے وہ جس کے شہری رہے ہیں، دوسرے یا دوئم درجے والا بنا دےگی۔تصور کیجئے کہ اگر ایسا کوئی شہری سرکار کو پسند نہ آنے والا کوئی کام کرتا ہے، تو سرکار آسانی سے اس کی فائل کھول دےگی اور جانچ کے دوران اس کے درجے کوختم کر دےگی۔
ہندوؤں اوردوسروں کو یہ لگ سکتا ہے کہ این آر سی یا سی اے اے انہیں خصوصی حق دیتا ہے، لیکن حقیقت میں ان پر بھی خطرہ کوئی کم نہیں ہے۔پیدائش سے ملی شہریت، کچھ حالات کے علاوہ چھینی نہیں جا سکتی ہے، لیکن پناہ گزین کے طور پر ملی نئی نئی شہریت کے چھن جانے کا خطرہ ہمیشہ بنا رہےگا۔
یہ بے شمار لوگوں کو جوکھم میں ڈال دے دےگا اور انہیں ہمیشہ اس بات کا ڈر ستاتا رہےگا کہ کہیں سرکار ان سے ناراض نہ ہو جائے۔اس ڈراؤنے منصوبےسے پریشان ہوکر ہرش مندر نے کہا ہے کہ وہ اپنا نام مسلم کے طور پر درج کرائیں گے۔ یہ ایک حوصلے والا اور نافرمانی بھرا اعلان ہے جس میں سرکار کو یہ وارننگ چھپی ہے کہ وہ ان کی شہریت چھین کر دکھائے۔
لیکن ایک راستہ اور ہے اور یہ راستہ ہے کہ اس پوری کارروائی میں شامل ہونے سے ہی انکار کر دیا جائے۔
صرف این آر سی میں شامل ہونے سے ہی انکار نہ کیجئے، بلکہ شہریت قانون کے تحت قبول کر لیے جانے کے لیے بھی کوئی حلف نامہ دائر مت کیجئے۔ میں یہی کرنا چاہوں گا۔میری پیدائش اس مٹی پر ہوئی ہے اور میں نے اپنی پوری زندگی ہندوستان کے شہری کے طور پر بتائی ہے۔ میں نے اپنے سبھی حقوق پر دعویٰ کیا ہے اور اپنے سارے فرائض نبھائے ہیں۔
اب میں خود کو اس بات کے لیے سرکاری جانچ کے لیے پیش کرنے سے انکار کرتا ہوں جو مجھے پتہ ہے اور جسے سرکار نے قبول کیا ہے۔میرےپاس خود کو ہندوستان کا اصلی اور قانونی شہری ثابت کرنے کے لیے سبھی ضروری سرکاری ثبوت ایک ووٹر آئی ڈی کارڈ، ایک پاسپورٹ اوردوسرے دستاویز ہیں۔ اس سب کے ہوتے ہوئے خود کو ایک مہاجراعلان کرنا، مجھے قبول نہیں ہے۔
کہاں کامہاجراور کیوں؟ جو چیز پہلے سے ہی میری ہے، اس کی مانگ کرنا ایک جھوٹ ہوگا۔ہو سکتا ہے کہ اس ذاتی نافرمانی کا کوئی مطلب نہ ہو اور اس کے خطرناک نتائج ہوں، لیکن اس بارے میں سوچئے : کیا ہوگا اگر لاکھوں کروڑوں لوگ اس سے خود کو الگ کر لیتے ہیں۔ اس نظام کو دیکھتے ہوئے یہ ممکن ہے کہ اس سے اسے خوشی ہی ہو، کیونکہ یہ ان لوگوں کو باہر کر دےگا، جنہوں نے اسے ووٹ نہیں دیا ہوگا۔
انتخابی سیاست ہمیشہ سے بی جےپی کے‘بڑےمنصوبوں’کے مرکز میں رہی ہے۔ این آر سی اور سی اےاے گہرے دھنسے فرقہ وارانہ تعصب سے رنگا ہونے کے ساتھ ساتھ باہر رہ جانے والے لوگوں کے ووٹ دینے کے حق کو بھی دھیان رکھتا ہے خاص طورپر اتر کے ہندوؤں کا، جہاں بی جےپی مضبوط رہی ہے۔
اور انہیں الگ کرتا ہے، نمایاں طور پر مسلمانوں کو، جو پارٹی کو ووٹ نہیں کرتے ہیں۔ (بھارت کی آبادی کاڈرامائی طورپر کم ہو جانا بھی ہندتوا بریگیڈ کے برے سپنوں میں ایک رہا ہے۔)اس لے سی اے اےکو این آر سی کے ساتھ جوڑکر دیکھا جانا ضروری ہے۔ آسام میں جہاں اس قواعد کاسیاق کافی الگ اورخاص تھا، اس کے ایسے نتائج نکلے، جس کے بارے میں کسی نے سوچا نہیں تھا رجسٹر سے باہر رہ گئے 19 لاکھ لوگوں میں ہندوؤں کی تعداد کہیں زیادہ تھی۔
بی جےپی ایسا نہیں چاہتی تھی اور مقامی اکائی کے اعتراض کے بعد یہ اپنے پاؤں پیچھے کھینچ رہی ہے۔ قومی سطح پر اس کا زیادہ پیچیدہ اورمسائل سے بھرا ہونا طے ہے۔ اس پورے منصوبے کو رد کرنا ہی ایک واحد راستہ ہے۔پورےہندوستان ہو رہے مظاہرے، جس نے کئی مسئلوں پر سرکار کے خلاف غصے کی گہرائی کو دکھایا ہے، نمایاں طور پر سی اےاے کو لےکر ہے۔
یہ افسوسناک ہوگا اگر شروعاتی جوش اورتوانائی کے بعد یہ مظاہرے کمزور پڑ جائیں۔ اب این آر سی کی طرف رخ کرنے کی ضرورت ہے۔ شہریت قانون دوسرے ملکوں کے مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے، تو این آر سی ہندوستان کے موجودہ شہریوں کے تئیں عداوت ہے، جس کی وجہ سے یہ کہیں زیادہ خطرناک ہے۔
Categories: فکر و نظر