خبریں

مودی کے دعوے کے برعکس بنگال بی جے پی نے ایک کتابچہ میں سی اے اے کے بعد این آر سی نافذ کر نے کی بات کہی

بی جےپی کی بنگال اکائی کے جنرل سکریٹری باسو نے کہا کہ بنگالی میں جاری اس کتاب میں پوری طرح سے ہندی کاترجمہ نہیں کیا گیا ہے۔ ادھر بنگال میں سی اے اے اور این آر سی کو لےکر بہت بھرم پیدا ہو گیا ہے۔ اس لیے، این آر سی کے پہلو کو کتاب کے بنگالی ایڈیشن  میں شامل کیا گیا ہے اور وہاں لکھا گیا ہے کہ این آر سی کی کارروائی مرکزی حکومت کا خصوصی اختیار ہے۔

شہریت قانون پر بنگال بی جےپی کی کتاب، فوٹو: پی ٹی آئی

شہریت قانون پر بنگال بی جےپی کی کتاب، فوٹو: پی ٹی آئی

نئی دہلی: شہریت قانون(سی اے اے)کے ساتھ ہی مجوزہ ملک  گیراین آر سی کے خلاف ملک بھر میں ہو رہے احتجاج کو ٹھنڈا کرنے کے لیے جہاں وزیر اعظم نریندر مودی نے صاف کیا تھا کہ ان کی حکومت نے این آر سی پر کوئی چرچہ نہیں کی ہے وہیں، سی اے اے پر جاری کی گئی بی جےپی کے بنگالی ایڈیشن  کی کتاب میں اس بات کا ذکر کیا گیا ہے کہ اس کے بعد این آر سی کیا جائےگا۔

بی جےپی نے یہ کتاب اتوار کومغربی بنگال کی راجدھانی کولکاتہ میں جاری کی، جو کہ سی اے اے پر ‘پھیلے بھرم’ کو دور کرنے کے پارٹی کی ملک گیر مہم کا حصہ ہے۔انڈین ایکسپریس کے مطابق، حالانکہ، ہندی ایڈیشن  کی کتاب میں کہیں بھی این آر سی کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔23 صفحات کی کتاب کے آخری ورق پر ایک سوال میں لکھا گیا، کیا اس کے بعد این آر سی ہوگا؟ اس کی کتنی ضروت ہے؟ اور اگر این آر سی ہوگا، تو کیا آسام کی طرح ہندوؤں کو ڈٹینشن سینٹر میں جانا پڑےگا؟

اس کے جواب میں کہا گیا، ہاں، اس کے بعد این آر سی ہوگا۔ کم سے کم مرکزی  حکومت کی منشا تو یہی دکھ رہی ہے۔ اس کے پہلے، ہم اس بات کا صاف ذکر کرنا چاہتے ہیں کہ این آر سی کی وجہ سے کسی ہندو کو ڈٹینشن سینٹر نہیں جانا پڑےگا۔ آسام میں جو 11 لاکھ ہندو ڈٹینشن سینٹر میں رہ رہے ہیں، وہ وہاں غیرملکی قانون کی وجہ سے رہ رہے ہیں۔اس کے بعد کتاب میں بتایا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے احکام کے مطابق آسام میں این آر سی نافذ کیا گیا تھا، اور ریاست میں اس وقت کی  کانگریس حکومت کے ذریعے غیر ملکی قانون کو پاس کیا گیا تھا۔

کتاب میں کہا گیا،‘آسام میں بی جےپی حکومت این آر سی نہیں لائی۔ اس کے بجائے، اس نے این آر سی کے خلاف عدالت کا رخ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔’اس میں کہا گیا ہے کہ سی اے اے نافذ ہونے کے بعد آسام میں حراستی کیمپ  میں بند ہندوؤں کو رہا کیا جائےگا۔ کتاب میں کہا گیا،‘یہ سنا جاتا ہے کہ آسام اور مغربی بنگال میں لگ بھگ دو کروڑ گھس پیٹھیے ہیں۔ ان گھس پیٹھیوں کو فرضی  ووٹر کےطورپر فہرست کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ صرف ملک  میں گھس پیٹھ کی مسئلےکے بارے میں بتاتا ہے۔ اسی لیے ایک ملک گیر این آر سی کی ضرورت ہے۔’

یہ پوچھے جانے پر کہ اسی کتاب کے ہندی ایڈیشن  میں این آر سی کا کوئی ذکر کیوں نہیں ہے، تب بی جےپی کی بنگال اکائی کے جنرل سکریٹری سینتن باسو نے کہا، ‘بنگالی میں جاری اس کتاب میں پوری طرح سے ہندی کاترجمہ نہیں کیا گیا ہے۔ ادھر بنگال میں سی اے اے اور این آر سی کو لےکر بہت بھرم پیدا ہو گیا ہے۔ اس لیے، این آر سی کے پہلو کو کتاب کے بنگالی ایڈیشن  میں شامل کیا گیا ہے اور وہاں لکھا گیا ہے کہ این آر سی کی کارروائی مرکزی حکومت کا خصوصی اختیار ہے۔’

گزشتہ 22 دسمبر کو نئی دہلی کے رام لیلا میدان میں ایک ریلی کو خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ پچھلے پانچ سالوں کی ان کی حکومت میں این آر سی پر کوئی چرچہ نہیں ہوئی ہے۔ انہوں نے کانگریس اور اپوزیشن  پارٹیوں پر لوگوں کے ذہن  میں بھرم پیدا کرنے کاالزام  لگایا تھا۔این آر سی پر بی جےپی کے دعوے پر ردعمل دیتے ہوئے ریاست کی حکمراں پارٹی ترنمول کانگریس نے کہا کہ سچ سامنے آ گیا۔

ٹی ایم سی جنرل سکریٹری  پارتھا چٹرجی نے کہا، ‘بی جےپی کی سچائی سامنے آ گئی ہے۔ ہم کہتے رہے ہیں کہ وزیر اعظم اورمرکزی وزیر این آر سی پر متضاد بیان دےکر لوگوں کو گمراہ  کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس ریاست اور ملک کے لوگ انہیں منھ توڑ جواب دیں گے۔’

(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)