کیا جو لوگ جے این یو گیٹ پر لاٹھیاں لےکر کھڑے تھے اوراندر جو لوگ لاٹھیاں لےکر اساتذہ اور طلبہ و طالبات کی لنچنگ کے لیے گھوم رہے تھے، ان کی منشاء کو سمجھنا کیا اتنا مشکل ہے؟
کرسٹل ناخٹ یعنی ٹوٹے شیشوں کی رات -1938 کے نومبرمہینے کی وہ رات تھی جب نازی پارلیامانی پارٹی اور عام شہریوں نے ملکر جرمنی میں یہودیوں کے خلاف ایک ملک گیر تشدد کی مہم چھیڑی تھی۔ یہودیوں کے خلاف تشدد ہوتےرہے اور جرمن انتظامیہ بنا کوئی مداخلت کئے اس کو الگ ہوکر دیکھتا رہا۔
یہ ایک طرفہ تشدد دو دنوں تک چلا اور حکمراں بےمعنی انداز سے ناظر بنے نظر آئے۔ یہودیوں کے گھروں، دکانوں اور عبادت گاہوں کو توڑکرتہس-نہس کر دیا گیا۔ ان کو اس طرح تباہ کیا گیا کہ سڑکیں اور گلیاں یہودیوں کی جائیداد کے ملبہ سے ڈھک گئیں۔
ٹوٹی ہوئی عمارتوں سے لگکر بکھرے شیشے کے ڈھیروں کودکھاتی تصویریں آج بھی دل دہلا دیتی ہیں۔ یہ جرمنی میں کرسٹل کی رات تھی-ٹوٹی ہوئی کھڑکی-دروازوں کی رات، بے گناہ یہودیوں کے قتل کی رات۔
اس اتوار جے این یو میں جو کچھ ہوا اس کاموازنہ جرمنی کی اسی خونی رات سے کیاجا رہا ہے۔ اگر شیشے کچھ کم ٹوٹے اور خون کچھ کم بہے، تو یہ حملہ آوروں کی مہربانی نہیں بلکہ ہمارے شہری سماج کی کامیابی ہے، جس نے خود کو اس نازی جرمنی کی نفرت سے بھری عوام میں تبدیل ہونے سے اب تک محفو ظ رکھا ہے۔
سوموار کی صبح جے این یو کے ہاسٹل میں لگے توڑے گئےشیشے کے ڈھیروں نے رات کی انہی تصویروں کی یاد دلا دی۔ اگر انٹرنیٹ نہ ہوتا(جس کو جے این یو انتظامیہ نے تقریباً ٹھپ ہی کر رکھا ہے)اور تشدد کی خبریں باہرنہ پہنچائی جاتیں، تو کیا ساڑھے تین گھنٹوں کے بعد بھی یہ تشدد تھم جاتا؟
حملہ آوروں کے ارادے قتل کے تھے اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ جن کمروں کے دروازے وہ توڑ سکے وہاں انہوں نے کس بےرحمی سے حملہ کیا، اس کی گواہ تصویریں اور ویڈیو دونوں ہیں۔
کمرے میں گھس آئی بھیڑ سے جان بچانے کے لئے کچھ طالبعلموں نے بالکنی سے چھلانگ لگا دی۔ ان کے کمروں کی حالت بتاتی ہے کہ اگر وہ ایسانہ کرتے تو شاید کہانی سنانے کو زندہ نہ بچے ہوتے۔
طالب علم ان کمروں کو بھی دکھا رہے تھے جن کے دروازوں پرحکمراں جماعت کے پوسٹر لگے تھے یا ‘ بھارت ماتا کی جئے ‘ یا ‘ شبھ لابھ ‘ وغیرہ لکھا ہوا تھا، ان کمروں کو حملہ آوروں نے ہاتھ بھی نہیں لگایا۔ ان کمروں کی کھڑکی-دروازے درست ہیں اور پاس کے کمروں کے سامنے جس طرح ٹوٹے شیشے کے ڈھیرلگے ہیں، ویسا بھی یہاں نہیں ہیں۔
کیا یہ حملہ آوروں کی طرف سے اپنے دوستوں کو دی گئی کوئی سوغات تھی یا پھر ان کمروں میں رہنے والوں کا خود ان حملوں سے کوئی تعلق ہے-یہ انتظامیہ بتائے۔
جے این یو پر نقاب پوشوں کا یہ حملہ پچھلے بہت سے زخموں کو پھر سے ہراکر جاتا ہے۔ ان میں سے ایک 25 مارچ، 1971 کی وہ ‘ کالی رات ‘ بھی ہےجو ڈھاکہ یونیورسٹی پر بیتی تھی۔
بانگلا تحریک میں سب سے بولڈ رہنے والے اور پاکستانی حکومت کےاستحصال کے خلاف دم بھر آواز اٹھانے والے مشرقی پاکستان کے ڈھاکہ یونیورسٹی کے طالب علموں اور اساتذہ پر وہ رات قہر کی طرح بیتی تھی۔
پاکستانی فوج نے اپنے ہی بنگلہ بولنے والی عوام، اپنےملک کے ایک باوقار یونیورسٹی پر توپ راکٹ لانچر، ہیوی مورٹار اور جنگ میں استعمال ہونے والے تمام ہتھیاروں کے ساتھ حملہ بول دیا تھا۔ ساتھ میں کچھ حملہ آور شہری بھی تھے۔
یونیورسٹی کے اساتذہ کا قتل کیا گیا، ‘ جگن ناتھ ہال ‘میں گھسکر فوج کے ذریعے طالب علموں پر اندھادھند فائرنگ کی گئی، جس میں کتنے ہی طالب علم مارے گئے۔ ملازمینکوبھی نہیں چھوڑا گیا۔ اس میں سب سے گھناؤنا تشدد خواتین کے ساتھ کیا گیا۔
ان پر فوج اور ‘ ملکی مفاد ‘ کو لےکر فکرمند غنڈوں دونوں نے حملہ کیا۔ اس وقت ڈھاکہ میں موجود امریکہ کے سفیر آرچر بلڈ نے اپنی کتاب ‘ دی کروئل برتھ آف بنگلہ دیش ‘ میں اس کی تفصیل پیش کی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ فوج نے لڑکیوں کے ہاسٹل ‘رقیہ ہال ‘ کوچاروں طرف سے گھیرکر آگ لگا دی۔ جب لڑکیاں آگ سے بچکر بھاگنے کے لئے نکلنے لگیں،اس وقت ان پر ہتھیار بند غنڈوں نے حملہ کر دیا۔
فوج کے ذریعے بنائے گئے ‘ریپ کیمپس‘ میں جو خواتین زیادتی کے لئے پکڑکر لائی جا رہی تھیں، ان میں ایک بڑی تعداد اس یونیورسٹی کی طالبات اوراستانیوں کی تھی۔ ان کو یہ سزا حکومت کے خلاف آواز اٹھانے اور ملک کی یکجہتی کی سلامتی کے مدنظر ملی تھی۔
ڈھاکہ یونیورسٹی کی مثال اس لئے بھی چشم کشا ہے کیونکہ یہ ظلم جو پہلے اس یونیورسٹی پر کیا جا رہا تھا، کچھ وقت بعد عام شہریوں پر بھی دوہرایا گیا۔الگ الگ ریسرچ کے اعداد و شمار میں فرق ہے، جس کے مطابق تقریباً دو لاکھ سے چار لاکھ کے درمیان کی تعداد میں فوج اور پاکستانی ‘وطن پرستوں ‘نے ان ‘ غدار وطن ‘ خواتین کے خلاف ‘ ماس ریپ ‘ کیا۔
ان خواتین کو ملک اور مذہب کے تحفظ میں لڑنے والے ‘وطن پرستوں ‘ کے لئے جنگ کا انعام اعلان کیا گیا۔ آج بھی ان جبرواستحصال کے گواہ وہ ‘ وارچائلڈ ‘ ہیں جو برسراقتدار اور ‘ وطن پرست ‘ غنڈوں کے گٹھ جوڑ کا نتیجہ بنے۔
اتوار جے این یو میں جو کچھ ہوا اور جو نہ ہو سکا، کیاان واقعات کو ان سے پوری طرح کاٹکر دیکھا جا سکتا ہے؟ کیا جو لوگ لاٹھیاں لےکرمین گیٹ پر کھڑے ‘ بھارت ماتا کی جئے ‘ اور ‘ جئے شری رام ‘ کے نعرے لگا رہےتھے اور اندر جو لوگ لاٹھیاں لےکر اساتذہ اور طلبہ و طالبات کی لنچنگ کرنے کے گھوم رہےتھے، ان کی منشاء کو سمجھنا کیا اتنا مشکل ہے؟
آج جب اس ملک میں میڈیا اور حکمراں جماعت کے ذریعےپڑھنے-لکھنے سے وابستہ ہر آدمی کو غدار وطن اور ولن قرار دیا جا رہا ہے، اس وقت ہم اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھکر ان خبروں کو تفریح کے سامان کی طرح کیسے دیکھ سکتے ہیں؟
طالب علموں کو ‘ ملک توڑنے والا ‘ بتایا جا رہا ہے۔اساتذہ کو ‘ اربن نکسل ‘ قراردیا گیا ہے۔ جن مسلمانوں نے پاکستان جاناٹھکراکر آزادی کے وقت اس ملک کو اپنے وطن کے طور پر چنا تھا، ان کے بچوں سے کہاجا رہا ہے کہ-ہم ایک قانون لاکر تم سے فلانے-فلانے کاغذ مانگیںگے، دکھا سکے توٹھیک، نہیں تو چلکر ‘ کانسینٹریشن کیمپوں ‘ میں رہو!
اور ہم ڈرائنگ روم میں بیٹھکر آرام سے یہ سب دیکھ رہےہیں اور بھول جا رہے ہیں کہ مسلمان سڑکوں پر ہیں، لاٹھی کھا رہے ہیں، ہمیں کیا! جےاین یو کے طالب علم پیٹے جا رہے ہیں، پٹنے دو۔ ہمیں سی اے اے سے کیا دقت، ہم توہندو ہیں!
ہم بھول جاتے ہیں کہ اقتدار کے لئے ہم بس ووٹ بینک ہیں۔ہم ہندو ہوں یا مسلمان، جے این یو سے تعلق رکھتے ہوں یا نہیں جس دن ان طاقت ورلوگوں کے خلاف گئے، ہمارے ساتھ بھی یہی سب دوہراتے ان کو جھجک نہیں ہوگا۔
جھارکھنڈ کی ہارکے بعد امت شاہ کو ‘ ٹکڑے ٹکڑے گینگ ‘کی یاد کیوں آئی؟ کیوں انہوں نے منچ سے بتلایا کہ اب اس نام نہاد گینگ کو سبق سکھایا جائےگا؟
کیوں مہاراشٹر کی ہارکے بعد بی جے پی کے سابق وزیراعلی’ جے این یو کی قبر کھدےگی، ساورکر کی زمین پر ‘ کی آواز لگاتے دکھے؟ کیا ان کوجے این یو نے انتخاب میں ہرایا تھا؟
جب بھی انتخاب آتا ہے حکمرانوں کو کیوں جے این یو یاد آجاتا ہے؟ کیوں وہ ملک کو ڈرانا شروع کرتے ہیں اور ان ‘ خطرناک غدار وطن ‘ سے ملک کو بچانے کے لئے خود کو محافظ کے کردار میں دکھلانا شروع کر دیتے ہیں؟
کیا عام شہری کچھ نہیں سمجھتا یا وہ اتنا مفاد پرست ہوگیا ہے کہ اس ملک کی ایک مشہور یونیورسٹی کو ایک خاص جماعت کے انتخابی مفاد کی بھینٹ چڑھ جانے دےگا؟
(چارودہلی یونیورسٹی میں ہندی میں ریسرچ کر رہی ہیں۔ )