خبریں

’میدان جنگ‘ بن چکی مشرقی دہلی کا آنکھوں دیکھا حال

جعفرآباد  میں شہریت قانون  کے خلاف  میں ہو رہے مظاہرے  پر امن تھے لیکن ہندوتوا فریق  میں شور اور جشن کا ماحول تھا۔ وہیں، موج پور میں تشدد کی سب سے بری خبریں سامنے آئیں جہاں دن میں ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا جس میں ایک شخص پولیس کے سامنے گولی چلاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔

موج پور میں جلی ہوئی کار/فوٹو: دی وائر

موج پور میں جلی ہوئی کار/فوٹو: دی وائر

نئی دہلی: سوموار کو نارتھ-ایسٹ دہلی سے آگ زنی، گولی باری اور پتھراؤ کی خبریں  سامنے آئیں جس میں ایک پولیس کانسٹبل سمیت 7 لوگوں   کی موت ہو گئی تھی۔ ویڈیو میں دیکھا گیا کہ بھیڑ کے ذریعے  پتھراؤ کے دوران دہلی پولیس کھڑی رہی۔ دی  وائر کے نامہ نگاروں  کے گراؤنڈ پر پہنچنے پر چشم دیدوں  نے تشدد  کے بعد ‘میدان جنگ ’ بن چکے علاقوں کا حال بیان کرنا شروع کر دیا۔

جعفرآباد:

جعفرآباد سے موج پور ہوکر گوکل پوری تک جانے والی پوری سڑک کو پولیس نے ہر طرف سے بند کر دیا ہے، جس میں واضح طور سے ایک دوسرے کے بغل میں ہندو اور مسلم بلاک بنائے گئے ہیں۔

تقریباً6 ہفتہ پہلے شہریت (ترمیم) قانون مخالفین اور بنیادی طور پر مسلم مظاہرین جعفر آباد میں مظاہرہ شروع کرتے ہیں، جس کے فوراً بعد وہاں پولیس ایک گھیرا بناتی ہے۔ تقریباً چھے ہفتے تک، مظاہرین نے مظاہرہ کرنے کی جگہ  کے ایک سرے پر  مظاہرہ جاری رکھا اور کسی بھی بڑے تشدد کی کوئی رپورٹ  سامنے نہیں آئی۔ سوموار کو اس کے آس-پاس کے علاقے میں اینٹ-پتھر کے ٹکڑے  پڑے ہوئے تھے اور بڑی تعداد میں لوگوں کی ٹوٹی ہوئی چپلیں پڑی ہوئی ملیں۔ بڑے پیمانے پر چلائے جا رہے جھوٹ سے پرے اب یہ ہندوتوا گروپوں کا گڑھ بن گیا ہے، جنہوں نے موج پور-بابرپور اسٹیشن کے نیچے سینکڑوں نوجوانوں کو اکٹھا کیا ہے اور چوک پر قبضہ کر لیا ہے۔

جعفر آباد میں ڈرے-سہمے ہوئے مظاہرین ابھی بھی امن سے بیٹھے ہوئے ہیں، جہاں پر وہ بنا کسی تشدد کے پچھلے 40 سے زیادہ دنوں سے بیٹھے ہیں۔ سوموار کے تشدد میں ایک پولیس افسر سمیت 7 لوگوں کی موت ہو چکی ہے۔ تشدد صبح کو شروع ہوا۔ چشم دید گواہ کے مطابق، اس دوران رائٹ ونگ  گروپ کے لوگوں کے ساتھ پولیس اہلکاروں کے ایک گروپ نے چاند باغ میں پر امن مظاہرہ کر رہےسی اے اے مخالفین کی پٹائی کی جس کے بعد پورے شمال مشرقی دہلی میں تشدد بھڑک گیا۔

