یہ حق کی لڑائی ہے۔ ایک طرف نفرت ہے اور ایک طرف ہم۔ میں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہم صحیح ہیں۔ نفرت پھیلانے والے پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن ہم نے بھی گاندھی جی کا دامن تھام رکھاہے۔ میں یہ بھی یقین دلاتا ہوں کہ ہم کامیاب ہوں گے کیونکہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
کبھی کبھی مضمون کچھ سمجھانے کے لیے لکھے جاتے ہیں، کبھی کبھی کچھ بتانے کے لیے۔ کبھی یہ کہانی ہوتی ہے، کبھی یہ قصہ۔ کبھی یہ سوچ ہوتی ہے، تو کبھی یہ سمجھ ہوتی ہے۔ یہ مضمون ان میں سے کچھ بھی نہیں۔بس ایک ادھورے راستے کا میل کا پتھر ہے۔ منزل ابھی دور ہے لیکن اس منزل تک پہنچنے کا ایک پڑاؤ تو ضرور آ چکا ہے اور میں اس پڑاؤ پر تھوڑا ٹھہرکرآپ سے بات کرنا چاہتا ہوں۔
مسئلہ ابھی گرم ہے شہریت قانون یعنی سی اے اے اور این آر سی کا اور میں آپ کو ان دونوں کے بارے میں کچھ نہیں بتاؤں گا۔اگرآپ مودی جی اور امت شاہ کے جھوٹوں پریقین کرتے ہیں، تو 300-400 ویڈیو اورمضامین آپ کوہیش ٹیگ آئی سپورٹ سی اےاے_این آر سی کے بھی مل جائیں گے۔ لیکن میں سی اےاے/این آر سی کے اتنا ہی خلاف ہوں، جتناکسی کے میرا گلا گھونٹنے کے۔
لیکن جیسا کہ پہلےہی کہا یہ مضمون میں سی اےاے/این آر سی سمجھانے کے لیے نہیں لکھ رہا ہوں۔ یہ مضمون میں اس انقلاب کے بارے میں لکھ رہا ہوں جس کو آج ہم سب سیکولر ہندستانی جی رہے ہیں۔ملک کے چپے چپے میں انقلاب کے نعرے گونج رہے ہیں۔ آزادی کی خوشبو ہوا میں گھلی ہے۔ ہم ڈنڈے کھا رہے ہیں، گھسیٹے جا رہے ہیں، ذلیل ہو رہے ہیں۔ ہمیں گالیاں دی جا رہی ہیں، گولیاں برسائی جا رہی ہیں، آنسو گیس کے گولے داغے جا رہے ہیں۔
ہمارےگھروں میں گھس کر انہیں تباہ کیا جا رہا ہے۔ بزرگوں، بچوں اورعورتوں کسی کو نہیں بخشاجا رہا۔ سینکڑوں زخمی ہو چکے ہیں۔ کچھ تو اپنےآنکھ، ناک، ہاتھ پاؤں کی انگلیاں گنواچکے ہیں۔ اور پورے ہندوستان میں اب تک 22 لوگ جان گنواچکے ہیں۔ایک عجیب سی بات ہو رہی ہے۔ ہم رک نہیں رہے ہیں، تھم نہیں رہے ہیں۔ ہم گھبرا نہیں رہے ہیں، تھرا نہیں رہے ہیں۔ ہم تھک نہیں رہے ہیں، جھک نہیں رہے ہیں۔
میں نے ہر گولی کے بعد انقلاب کے نعروں کو زیادہ پرزور ہوتے دیکھا ہے۔ آنسو گیس سے بھرے پھیپھڑوں کو میں نے آزادی کے نعرے کو ہوا دیتے سنا ہے، لیکن آپ لوگوں کو پتہ ہے ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ایسا اس لیے ہو رہا ہے کہ یہ حق کی لڑائی ہے۔ ایک طرف نفرت ہے اور ایک طرف ہم ہیں۔ میں آپ کو یہ یقین دلانا چاہتا ہوں کہ ہم صحیح ہیں۔ لوگ ہمیں چاہے دہشت گرد کہیں چاہے شرپسند۔
لیکن یہ سب جھوٹ بول رہے ہیں۔ ہم یہاں وجود کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ انسانیت کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔ کہیں پر بھی ہم سیکولر ہندستانی، تشدد کا سہارا نہیں لے رہے ہیں۔جونفرت پھیلانے والے ہیں وہ پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن ہم نے بھی گاندھی جی کا دامن کس کرتھام لیا ہے اور میں یہ بھی یقین دلاتا ہوں کہ ہم کامیاب ہوں گے کیونکہ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں۔
اب بات کرتے ہیں اصل مدعے کی۔ مودی جی اور شاہ جی اور ان کی سرکاروں نے کیا کیا نہیں کر لیا، ڈرا لیا، دھمکا لیا، گریادیا، مار لیا اور پھر مار بھی دیا۔ہانگ کانگ میں مہینوں سے مظاہرہ چل رہا ہے اور ابھی تک وہاں صرف 11 جانیں گئی ہیں، یہاں تو ہفتے دس دن میں 22 لوگ مار دیے گئے۔ پتہ ہے ایسا کیوں ہوا ہے، کیونکہ انہیں لگا تھا کہ ہم ڈر جائیں گے۔
