پچھلے چھ سالوں میں مودی حکومت کے کئی فیصلوں سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اس کو عوام میں دہشت اور خوف و ہراس پھیلانا پسند ہے۔ نوٹ بندی میں لمبی قطاروں میں کھڑے ہوکر پرانے نوٹوں کو بدلنا ہو، شہریت ثابت کرنے کے لئے کاغذ اکٹھا کرنا ہو یا اچانک ہوئے لاک ڈاؤن میں انہونی کے ڈر سے ہجرت اورحکومت کے فیصلوں کی مار سماج میں اقتصادی طور پر کمزور طبقے پر ہی پڑی ہے۔
این آر سی کی قانون کی قواعد کی وجہ سے کئی لاکھ لوگ اسٹیٹل یس یعنی بنا کسی ملک کے ہو سکتے تھے، مگر اچانک کی گئی تالابندی (لاک ڈاؤن) کے اعلان نے بےشمار ہندوستانیوں کو بےگھر ہی کر دیا ہے۔وہ جہاں ہیں، وہیں پھنس گئے ہیں اور ان کے پاس جانے کے لئے کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ انہوں نے اپنے پرانے آشیانے کو چھوڑ دیا ہے اور وہ گاؤں کے اپنے گھر تک نہیں پہنچ سکتے ہیں۔
ریاستوں نے اپنی سرحدیں سیلکر دی ہیں۔ کوئی رہنما ان کو گولی سے اڑا دینا چاہتا ہے۔ حکمراں جماعت کے ایک رہنما کا ماننا ہے کہ وہ غیر ذمہ دار ہیں اور گھر جاکر فیملی سے ملنے کے لئے اچانک مل گئی چھٹی کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ان مہاجر مزدوروں کے پاس نہ کھانا ہے، نہ سر پر چھت ہے، نہ کوئی امید باقی ہے۔ ان میں سے کئی اپنی نوکری گنواکر آئے ہیں، کیونکہ ان کے مالک ان کو تنخواہ دے پانے کی حالت میں نہیں تھے۔
ان کے لیے کھانا اور گھر کا کرایہ دے پانا کافی مشکل ہوتا۔ ان کو بیمار پڑ جانے کا بھی ڈر تھا۔ایسے میں وہ زمین پر بچی اس اکلوتی جگہ پر کسی بھی طرح سے پہنچ جانے کے لئے نکل پڑے، جہاں ان کو تحفظ کا احساس ہوتا-اور یہ جگہ تھی ان کا گھر۔لیکن سرحدیں سیل ہیں اور وہ کب اپنے گھروں کو پہنچ پائیںگے، یہ پتہ نہیں ہے۔ بھیڑ بڑھ رہی ہے۔ ایک بڑے انسانی بحران کی تمہید تیار ہو رہی ہے۔
اقتدار میں واپسی کرنے کے ایک سال کے اندر یہ تیسری بار ہے جب حکومت کے کسی سرکاری قدم نے بہت بڑی آبادی کو ایک ساتھ مصیبت اور تکلیف میں ڈال دیا ہے۔کچھ سال پیچھے جائیں، تو ہم نوٹ بندی کو بھی اس فہرست میں ڈال سکتے ہیں۔ ان تمام معاملوں میں جو ایک بات مشترک ہے وہ ہے فیصلہ لینے کا تاناشاہی طریقہ،منصوبے کا فقدان اور خراب عمل آوری۔
ان میں ایک اور چیز اور مشترک ہے اور وہ ہے انسانی زندگی کی قیمت کی بالکل بھی پرواہ نہ کرنا، جو ان معاملوں میں بہت زیادہ رہی ہے۔منریگا جیسی ایک آدھ پہل کو چھوڑ دیں، تو ہندوستان میں کبھی بھی ایک مؤثر سماجی طورطریقہ نہیں رہا ہے۔ تھوڑا بہت جو کچھ تھا بھی، آج اس کی بھی حالت خراب ہے۔
پالیسیاں بناتے وقت غریبوں کی ضرورت کا شاید ہی کبھی دھیان رکھا جاتا ہے، لیکن اب ان کے متعلق احساس کی بھی مکمل کمی دکھتی ہے۔لاک ڈاؤن کا سب سے زیادہ خمیازہ جن کو اٹھانا پڑا، ان کو ہی اجتماعی مفادات کی ذرا بھی پرواہ نہ کرنے والے اینٹی نیشنل ولن کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔
حکومت کے حامی یہ دلیل دے سکتے ہیں کہ یہ تمام فیصلے ناگزیر تھے اور آخرکار یہ سب ملک کے لئے فائدے مند تھے۔ یہ ضروری تھا یا نہیں، اس پر آخری فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا ہے، لیکن چلیے ہم ان کی ایک ایک کرکے تفتیش کرتے ہیں۔یہ کہا گیا کہ نوٹ بندی کالا دھن کو نکالنے کے لئے ضروری تھی (ساتھ میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یہ کیسے دہشت گردی کی کمر توڑ دےگی)۔ ہم یہ دیکھ چکے ہیں کہ اس کا انجام کیسا رہا-صرف مختصر مدت میں نہیں، بلکہ طویل مدت میں بھی۔
اس کی سب سے زیادہ مار غریبوں کو جھیلنی پڑی، لیکن دعوے کے برعکس نقد لین دین اور کالا دھن دونوں کی واپسی ہو گئی ہے۔کشمیر میں آرٹیکل 370 کے کئی اہتماموں کو ختم کرنا-جہاں پوری ریاست کو تالابند کر دیا گیا اور بنیادی انٹرنیٹ تک لوگوں سے چھین لیا گیا۔
اس فیصلے کا استقبال ان لوگوں کے ذریعے بھی کیا گیا جو مودی حکومت کے کوئی خاص مداح نہیں تھے۔ لیکن اس قدم نے ستر لاکھ لوگوں کی زندگی کو مشکل میں ڈال دیا۔
حد سے زیدہ محب وطن مہاجر ہندوستانیوں نے اس کا استقبال کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ ‘ کشمیر آخرکار ہندوستان کا حصہ بن گیا ہے۔ ‘ لیکن دنیا بھر میں اس کی بڑے پیمانےپر مذمت کی گئی۔کشمیر پر ہندوستان کے دعوے پر دنیا کبھی بھی پوری طرح سے متفق نہیں رہی ہے، لیکن لگاتار ہونے والے انتخابات اور جمہوریاداروں نے ہندوستان کے حزب کو مضبوط کرنے کا کام کیا ہے۔
لیکن منتخب رہنماؤں کو مہینوں تک بنا کسی الزام کے قید کرکے رکھنے کے بعدہمارے دعوے کی کونسی اخلاقی بنیاد باقی رہ جائےگی؟جہاں تک آسام میں کورٹ کی ہدایت پر چلائی گئی این آر سی کے پورے عمل کا سوال ہے، اس سے پھیلی افرا تفری کو دیکھتے ہوئے مودی حکومت کو ا س کے نتائج کا اندازہ ہو جانا چاہیے تھا۔
لیکن اس کی جگہ اس نے پورے ہندوستان کے لئے یہ رجسٹر بنانے کے منصوبے کا اعلان کر دیا۔ اس لئے ابھی صرف آسام کے 19 لاکھ لوگوں کی شہریت پر ہی تلوار نہیں لٹک رہی ہے، آنے والے وقت میں اس سے کئی گنا زیادہ لوگ اس حالت میں ہوںگے۔
پورے ہندوستان میں ہوئی تحریکوں کے بعد حکومت کو نہ صرف رک جانا چاہیے تھا بلکہ اس نقصان دہ قدم کو بھی واپس لے لینا چاہیے تھا۔ لیکن نریندر مودی اور امت شاہ کوئی قدم اٹھا لینے کے بعد اس پر دوبارہ غور نہیں کرتے ہیں۔اور اب مہلک کورونا وائرس کے انفیکشن کے معاملے نے، جس سے نپٹنے کے لئے ایک منظم اور زیادہ انسانی رد عمل درکار تھی، ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ یہ حکومت کوئی کام کرنے سے پہلے کوئی منصوبہ بنانے کی زحمت نہیں اٹھاتی ہے۔
ایک اچانک کی جانے والی تالابندی کوئی اسکیم نہیں ہے اور ظاہری طور پر تھالی پیٹنے کی اپیل کو کوئی اسکیم نہیں کہا جا سکتا ہے۔اس میں سے دوسرا زبردست طریقے سے کامیاب رہا اور اس نے انگلی کے اشارے پر ملک کی عوام کو نچانے کی مودی کی صلاحیت کا ایک بار پھر مظاہرہ کیا۔
وہاٹس ایپ پر فارورڈ کئے جانے والے نام نہاد روحانیت سے بھرے کئی پیغامات میں کہا گیا کہ تھالی پیٹنے سے ہونے والی تھرتھراہٹ اور ساتھ میں اوم کا منتر وائرس کو بھگا دےگا۔صرف چار گھنٹے کی نوٹس پر ملک گیر تالابندی کے اعلان کا تباہ کن اثر پڑا-خاص طور پر غریبوں پر۔
متوسظ طبقہ آہستہ آہستہ ایک طرح کے روزمرہ میں ڈھل گیا ہے اور بھلے ان کو بھی چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہ گھر سے کام کر سکتے ہیں اور ان کے پاس وقت گزارنے کے کئی اختیار ات موجود ہیں-سوشل میڈیا نیٹ فلکس وغیرہ پر دیکھنے لائق اچھی فلموں کی سفارشوں سے گلزار ہے۔
