کورونا وائرس سے اب تک کشمیر میں 6افراد ہلاک ہوئے ہیں، مگر بندوقوں سے 50افراد پچھلے ڈیڑھ ماہ کے دوران جاں بحق ہوئے ہیں۔صرف اپریل کے مہینے میں ہی اب تک 37افراد ہلاک ہوئے ہیں، جس میں ایک شیر خوار بچہ بھی شامل ہے، جو لائن آف کنٹرول کے آر پار گولیوں کے تبادلہ میں ہلاک ہوگیا۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیوگتاریس کی کال پر لبیک کرتے ہوئے، دنیا کے مختلف شورش زدہ علاقوں میں متحارب گروپوں اور حکومتوں نے کورونا وائرس وبا سے نمٹنے کی خاطر فی الحال جنگ بندی کا اعلان کیا ہے۔ فلپائن میں تقریباً پچھلے 50سالوں سے برسرپیکار نیوپیپلز آرمی نے سیز فائر کا اعلان کیا، تاکہ طبی عملہ کو متاثرہ علاقوں تک جانے میں کوئی پریشانی نہ ہو۔
اسی طرح کولمبیا میں بھی حکومت اور نیشنل لیبریشن آرمی نے عارضی جنگ بندی پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ جنوبی تھائی لینڈ میں بھی متحارب گروپوں نے فی الحال عداوت و کدورت کو پس پشت ڈال کر کورونا کے خلاف مشترکہ جنگ لڑنے میں ہی عافیت جانی ہے۔ شورش زدہ شام میں کورونا سے نمٹنے کے لیے حال ہی میں ترکی، روس اور ایران کے وزرائے خارجہ نے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے کئی امور پر اتفاق رائے ظاہر کیا۔
ادلیب صوبہ میں ترکی اور روس کی ایما پر جنگ بندی کے بعد اس علاقہ میں 18500مہاجرین پچھلے ایک ماہ کے دوران واپس اپنے گھروں کو لوٹ آئے ہیں۔ ادلیب کے واحد شکستہ اسپتال کو از سرنو قابل استعمال بنانے کے لیے ترکی نے ڈاکٹروں و میڈیکل آلات کی کھیپ بھی سرحد پار روانہ کردی۔ متحدہ عرب امارات کے حریف ایران کو انسانی امداد بہم کروانے کی آفر دی ہے۔
ستم ظریفی ہے کہ جہاں دنیا بھر میں متحارب گروپ و حکومتیں بندوقوں کو خاموش کروا رہے ہیں، کشمیر اور لائن آف کنٹرول پر یہ قہر برپا کر رہی ہیں۔ کورونا وائرس سے تو ابھی تک کشمیر میں 6افراد ہلاک ہو گئے ہیں، مگر بندوقوں سے 50افراد پچھلے ڈیڑھ ماہ کے دوران جاں بحق ہو گئے ہیں۔
صرف اپریل کے مہینے میں ہی اب تک 37افراد ہلاک ہو گئے ہیں، جس میں ایک شیر خوار بچہ بھی شامل ہے، جو لائن آف کنٹرول کے آر پار گولیوں کے تبادلہ میں ہلاک ہوگیا۔ جس طرح حال ہی میں اس گولہ باری نے چوکی بل علاقہ کے طمنہ گاؤں اور رامحال علاقہ کے پنز گام کو نشانہ بنایا،اسی سے یہ عندیہ لگتا ہے کہ ہندوستان اور پاکستان نے لائن کنڑول کے پاس بھاری ہتھیاروں کو متعین کیا ہے۔ کیونکہ یہ دونوں گاؤں لائن آف کنٹرول سے خاصی دور ہیں۔ اس صورت میں لگتا ہے کہ کپواڑہ، اوڑی، بارہمولہ اور مظفر آباد کی آبادیاں بھی بھاری ہتھیاروں کے نشانہ پر آگئی ہیں۔
دسمبر 2004میں جب سونامی طوفان نے بحر ہند کے دو درجن سے زائد ساحلی ممالک میں دو لاکھ سے زائد افراد کو لقمہ اجل بنایا، تو انڈونیشیا نے اپنے مغربی صوبہ آچے میں دہائیوں سے جاری علیحدگی پسند تحریک کے لیڈروں کے ساتھ ایک معاہدہ کرکے اس شورش کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کروادیا۔ اس کے ایک سال بعد جب اکتوبر 2005میں کشمیر کے دونوں اطراف زلزلہ نے تباہی مچا کر 90ہزار افراد کی جانیں لیں، تو ہندوستان اور پاکستان نے موقع کی نزاکت کا احساس کرکے لائن آف کنٹرول پر پانچ راہداریا ں کھولنے کے انتظامات کئے۔ بعد میں کشمیر کے دونوں اطراف تجارت کو ہری جھنڈی بھی دکھائی۔
حالات و واقعات گواہ ہیں کہ قدرتی آفات مختلف اوقات میں حکومتوں اور متحارب گروپوں کے درمیان امن مساعی کو تیز تر کروانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔ سویڈن کے ایک اسکالر جواکم کرویز نے 21ممالک میں برپا ہونے والے 405آفات کا مطالعہ کرنے کے بعد بتایا کہ ان سے پیچیدہ مسائل کو حل کروانے میں ترغیب ملی۔ مگر ان کا کہنا ہے کہ یہ اسی صورت میں ممکن ہوا جب مہلوکین کی تعداد 30ہزار سے تجاوز کر گئی تھی یا آفات نے ایک ملین سے زائد افراد کو متاثر کیا تھا۔
وہ یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ چونکہ آفات سے فریقین کے وسائل بھی متاثر ہوتے ہیں، اس لیے وہ کچھ دو اور کچھ لو کے اصول پر مسائل کو حل کروانے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔ اسی طرح ہسپانوی محقق لیزل این ڈینلیز، جس نے انڈونیشیا اور آچے کے درمیان امن مساعی پر تحقیق کی ہے، کا کہنا ہے کہ سونامی سے قبل دونوں فریقین کے درمیان رابطہ قائم ہو چکا تھا، مگر آفت نے اس سلسلہ کو تیز تر کردیا۔
اس کی بڑی وجہ آفت سے نمٹنے کے لیےاس علاقہ میں بین الاقوامی برادی اور عالمی امدادی تنظیموں کی آمد تھی، جنہوں نے نہ صرف فریقین کو نتیجہ خیز بات چیت کے لیے آمادہ کیا، بلکہ ایک طرح سے انہوں نے گارینٹر کا کام بھی انجام دیا۔ ڈینلیز کا کہنا ہے کہ موجودہ حالت میں کورونا بھی اس طرح کی سفارت کاری میں مدد دے سکتی ہے، بشرطیکہ بین الاقوامی برادی فریقین کوتنازعات حل کروانے میں مدد کرے۔
دنیا کے مختلف علاقوں میں مصالحت کاری کاکام کرنے والی برطانوی رضا کار تنظیم کنسیلیشن ریسورسز کے مطابق آفات کبھی کبھی امن بحالی کے مواقع فراہم کرواتے ہیں۔ تباہی سے پیدا یکساں رنج و اندوہ اور وسائل کو مشترکہ طور پر استعمال کرنے کی ضرورت جیسے ایشوز فریقین کو ایک دوسرے پر اعتبار کروانے پر مجبور کرو اہی دیتی ہے۔
سال 2005میں کشمیر میں ہوئے زلزلے کے بعد ہندوستان کے اس وقت کے وزیر خارجہ پرنب مکھرجی نے پارلیامنٹ کو بتایا تھا کہ کشمیر کے دونوں اطراف عوامی تعلقات کو بڑھاوا دینے سے پاکستان کے ساتھ پیچیدہ مسائل کو حل کروانے میں مدد مل سکتی ہے۔اس دور میں سکریٹری خارجہ رہے شیام سرن کے مطابق لائن آف کنٹرول پر پانچ راہداریا ں کھولنے کا مشورہ ہندوستان نے ہی پاکستان کو پیش کیا تھا۔
اس سے قبل دونو ں اطراف سرینگر اور مظفر آباد کے درمیان بس سروس شروع ہو چکی تھی۔ بعد میں جون 2006میں راولا کوٹ اور پونچھ کے درمیان بھی بس سروس شروع ہوگئی۔ اس وقت جب ماہرین کورونا وبا کے بعد کی دنیا بھر میں کساد بازاری، عالمی منڈیوں کے سکڑنے اور معاشی آفت کی پیشن گوئی کررہے ہیں، اس کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری ہے کہ مقامی منڈیوں کو فروغ دیا جائے تاکہ سپلائی چین اور کسی حد تک روزگارمتاثر نہ ہونے پائے۔
کشمیر جو پچھلے نو ماہ سے لاک ڈاون کی زد میں ہے کی معیشت تو تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ کورونا نے تو اس کو مزید غیر مستحکم کر دیا ہے۔ اگر واقعی کشمیر کو ریلیف دینے کی کوئی صورت ہے تو بس یہی ہے کہ لائن آف کنٹرول کے اطراف تجارت جو پچھلے ایک سال سے معطل ہے، اس کو دوبارہ بحال کرایا جائے۔ یہ تجارت اکتوبر 2008کو باہمی اعتماد سازی کے قدم کے طور پر شروع کی گئی تھی۔
گوکہ بارٹر سسٹم کے ذریعے صرف 21اشیاء کی محدود تجارت کی ہی اجازت تھی، اس کے باوجود دس سالوں میں 75بلین انڈین روپے کی تجارت ہوئی، جس سے ایک لاکھ 20ہزار روزگار دن فراہم ہوئے اور 660ملین روپے مقامی ٹرانسپورٹروں نے کمائے۔ موجودہ حالات میں جب معاش کے ذرائع محدود ہو رہے ہیں، اس ٹریڈ سے وابستہ افراد کے لیے متبادل ذریعہ معاش ڈھونڈنا بھی تقریباً ناممکن ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ سفارت کاری کے ذریعے عالمی برادری کے ذریعے ہندوستان کو باور کروائے کہ کشمیریوں کی معیشت کو کم از کم سانس لینے کی اجازت تو دے دے۔
بیورو آف ریسرچ اینڈ اکانومک فنڈامنٹلز یعنی بریف کے مطابق کورونا وائرس نے گلوبلائزیشن کی گاڑی کے پہیوں کو مخالف سمت میں دوڑانا شروع کردیا ہے۔ اس لئے مقامی سطح پر متبادل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ بریف کے ڈائریکٹر آفاق احمد اور ان کی معاون نکیتا سنگلا کے کہنا ہے کہ کشمیر میں آر پار تجارت کی بحالی سے خطے کی معیشت کو سنبھلنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ہندوستان کے ایک سابق سینئر آرمی کمانڈر جنرل ہر چرن سنگھ پنانگ کا کہنا ہے کہ کورونا ایک آفت ہی سہی، مگر ہندوستان اور پاکستان کے لیے ایک نادر موقع ہے کہ سفارتی کاوشوں کو مہمیز عطاکرکے پیچیدہ مسائل کا حل تلا ش کرلیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ سارک تنظیم کو فعال کرکے کم ا ز کم جنوبی ایشیامیں سفارتی سرگرمیوں کو حرکت دی جاسکتی ہے۔
اس سال ستمبر میں نئی دہلی میں شنگھائی تعاون تنظیم کا سربراہ اجلاس ہونے والا ہے۔ اگر سارک کو فعال بناکر سفارتی سرگرمیاں شروع کی جاتی ہیں، تو شاید پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے لیے ہندوستان کے دورے کی کوئی سبیل نکل سکتی ہے۔ ورنہ شاید ان حالات میں ان کےلیے اس اجلاس میں شرکت ممکن نہ ہو۔
کورونا نے دنیا بھر میں احتجاجوں اور شورشوں کو فی الحال خاموش تو کردیا ہے،کیونکہ اکثر سیاسی کارکنوں نے گھروں کے اندر رہنے کو ترجیح دی ہے۔ مگر اس سے شکوہ شکایات کے پہاڑ زمین بوس تو نہیں ہوئے ہیں۔ حکومتوں کے خلاف ناراضگی تو برقرار ہے۔ وبا کے بعد جس معاشی تباہی کا اندیشہ ہے، ظاہر ہے وہ مزید ناراضگی اور عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہے۔
بہر حال مواقع کا ادراک کرتے ہوئے ان سے فائدہ اٹھانا اور ناممکن کو ممکن بنانا، لیڈروں کے وطیرہ و عزم پر منحصر ہوتا ہے، اگر وہ واقعی خلوص نیت کے ساتھ امن چاہتے ہوں۔ وگرنہ ایک عام سیاستدان آفت کو اپنی دکان چمکانے اور برتری دکھانے کے لیےاستعمال کردیتا ہے۔ تاریخ خاصی ظالم ہوتی ہے۔ وہ ان سیاستدانوں کو جلد ہی نہ صرف کوڑے دان میں پھینک دیتی ہے، بلکہ اوراق میں ظالم و جابر اور مفاد پرست کے نام سے درج کروادیتی ہے۔
Categories: فکر و نظر