ایک چشم دید ادیب  نے بتایا، ‘ ہم سب کچھ برباد ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ ہمارے کاروبار برباد ہو رہے ہیں۔ ہم ایک مہینے سے مخالفت کر رہے ہیں اور اگر ہم غلط ہیں تو آؤ ہم سے بات کرو! ہم نے کیا غلط کیا ہے؟ اگر آپ کو مسئلہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں تو وہ کیوں نہیں آئے، ہم سے بات کی اور ہمیں سمجھایا؟ وہ کیوں کہہ رہے ہیں کہ ہم پاگل ہیں اور ہم جھگڑالو ہیں۔ اگر حکومت کے پاس اتنے عقلمند لوگ ہیں تو وہ ہمیں کیوں نہیں سمجھا پا رہے ہیں؟ اس کے بجائے وہ بجرنگ دل سے آر ایس ایس سے گروپ بھیج رہے ہیں اور وہ آ رہے ہیں اور ہم پر پتھر پھینک رہے ہیں اور گولی چلا رہے ہیں۔ ‘

آصف نے بتایا، ‘ اس کے لئے بی جے پی رہنما کپل مشرا ذمہ دار ہیں۔ انہوں نے یہاں ایسا فساد کروایا ہے جس سے انہوں نے حکومت کی جائیداد کے ساتھ-ساتھ عوام کی جائیداد دونوں کو نقصان پہنچا ہے۔ اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت نے جائیداد کے نقصان کے لئے عام شہریوں  سے پیسہ لیا ہے۔ کیا اروند کیجریوال کپل مشرا کے خلاف کارروائی کریں‌گے اور ان سے ہوئے نقصان کی بھرپائی کریں‌گے؟ ‘

دی وائر سے بات کرتے ہوئے مسلم جذباتی تو تھے لیکن وہ کوئی فرقہ وارانہ تبصرہ کرنے سے بچتے رہے۔ آصف نے کہا، ‘ ایک پولیس اہلکار کی موت ہو گئی اور وہ بھی ہمارے تھے۔ وہ ایک باپ اور ایک بیٹا تھا اور اس کی موت سے ہمارے دل کو چوٹ پہنچی۔ ہندو بھی ہمارے بھائی ہیں۔ اگر کسی نے بھی ان پر ہاتھ اٹھایا، تو ان کو پہلے ہمارے اوپر قدم رکھنا ہوگا۔ ہم ان کے لئے ذمہ دار ہوں‌گے۔ ہمارے ہندو بھائی یہاں سے گزر رہے ہیں اور ہم یہ یقینی بنا رہے ہیں کہ ان کو پوری حفاظت اور محفوظ راستہ دیا جائے۔ ‘

ادیب نے کہا، ‘ وہ کہہ رہے ہیں کہ مسلمانوں نے یہ سب کیا ہے۔ ایک درگاہ کو جلا دیا گیا ہے۔ میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کوئی مسلمان اپنا گھر کیوں جلائے‌گا؟ ہم نے ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا ہے۔ ہم جو مانگ رہے ہیں، وہ ہمارا حق ہے۔ ہم فسادات نہیں چاہتے تھے اور ہم ان کو نہیں چاہتے، لیکن ہم انصاف کے لئے کھڑے ہیں۔ لیکن آپ لاٹھیاں اور ڈنڈے لا سکتے ہیں، آپ غنڈے اور آر ایس ایس کو بلا سکتے ہیں، آپ خود آ سکتے ہیں اور آپ اپنے باپ کو بھی لا سکتے ہیں، لیکن ہم یہاں کھڑے رہیں‌گے۔ ‘

موج پور-بابرپور :

پولیس نے مسلم  حلقوں  میں رسیوں کا ہلکا گھیرا بنایا تھا۔ مظاہرین اندر اور باہر کچھ آمد ورفت کے ساتھ چپ چاپ بیٹھے رہے، لیکن کوئی نعرے بازی نہیں کی جا رہی تھی۔ راستہ صاف تھا۔ گھیرے کے آس پاس کوئی آدمی نہیں تھا، وہاں صرف موجود لوگ ہی گزر رہے تھے اور پولیس خاموشی سے کھڑی تھی۔

ہماری آنکھوں کے سامنے سے ایک شخص سائیکل پر گزرا جس کے ساتھ ایک مسلم شخص تھا۔ مسلم شخص نے کہا، ‘ وہ ڈرا ہوا تھا۔ ہم اس کے ساتھ جا رہے تھے تاکہ اس کو کوئی پریشانی نا ہو۔ ‘

جیسےجیسے ہم اس علاقے کے قریب آئے جہاں ہندتوا گروپوں نے لوگوں کو جمع کیا تھا وہاں کا ماحول بدلا ہوا تھا۔ ہم زور سے چلانے اور نعرے بازی کی آواز سن سکتے تھے۔ سڑکوں پر لوگ ہمیں شک کے ساتھ دیکھ رہے تھے۔ سیدھے کسی طرح کے ٹکراؤ سے بچنے کے لئے ہم نے ایک اندرونی راستہ لیا۔ ایک ساتھی صحافی نے ہمیں بتایا کہ انہوں نے تین بار وہاں داخل ہونے کی کوشش کی تھی لیکن بڑے کیمرے کی وجہ سے ان کو باہر نکال دیا گیا تھا۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ میڈیا مخالف جذبہ زیادہ تھا ہم نے ڈر سے کوئی ویڈیو یا فوٹو گرافک فوٹیج نہیں لی۔

بتا دیں کہ، موج پور میں تشدد کی سب سے بری خبریں سامنے آئیں جہاں دن میں ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا جس میں ایک شخص پولیس کے سامنے گولی چلاتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ جب ہم ہندتوا گروپ کی قیادت والے علاقے میں آئے تو وہاں جشن کا ماحول تھا۔ لوگوں کا ایک بڑا گروپ ‘ گولی مارو سالوں کو ‘  جیسے نعرے لگا رہا تھا، جبکہ لوگوں کے گروپ نے بسکٹ بانٹے۔ ایک شخص اپما کی پلیٹوں سے بھری ایک بڑی سی ٹرے لےکر جا رہا تھا، جس کو وہ وہاں کھڑے پولیس والوں کو دے رہا تھا۔

اس طرف بڑی تعداد میں لوگ موٹے بانس کی چھڑیں، ہاکی اسٹک، کرکٹ کے بلے، عام طور پر تعمیراتی مقامات میں پائے جانے والے اسٹیل کی چھڑیں، پردے کی چھڑوں  جیسے ہتھیار لےکر جا رہے تھے۔ ایک صنعت کار آدمی لوہا کا ہتھیار لےکر اکیلے چل رہا تھا۔ کئی لوگوں کی پیشانی پر چمکیلے نارنگی رنگ کا تلک تھا اور وہ کیسریا پرچم لہرا رہے تھے۔

وہاں سی اے اے-این آر سی کو لےکر کوئی چرچہ  نہیں تھی اور یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ بھیڑ سی اے اے حامیوں کی تھی جن کا اہم مقصد ہندتوا جذبات کی حمایت کرناتھا۔ وہاں ایک دیوار پر سی اے اے کی مخالفت میں کئی باتیں لکھی گئی تھیں جبکہ اس کے دوسری طرف گہرے رنگ میں’فک یو …اسلام’لکھا گیا تھا۔

بھیڑ ہمیں بہت ہی شک بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ ‘گولی مارو سالوں کو’ نعرہ لگانے والی ایک خاتون کو ہاتھ میں ڈنڈا لئے ایک شخص نے روکا۔ اس کے بعد خاتون نے ہمیں ڈرانے کی کوشش کی اور جب ہم وہاں سے نکلنے لگے تب وہ ہمیں گھورتے ہوئے جئے شری رام کا نعرہ لگایا۔

جعفر آباد میں سی اے اے کی مخالفت میں ہو رہے مظاہرے کی جگہ پرسکون تھی  لیکن ہندتوا فریق میں شور اور جشن کا ماحول تھا۔ وہاں لائٹنگ سمیت ایک ڈانس پارٹی ہو رہی تھی اور ایک خطیب  نے کانوڑیوں  کے لیے مشہور اور فرقہ وارانہ جذبات کو بھڑکانے والی نفرت سے پرموسیقی جئے شری رام کا گانا گایا۔ اس کے ساتھ ہی ‘ہندوؤں کا ہندوستان’ جیسے نعرے بھی بار بار استعمال کئے گئے۔