لیکن سڑک پر آنے والے لوگوں پر کیمیائی چھڑکاؤ کے بعد، ان کو جانوروں کی طرح باڑے میں ٹھونسا جا رہا ہے اور اسٹیڈیم میں ہانکا جا رہا ہے۔ان کو تنہائی میں رکھا جائےگا۔ لیکن اس کے آگے کیا؟ ان کی میڈیکل تفتیش کون کرےگا؟ ان کو کھانا کون کھلائےگا اور ایک وقت کے بعد ان کو ان کے شہر یا گاؤں میں ان کے گھر تک کون پہنچائےگا؟
کیا ان کی نوکریاں بچی ہوںگی، کیونکہ خدشہ یہ ہے کہ تالابندی سے چھوٹے کاروبار کو بھاری نقصان اٹھانا پڑےگا۔ معیشت کو دوبارہ پٹری پرلانے اور تالابندی کی زد میں آنے سے ہونے والے نقصان کو کم کرنے کے لئے حکومت کے پاس کیا منصوبہ ہے؟فی الحال معاملوں اور اموات کی تعداد بڑھنے کی صورت میں پیدا ہونے والی میڈیکل ایمرجنسی سے نپٹنا سب سے پہلی ترجیح ہے اور ہمارے ڈاکٹر اور نرس دن رات مورچے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔
لیکن اتناہی اہم ہے فراہمی میں رکاوٹ کے مسئلہ سے نپٹنا، جو سیدھے طور پر اچانک لاک ڈاؤن کے اعلان سے پیدا ہوئی ہے۔ٹرک ہائی وے پر کھڑے ہیں۔ مال چڑھانے اور اتارنے کا کام کرنے والے مزدور غائب ہیں اور فراہمی دکانوں تک نہیں پہنچ رہی ہے۔ اور ریاستوں کے ذریعے اپنی سرحدوں کو کھولنے کو لےکر کی جا رہی بہانے بازی کو دیکھتے ہوئے حالات اور خراب ہونے کا ہی خدشہ ہے۔
تھوڑی-سی اسکیم بناکر اس سب کو ٹالا جا سکتا تھا۔ سوال پوچھا جانا چاہیے کہ کیا اتنے کم وقت کی نوٹس پر تالابندی کرنا ضروری تھا؟ابھی بھی حکومت اس وبا اور اس کے بعد کی حالت سے نپٹنے کے لئے ایک واضح اور بہتر حکمت عملی بناکر اس آفت کا سامنا کر سکتی ہے۔ لیکن اب تک ایسی کسی حکمت عملی پر کام کئے جانے کا کوئی اشارہ نہیں ہے۔
فیصلے لینے کے ایسے پیٹرن کو دیکھتے ہوئے یہ سوال کسی کے بھی ذہن میں آ سکتا ہے کہ کیا مودی حکومت میں کوئی بھی-اور خود نریندر مودی بھی-ایسے فیصلوں کے لوگوں پر پڑنے والے اثرات کے بارے میں نہیں سوچتے ہیں؟یہ شاہی فرمان جیسے اعلانات سے ان کو شاید پیار ہو-ان کے بھکتوں کو یہ یقینی طور پر خوب پسند آتا ہے۔ یقیناً انہوں نے لوگوں پر آنے والی مصیبت کے بارے میں سوچا ہوگا؟
اور اگر انہوں نے نہیں سوچا ہے-اور پچھلے کچھ سال کے واقعات کو دیکھتے ہوئے ایسا شک پیدا ہونا واجب ہے-تو یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ان کو عوام میں ڈر اور دہشت پیدا کرنا پسند ہے۔کیونکہ بھلے یہ نوٹ بندی کے دوران پرانے نوٹوں کو بدلنے کا معاملہ ہو یا اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے دستاویز جمع کرنے کا یا اب کھانا خریدکر جمع کرنے کے لئے سرپٹ بھاگنے کا، ہر بار لاکھوں-کروڑوں لوگوں کو ڈر اور خدشات نے گھیر لیا۔
لیکن سب سے زیادہ مار ہمیشہ غریبوں پر پڑتی ہے۔ ان کو ہی اپنی معمولی نقد بچت کو بدلنے کے لئے لائن میں کھڑا ہونا پڑا تھا اور اب وہی ہیں، جن کو اس بحران کے بعد اپنی نوکریاں گنوانی پڑیںگی۔یہ ہمارے وقت کے مطابق ہی ہے کہ سینکڑوں میل کی دوری طے کرکے کسی بھی طرح اپنے گھر پہنچنے کے لئے پیدل ہی نکل جانے والے لوگوں کو ہی گالیاں دی جا رہی ہیں اور ان پر غیر ذمہ دار ہونے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔
اگر کووڈ-19 پھیلتا ہے، تو اس کا الزام ان پر ہی لگایا جائےگا۔ حکومت کے ذریعے چھوڑ دیے گئے اور سماج کے ذریعے ٹھکرا دیے گئے یہ لوگ اپنی ہی زمین پر بے گھر پناہ گزین بنکر رہ جائیںگے۔
Categories: فکر و نظر