گزشتہ 6 سال سے انہوں نے ہمیں اتنا ڈرایا کہ ڈر ہی ختم کر دیا۔ ایک تاریخ کا صفحہ ہے جو تاریخ کی کتابوں میں کہیں کھو گیا ہے۔ اس کا نام ہے قصہ خوانی بازارقتل عام۔بات ہے 1930 کی۔خان عبدالغفار خان، جوکٹرگاندھی وادی اورخدائی خدمت گاروں کے رہنما تھے۔ یہ خدائی خدمت گار بھی گاندھی جی کے بھکت تھے۔ انہوں نے عزم لیا تھا کہ یہ ہندوستان کو آزاد کراکر ہی چھوڑیں گے، لیکن تشددکے بغیر۔
تو23 اپریل، 1930 یہ خدائی خدمت گار پشا ور کے قصہ خوانی بازار میں انگریزوں کی مخالفت کرنے اکٹھاہوئے۔ تھوڑی ہی دیر میں 3-4 ہزار خدائی خدمت گار وہاں جمع ہو گئے۔دیکھتےہی دیکھتے وہاں منظر ذرا گرم ہونے لگا اور بات یہاں تک بڑھ گئی کہ انگریز افسر نے اس بھیڑ پر گولی چلانے کے حکم دے دیے۔لیکن اس کے بعد جو ہواآپ سوچ بھی نہیں سکتے۔
ایک ایک کرکے جو سامنے کھڑے تھے وہ گولی کھا کر گرنے لگے، لیکن بھیڑ بھاگی نہیں اور نہ ہی انہوں نے تشددکو اپنایا۔اس آگے والی لائن کے پیچھے جو لوگ کھڑے تھے، وہ اپنے گریباں چاک کرکے بندوقوں کے سامنے آگے آکر کھڑے ہو گئے۔انگریزوں نے پھر گولیاں چلائیں، پھر کئی لوگ مرے، لیکن پھر سے ان کے پیچھے والے آگے آکر کھڑے ہو گئے۔ اب بھی کسی نے تشدد کو نہیں اپنایا۔ انگریز گولیاں چلاتے رہے، لوگ مرتے رہے اور پیچھے سے لوگ آگے آتے رہے۔
700-800 کی موت کے بعد انگریزوں کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کریں۔ آخر ان نہتوں کے سامنے انگریزوں کو ہٹنا پڑا۔700-800 جانیں گئیں پر جیت نہتوں کی ہی ہوئی۔ یہ وہ دن تھا جب تشدد کے بغیر مظلوموں نے ظالموں کو ڈرا دیا تھا۔ اور آج بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔
مودی جی اور شاہ کی تھوڑی چال بدل گئی ہے۔ ہم سیکولر ہندستانیوں نے ان کا بھرم توڑ دیا ہے۔ پچھلے ہفتے دس دن میں ہم نے ان کا ڈر توڑ دیا ہے۔جو کل تک ہر جگہ سے چلا چلاکر کہہ رہے تھے، این آر سی پورے ملک میں نافذ ہوگا۔ وہی مودی جی اب رام لیلا میدان سے کہہ رہے ہیں کہ ‘پچھلے 6 سال میں ان کی سرکار نے این آر سی کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔’
ہمیں پتہ ہے کہ وہ جھوٹ بول رہے ہیں، لیکن ہم سیکولر ہندستانیوں نے انہیں اس جھوٹ کو بولنے کے لیے مجبور کر دیا ہے۔ انہیں بھی پتہ ہے کہ ہم نے ان کا بھرم توڑ دیا ہے۔اور ایسا کہتے ہیں کہ بھوت سے بڑا اس کا بھرم ہوتا ہے۔ ورنہ بھوت کو بھی پتہ ہے کہ وہ زندہ نہیں ہے۔
غصہ مت ہونا کیونکہ غصہ سب کچھ ختم کردیتا ہے اور ہم پھول اگانے والے ہیں، باغ اجاڑنے والے نہیں۔ لیکن ناراض ہونا مت بھولنا، یہ مت بھولنا کہ یہ ہمیں ہمارے ہی گھر سے بےگھر کرنا چاہتے تھے۔یہ ناراضگی ہی ہماری جان ہے، ہماری طاقت ہے۔ ہمیں ابھی لڑنا اور اس سی اےاے/این آر سی کا ٹنٹا سرے سے ختم کرنا ہے۔ اور جب بھی مشکل آئے تو یاد کرناقصہ خوانی بازار۔
انگریزوں کو بھی غرور تھا، بڑا فخر تھا کہ ان کا سورج کبھی نہیں ڈوبتا ہے، پر اس دن ہم نے ان کے دل ڈبادیے تھے اور صرف ایک طریقے سے، گاندھی جی کے طریقے سے۔ویسے ہی ابھی یہ بس ایک پڑاؤہے، منزل ابھی دور ہے۔ ابھی بہت جدوجہدباقی ہے۔ ابھی تو ہم نے صرف ان کا بھرم توڑاہے، اب ہم ان کا غرور توڑیں گے، ان کا گھمنڈتوڑیں گے۔ جئے ہند۔
(داراب فاروقی اسکرپٹ رائٹر ہیں اور فلم ڈیڑھ عشقیہ کی کہانی لکھ چکے ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر