معاملہ بہار کے بھوج پور ضلع کے آرا کا ہے۔ مسہر کمیونٹی سے آنے والے آٹھ سالہ راکیش کی موت 26 مارچ کو ہو گئی تھی۔ ان کی ماں کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کے شوہرکی مزدوری کا کام بند تھا، جس کی وجہ سے 24 مارچ کے بعد ان کے گھر کھانا نہیں بنا تھا۔
کو روناانفیکشن سے نپٹنے کے لیے سرکار کے ذریعے بنا کسی تیاری اور منصوبہ کے اچانک لاک ڈاؤن کر دینے کے نتائج سامنے آنے لگے ہیں۔لاک ڈاؤن کی وجہ سے کام بند ہونے سے صوبے کی راجدھانی پٹنہ سے محض 60 کیلومیٹر دور بھوج پور ضلع کے آرا شہر کے جواہر ٹولے کی ملن بستی میں رہنے والے آٹھ سالہ راکیش کی مبینہ طور پر بھوک سے موت ہو گئی۔
مسہرکمیونٹی سے آنے والا راکیش مسہر کباڑ چن کر بازار میں بیچتا تھا۔ اس کےوالد درگا پرساد مسہر موٹیا مزدور ہیں۔کوروناوائرس کے انفیکشن کی امکان کے مد نظر مرکزی حکومت نے 24 مارچ سے تین ہفتے کے لیے لاک ڈاؤن کیا ہے۔ریاستی حکومتوں کوہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنے اپنے صوبوں میں لاک ڈاؤن پر سختی سےعمل کروائیں۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے دونوں کا کام بند تھا، جس سے گھر میں کھانے پینے کی قلت تھی۔
راکیش کی ماں سونامتی دیوی نے د ی وائر کو فون پر بتایا، ‘جب سے بندی شروع ہوا تھا، تب سے گھر میں کھانا نہیں بن رہا تھا۔ راکیش کی طبیعت بھی خراب تھی۔ جس دن سے کرفیو شروع ہوا تھا، اسی رات اس نے تھوڑی روٹی کھائی تھی۔ اس کے بعد گھر میں کھانا نہیں بنتا تھا۔ کھانا تب نا بناتے، جب گھر میں اناج ہوتا۔’
دونوں کی روزانہ کی کمائی 200 سے 250 روپے تھی۔ ‘اسی پیسے سے کھانے کا سامان آتا اور کھانا پکتا۔ کرفیو کی وجہ سے کام بند ہوا، تو دکانداروں نے ادھار سامان دینا بھی بند کر دیا تھا،’ سونامتی دیوی کہتی ہیں۔راکیش کو بخار تھا اور دست بھی ہوئے تھے۔ 26 مارچ کو ہی اسے صدر اسپتال لے جایا گیا تھا، جہاں ڈاکٹروں نے اسے ایک سیرپ اور ٹیبلٹ لکھ کر دیے۔
سونامتی دیوی نے بتایا، ‘ہمارے پاس دوائی کا بھی پیسہ نہیں تھا، تو پڑوسی سے کچھ پیسہ ادھار لیا اور دوائی لے آئی۔ لیکن، دوا کھلانے سے پہلے ہی اس کی موت ہو گئی۔’راکیش کی بوا سنیتا دیوی نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ کرفیو شروع ہونے کے بعد سے گھر میں کھانا نہیں بن رہا تھا۔
انہوں نے بتایا، ‘کھانا تو تب بنتا، جب گھر میں راشن ہوتا۔ کرفیو کے بعد کباڑ کا بھی کام بند تھا۔ کھانا نہیں ملنے سے راکیش بہت کمزور ہو گیا تھا اور اسکی طبیعت تو خراب تھی ہی۔’مقامی لوگوں نے اس رپورٹر کو اس بچے کی تصویر بھیجی ہے۔ تصویر میں اس کے گھٹنے اور کوہنی کی ہڈیاں نارمل سے زیادہ ابھری ہوئی دکھتی ہیں۔ اس کے ہاتھ اور پیر بھی زیادہ پتلے نظر آتے ہیں۔
سونامتی کے دو اور بچہ ہیں اور وہ حاملہ ہیں۔ درگا پرساد کو پچھلے ایک سال سے راشن بھی نہیں مل رہا تھا۔سونامتی نے بتایا،‘راشن کارڈ میری ساس کے نام پر ہے۔ ان کے انگوٹھے کے نشان پر ہی راشن دیا جاتا تھا۔ ایک سال پہلے ان کا انتقال ہو گیا، تو راشن بھی ملنا بند ہو گیا۔’
درگا پرساد کے پڑوسیوں نے بتایا کہ 26 مارچ کی دوپہر راکیش کی موت ہو گئی تھی۔ اس کی لاش کو کئی گھنٹوں تک وہاں رکھا گیا، تاکہ انتظامیہ وہاں آکر کوئی انتظام کر سکے، لیکن کوئی بھی نہیں آیا۔ہارکر 26 مارچ کی رات کو درگاپرساد و دوسرے مقامی لوگ اس کی لاش ٹھیلے پر لاد کر لے گئے اور آخر ی رسومات کی ادائیگی کر دی۔
کسی کی بھی غیر فطری موت ہونے پر پوسٹ مارٹم کیا جانا بنیادی کارروائی ہے۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے یہ سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ کسی کی موت بھوک سے ہوئی یا کسی اور وجہ سے۔اگر پوسٹ مارٹم رپورٹ میں یہ پایا جاتا ہے کہ بدن میں چربی نہیں تھا اور پیٹ پوری طرح خالی تھا، تو سمجھا جاتا ہے کہ غذائی ا ور بھوک سے موت ہوئی ہے۔
لیکن اس معاملے میں پولیس نے لاش کا پوسٹ مارٹم کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ الزام ہے کہ پولیس بھی چاہتی تھی کہ جلدی لاش کو دفن کر دیا جائے۔مقامی وارڈ کونسلر ستیہ دیو رام نے بتاتے ہیں ، ‘بچہ کی موت کی جانکاری ضلع کے ڈی ایم اورمقامی ایس ڈی او کو بھی دی گئی، لیکن ان کی طرف سے اب تک کوئی ردعمل نہیں آیا ہے۔ 26 کی رات جب لاش کو آخری رسومات کے لیے لے جایا جا رہا تھا، تو نوادہ تھانے کے پولیس اہلکار آئے اور جلدی سے لاش کو دفن کر دینے کو کہا۔’
اس بارے میں نوادہ تھانے کے ایس ایچ او کو فون کیا گیا، تو انہوں نے بعد میں فون کرنے کو کہا۔ ضلع کے ڈی ایم روشن کشواہا کو کئی بار فون کیا گیا، لیکن انہوں نے فون نہیں اٹھایا۔ ان کا ردعمل ملنے پر اس کو رپورٹ میں جوڑا جائےگا۔غورطلب ہے کہ اگست ستمبر 2018 میں بکسر ضلعے کے کورانسرائے میں بھی مسہر برادری کے دو بچوں کی موت ہو گئی تھی۔
ان کے اہل خانہ نے بتایا تھا کہ کئی دن سے گھر میں کھانا نہیں بن رہا تھا کیونکہ بچہ کے والد کئی مہینے سے جیل میں تھے اور سرکاری راشن بھی نہیں ملا تھا۔اس معاملے میں بھی دونوں کا پوسٹ مارٹم نہیں ہوا تھا اور ڈی ایم نے بھوک سے دونوں کی موت ہونے سے انکار کیا تھا۔
واضح ہو کہ مسہر برادری سماج کی سب سے پسماندہ کمیونٹی میں شمار کی جاتی ہے۔ یہ کمیونٹی خاص طور پر جھارکھنڈ، بہار، اتر پردیش اورمغربی بنگال میں ملتی ہے۔ملک میں موجود مسہروں کی 88.6 فیصد آبادی بہار میں رہتی ہے اور انہیں مہادلت کہا جاتا ہے۔ سال 2011 کی مردم شماری کے مطابق، بہار میں مسہروں کی آبادی 4945165 ہے۔ مسہروں کے پاس اپنی زمین نہیں ہے۔
ان میں خواندگی کی شرح محض 4.6 فیصد ہے، جو ایس سی میں آنے والی 23 برادریوں میں سب سے کم ہے۔ دوسروں کے کھیتوں میں مزدوری، اینٹ بھٹوں میں یومیہ مزدوری جیساکام کرکے یہ اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔شہروں میں رہنے والے مسہر کباڑ چن کر بیچتے ہیں۔ بہار میں شراب بندی سے پہلے مہوا شراب بنانا بھی ان کے پیشے میں شامل تھا، لیکن 2016 میں شراب بندی کے بعد یہ کاروباربند ہو گیا ہے۔
ادھر، لاک ڈاؤن ہونے کے بعد بہار سرکار نے اعلان کیا تھا کہ ان آرگنائزڈ سیکٹر کے مزدوروں کو سرکار کی طرف سے راشن اور نقد دیا جائےگا، لیکن آرا شہر کی اس ملن بستی تک اب تک سرکاری مدد نہیں پہنچی ہے۔وارڈ کونسلر ستیہ دیو رام نے بتایا کہ ان کی پارٹی سی پی آئی (ایم ایل) کی طرف سے یہاں کے 34 گھروں کی شناخت کر کےانہیں 10-10 کیلوگرام آٹا اور گیہوں فراہم کرایا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا،‘یہ کمیونٹی روز کماتی اور روز کھاتی ہے۔ لاک ڈاؤن ان کے لیے دشواریوں سے بھرا ہوگا۔ ہم لوگ ایسے اور بھی گھروں کونشان زد کر رہے ہیں اور ان کی مدد کریں گے۔”
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)