اس وقت جب یہ لکھ رہا ہوں بہار کے دربھنگہ میڈیکل کالج سے خبر آ رہی ہے کہ وہاں کے ڈاکٹروں نے کام کرنے سے منع کر دیا ہے۔ان کے پاس ضروری دستانے اور ماسک نہیں ہیں۔ بھاگلپور میڈیکل کالج اور پٹنہ میڈیکل کالج کے ڈاکٹر اور میڈیکل طلبا کے ہوش اڑے ہیں کہ بغیر آلات کے کیسے مریض کے قریب جا ئیں گے۔ سرکار جان بوجھ کر انہیں موت کے منھ میں کیسے دھکیل سکتی ہے؟
کو رونا کوریج کی تصویروں کو یاد کیجیے۔ چین کے ڈاکٹر سفید رنگ کے باڈی کور میں دکھتے تھے۔ ان کا چہرہ ڈھکا ہوتا تھا۔ ہیلمیٹ جیسا پہنے تھے۔ سامنے شیشہ تھا۔ سر سے لےکر پاؤں تک سب کچھ ڈھکا تھا۔ اس باڈی کور کے کئی پارٹ ہوتے ہیں۔ انہیں کل ملاکر پرسنل پروٹیکٹیو اکوپمنٹ،پی پی ای کہتے ہیں۔ کئی تصویروں میں باڈی کور پر بھی چھڑکاؤ کیا جاتا تھا کہ اتارنے کے وقت غلطی سے کوئی وائرس جسم کے رابطہ میں نہ آ جائے۔ اسی کو ہزمت سوٹ بھی کہتے ہیں۔ اس کو ایک بار ہی پہنا جاتا ہے۔
اس کے پہننے اور اتارنے کا ایک پروسس ہوتا ہے۔ پہننے کو Donning کہتے ہیں۔ اتارنے کو Doffing کہتے ہیں۔ Doffing کے لیے الگ کمرے میں جانا ہوتا ہے۔ اس طرح سے اتارا جاتا ہے جیسے پیچھے سے کوئی کوٹ کھینچتا ہو۔ پھر غسل کرنا ہوتا ہے جو اسی کمرے کے ساتھ ہوتا ہے تب جاکر ڈاکٹر اپنے کپڑوں میں باہر نکلتا ہے۔
ملک بھر کے ڈاکٹر اپنے تحفظ کے لیے ضروری ان بنیادی چیزوں کو لےکر بے حد تشویش میں مبتلا ہیں۔ ان کے ہوش اڑے ہیں۔ جب وہی اس کی زد میں آجائیں گے تو علاج کیسے کریں گے؟ ویسے ہی ملک میں ڈاکٹر کم ہیں، نرس کم ہیں، اگر یہی بیمار ہو گئے، تو کیا ہوگا؟ اگر ڈاکٹر پوری طرح سے آلات سے لیس نہیں ہوں گے تو مریض کے قریب ہی نہیں جا ئیں گے۔ تو آخر میں اس کی قیمت مریض بھی ادا کرےگا۔
آپ ایک سادہ سوال کریں۔ اپنے ڈاکٹروں اور نرس کی خاطر۔
ہندوستان میں اس وقت کتنےپی پی ای دستیاب ہیں؟ہر اس ہاسپٹل میں جہاں کو رونا کے ممکنہ مریضوں کی اسکریننگ ہو رہی ہے یا علاج چل رہا ہے وہاں پر چاندی کی طرح چمکنے والے باڈی کورپی پی ای کتنے ہیں؟کیا آپ کو پتہ ہے کہ ہندوستان کو ہر دن پانچ لاکھ پی پی ای کی ضرورت ہے؟ کتنا ہے پتہ نہیں۔ لیکن کارواں میگزین کی رپورٹ کے مطابق سرکار نے اس کے لیے سرکاری کمپنی HLL کو آرڈر کیا ہے کہ وہ مئی 2020 تک ساڑھے سات لاکھ پی پی ای تیار کر دے اور 60 لاکھ N-95 ماسک تیار کر دے اور ایک کروڑ تین پلائی ماسک۔
کیا یہ بحران ملک سے چھپایا گیا؟ کیا سرکار سوتی رہی؟ اس پر تھوڑی دیر بعدآتے ہیں۔
اس وقت جب یہ لکھ رہا ہوں بہار کے دربھنگہ میڈیکل کالج سے خبر آ رہی ہے کہ وہاں کے ڈاکٹروں نے کام کرنے سے منع کر دیا ہے۔ان کے پاس ضروری دستانے اور ماسک نہیں ہیں۔ بھاگلپور میڈیکل کالج اور پٹنہ میڈیکل کالج کے ڈاکٹر اور میڈیکل طلبا کے ہوش اڑے ہیں کہ بغیر آلات کے کیسے مریض کے قریب جا ئیں گے۔ سرکار جان بوجھ کر انہیں موت کے منھ میں کیسے دھکیل سکتی ہے؟ایمس کے ریزیڈنٹ ایسوسی ایشن نے ڈائریکٹر کو خط لکھا ہے۔ جب RDA نے ایمس کے الگ الگ وارڈ میں چیک کیا کہ ایمرجنسی میں کتنے پرسنل پروٹیکٹیو گیئر ہیں تو پتہ چلا کہ زیادہ تر وارڈ میں ڈاکٹروں کے تحفظ کے لیے ضروری سامان پورے نہیں ہیں۔ RDA نے ایمس انتظامیہ سے اپیل کی ہے کہ ڈاکٹروں اور نرس کے لیے پرسنل پروٹیکٹیو گیئر(PPE) کا انتظام کیا جائے۔
ہمارے ساتھی انوراگ دواری نے جبل پور کے اسپتال سے ایک رپورٹ بھیجی ہے۔ جہاں پر مدھیہ پردیش کے چار مریض بھرتی ہیں۔ اس اسپتال میں N-95 ماسک سبھی ڈاکٹروں کے لیے نہیں ہیں۔ اسی کے لیے ہے جو مریض کے قریب جا رہا ہے۔ رہی بات PPE کی تو وہ نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں: رویش کا بلاگ: کورونا کو لے کر تیاریاں نمک کے برابر اور عوام بیٹھی ہے تھالی بجانے
کیا یہ جرم نہیں ہے؟ دسمبر، جنوری اور فروری گزر گیا، اس معاملے میں کیا تیاری تھی؟ کیا ہمارے ڈاکٹروں کا تحفظ انہیں تھینک یو بولنے سے ہو جائےگا، کیا ان کے لیے تحفظ کے آلات خاطرخواہ مقدارمیں پہلے سے تیار نہیں ہونے چاہیے؟ تو پھر ہم تیاری کے نام پر کیا کر رہے تھے؟ کیا ہم نے ڈھائی مہینے یوں ہی گنوا دیے؟
اب آئیے کارواں میگزین کی رپورٹ پر۔ آپ کو پوری رپورٹ پڑھنی چاہیے۔ اس کا کچھ حصہ یہاں بتا رہا ہوں۔ ودیا کرشنن کی رپورٹ ہے۔کارواں کی رپورٹ پڑھیے۔ اس کی رپورٹ اسی پر سوال اٹھا رہی ہے کہ دو سے تین مہینے کے دوران ہندوستان ڈاکٹروں اور نرس کے لیے آلات جمع کیوں نہیں کر سکا؟ 18 مارچ کو وزیر اعظم ملک کے نام خطاب کرتے ہیں۔ 19 مارچ کو سرکار ہندوستان میں بنے PPE کے ایکسپورٹ پر روک لگاتی ہے۔ اس کے تین ہفتے پہلے یعنی 27 فروری کوڈبلیوا یچ او نے بتا دیا تھا کہ کئی ممالک میں PPE کی سپلائی رک سکتی ہے۔ تین ہفتے تک سرکار سوتی رہی۔ آخر جنوری سے لےکر مارچ تک ایکسپورٹ کی اجازت دی ہی کیوں گئی؟
ہندوستان میں 30 جنوری کو پہلا کیس سامنے آتا ہے۔ 31 جنوری کو فارین ٹریڈ ایجنسی(ڈی جی ایف ٹی)ہر طرح کے PPE کے ایکسپورٹ پر روک لگاتا ہے۔ لیکن 8 فروری کو سرکار اس حکم میں ترمیم کرتی ہے۔ سرجیکل ماسک اور داستانوں کے ایکسپورٹ کی اجازت دے دیتی ہے۔ 25 فروری کو جب اٹلی میں انفیکشن سے 11 موتیں ہو چکی تھیں تب حکومت ہند ایک بار اور اس حکم میں ڈھیل دیتی ہے۔ آٹھ نئے آئٹموں کے ایکسپورٹ کی اجازت دے دیتی ہے۔ یعنی 31 جنوری کےحکم کو پانی پانی کر دیتی ہے۔
نتیجہ یہ ہے کہ آج ہندوستان کے ڈاکٹروں اور نرس کے پاس آلات نہیں ہیں؟ آج ہندوستان کے ڈاکٹرمحفوظ نہیں ہیں۔ انہیں انفیکشن کا خطرہ ہے۔ اب میں تھالی کے بارے میں اور نہیں بولوں گا۔ لیکن آپ سوال تو کریں گے نا کہ سب کچھ رام بھروسے ہی چلےگا یا کام بھی ہوگا۔ کیا کام ہوا کہ آج کو رونا کا علاج کر رہے ہیں ڈاکٹروں کے پاس ہزمت سوٹ نہیں ہے PPE نہیں ہے؟
کارواں کی رپورٹ کے مطابق ہیلتھ سروس کے کارکن وزارت صحت ، کپڑاوزارت کے فیصلوں کو لےکر پریشان ہیں۔ PPE کے پروڈکشن کو لےکر سرکاری کمپنی HLL کو نوڈل ایجنسی بنایا گیا ہے۔آل انڈیا ڈرگ ایکشن نیٹ ورک وزیر اعظم کوخط لکھنے والا ہے کہ HLL کی مطلق العنانیت کو ختم کیا جائے۔ ڈھائی مہینوں میں سرکار مقامی کمپنیوں کو آرڈر کر سکتی تھی۔ آل انڈیا ڈرگ ایکشن نیٹ ورک کی اسولا کہتی ہیں کہ مئی 2020 تک HLL کو ساڑھے سات لاکھ PPE کی سپلائی کرنے کو کہا گیا ہے جبکہ ہر دن 5 لاکھ PPE کی ضرورت ہے۔ آپ کارواں کی پوری رپورٹ پڑھیں۔ لاپرواہی کے ایسے قصہ ملیں گے کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے ہیں۔
کیا نیوز چینلوں پر ان سب سوالوں کو اٹھاکر آپ کی جان کی حفاظت کو درست کیا جا رہا ہے؟ میرا ماننا ہے کہ ایسےموضوعات کی رپورٹنگ صرف کچھ اخباروں اور ویب سائٹ پر ہو رہی ہے۔ نیوز چینل ابھی بھی بیداری کے نام پر پروپیگنڈہ کر رہے ہیں۔ کم سے کم آپ اب جب ان چینلوں کو دیکھیں تو دھیان دیں کہ ان سوالوں اور تیاریوں کو لےکر کتنی خبریں ہیں اور دعووں کاتجزیہ کیا جا رہا ہے یا نہیں۔ وہاں صرف ہاتھ صاف کیسے رکھیں اور بیماری کےعلامات کی بنیادی جانکاری دی جا رہی ہے۔
تیاری کو لےکر ساری جانکاریاں نہیں ہیں۔ ایسے ایسے ڈاکٹر بیٹھے ہیں جو سرکار پر دو سوال نہیں اٹھا سکتے ہیں۔ اپنا ٹائم کاٹ رہے ہیں ٹی وی پر۔ آخر ان ڈاکٹروں نے اپنے جونیئر ڈاکٹروں کے لیے کیوں نہیں ہنگامہ کیا کہ ان کے پہننے کے لیے PPE نہیں ہیں۔ N-95 ماسک نہیں ہے۔ کیوں نہیں ان فیمس ڈاکٹروں نے ہنگامہ کیا؟ کیا یہ ڈاکٹر مجرم نہیں ہیں؟
پروپیگنڈہ کی بھی ایک حدہوتی ہے۔ یہ وقت تماشے کا نہیں تھا۔ آخر ڈھائی مہینے سے ہندوستان کیا تیاری کر رہا تھا کہ ڈاکٹر اور نرس کے پاس آلات تک نہیں ہیں؟
(یہ مضمون رویش کمار کے فیس بک پیج پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر