میرے فون سے فوٹو ڈیلیٹ کرواتے ہوئے ایک شخص نے کہا،’اب وقت آ گیا ہے کہ ہندو قبضہ کر لیں۔ بہت ہوا۔‘
نئی دہلی: دہلی کے نارتھ- ایسٹ علاقے میں ہوئے تشدد میں ایک پولس کانسٹبل سمیت سات لوگوں کی موت کے ایک دن بعد بھی موج پور علاقے کے نزدیک گھونڈا میں پتھربازی اور آگ زنی جاری ہے۔اس پورے حلقے میں دی وائر نے دیکھا کہ یہاں پر کئی ساری دکانوں اور گاڑیوں کو شرپسند عناصروں نے جلا دیا ہے۔ عالم یہ ہے کہ کچھ گاڑیاں ابھی بھی جل رہی ہیں۔ ہندو اکثریتی حلقہ کے نزدیک کچھ پولیس والے کھڑے تھے لیکن انہوں نے دخل اندازی نہیں کی۔ چشم دید لوگوں نے بتایا کہ رات میں تشدد بھڑکا تھا اور کئی دکانوں کو آگ لگایا گیا تھا۔
ایک شہری نے بتایا، ‘آج صبح بھی پتھربازی ہو رہی تھی۔’
‘بارڈر’ کہے جانے والے اس حلقے کے نزدیک مسلم اکثریتی حلقہ میں کئی نوجوان لڑکے ہاتھ میں لوہے کی راڈ اور پتھر لے کر گھوم رہے تھے۔ وہ‘جئے شری رام’ کا نعرہ لگا رہے تھے اور دو ای رکشہ کو آگ بھی لگا دیا۔ اس کے علاوہ وہاں پر دو ٹیمپو جل رہے تھے۔ اس پورے معاملے کو پولیس دیکھ رہی تھی لیکن انہوں نے آگ زنی کوروکنے کے لیے کچھ نہیں کیا۔
جب میں نےوہاں ایک گروپ کو گاڑیوں کو آگ کے حوالے کرتے ہوئے دیکھا تو اس کی تصویریں اتارنی چاہی تو انہوں نے مجھے روکا ، مجھے گردن سے پکڑ کر کھینچا اور میر افون چھین کر تصویریں ڈیلیٹ کردیں ۔
اشرف نام کے ایک ای رکشا ڈرائیور نے کہا، ‘ادھر میرا گھر ہے لیکن میں وہاں نہیں جا سکتا ہوں۔ وہ جلا دیں گے۔ پولیس کچھ نہیں کرے گی۔ میں اپنی جان نہیں دے سکتا ہوں۔’رات میں افسانہ ہیئر کٹنگ سیلون کو توڑ دیا گیا تھا۔ دکان کے مالک نے کہا، ‘میں نے ایک لاکھ روپے کا لون لےکر یہ دکان بنائی تھی۔ اب سب کچھ برباد ہو گیا ہے۔ میں سی اےاے مخالف مظاہرے میں شامل بھی نہیں تھا۔’روڈ کراسنگ کے قریب ایک ہندو کے ڈریس کی دکان کو بھی توڑ دیا گیا ہے۔ ان کی ایک ماروتی ایرٹگا کار کو بھی جلا دیا گیا ہے۔
ایک چائے کی دکان پر چندن ٹیکہ لگائے ہوئے کئی لوگ جمع ہوئے تھے۔ اس میں سے ایک نے کہا، ‘میں مسلمانوں کو نہیں چھوڑوں گا۔ اگر میں ان میں سے کسی کو بھی دیکھتا ہوں تو انہیں زندہ جلا دوں گا۔’ دوسرے نے کہا، ‘لیکن زیادہ تر دکان اور آٹو مسلمانوں کے ہی جلائے گئے ہیں۔’ اس پر پہلے نے کہا، ‘انہوں نے خود اپنی دکانوں کو جلایا ہے اور ہم پر الزام لگا رہے ہیں۔’
مقامی لوگوں کے مطابق تشدد کل شام کو پتھراؤ کے ساتھ شروع ہوا تھا۔ علاقے کے مسلمانوں کا کہنا ہے کہ ہندو بھیڑ نے تشدد شروع کیاتھا، جبکہ ہندوؤں کا دعویٰ ہے کہ مسلمانوں نے پتھراؤ شروع کیا اور انہوں نے جوابی کارروائی کی۔
کل رات میں پتھربازی تھوڑی رکی تھی لیکن آج صبح سے ہی اس کی شروعات ہو گئی ہے۔ دونوں طرف کے لوگ پتھربازی کر رہے ہیں۔ فی الحال تشددرک گیا ہے لیکن پورے حلقے میں تشویش اور ڈر کا ماحول بنا ہوا ہے۔ بھیڑ چاروں طرف گھوم رہی ہے لیکن پولیس موقع سے غائب ہے۔
میٹرو اسٹیشن بند ہیں اور رکشا والے ان علاقوں میں جانے سے منع کر رہے ہیں۔ اگر کوئی بھی فون سے فوٹو لینے کی کوشش کرتا دکھ جاتا ہے تو بھیڑفوراً انہیں ڈراتی ہے، حملہ کرنے کی کوشش کرتی ہے اور فوٹو کو ڈیلیٹ کرواتی ہے۔مقامی لوگوں نے بتایا کہ پچھلی شام کو بھیڑ نے کئی لوگوں کے فون کو توڑ دیا تھا۔
ایک جلتے ہوئے آٹو کے قریب کھڑے ایک شخص نے کہا، ‘اب وقت آ گیا ہے کہ ہندو قبضہ کر لیں۔ اب بہت ہو گیا۔ اگر آپ رپورٹر ہیں تو آپ اپنے گھر پر رہیں۔ ہم نے کل سے ہی کئی صحافیوں کو پیٹا ہے۔’ اس کے بعد اس شخص نے زبردستی ایک صحافی کے فون سے فوٹو ڈیلیٹ کروا دیا۔
Categories: خبریں, گراؤنڈ رپورٹ