خبریں

کورونا بحران کے دوران سپریم کورٹ کا رویہ مایوس کن رہا ہے: جسٹس مدن بی لوکر

سپریم کورٹ کے سابق جسٹس مدن بی لوکر نے ایک انٹرویو میں کہا کہ سپریم کورٹ اپنی آئینی ذمہ داریوں کو صحیح طریقے سے نہیں نبھا رہا ہے۔ہندوستان کا سپریم کورٹ اچھا کام کرنے  میں اہل ہے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ ان کو اپنا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

جسٹس مدن بی لوکر، فوٹو بہ شکریہ : یو ٹیوب اسکرین شاٹ

جسٹس مدن بی لوکر، فوٹو بہ شکریہ : یو ٹیوب اسکرین شاٹ

نئی دہلی: سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج جسٹس مدن بی لوکر نے کہا ہے کہ کو رونابحران  کے دوران جس طرح سے سپریم کورٹ  کام کر رہاہے وہ بالکل ‘مایوس’ کن ہے۔انہوں نے کہا، ‘یہ اپنی آئینی ذمہ داریوں کوصحیح طرح سے نہیں نبھا رہا ہے۔ہندوستان  کا سپریم کورٹ  اچھا کام کرنے میں اہل  ہے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ انہیں اپنا جائزہ لینےکی ضرورت ہے، انہیں غور وفکر کرکے یہ پتہ لگانے کی ضرورت ہے کہ وہ آگے کیسے بڑھیں۔ یقینی طور پر کورٹ کو اور زیادہ فعال  ہونا چاہیے۔’

معلوم ہو کہ چھ سالہ مدت کارکے بعد جسٹس مدن لوکر دسمبر 2018 میں سپریم کورٹ سے ریٹائر ہوئے تھے۔دی  وائر کے لیےسینئر صحافی  کرن تھاپر کے ساتھ ایک انٹرویو میں جسٹس لوکر نے کو رونابحران کے دوران کورٹ کی کارروائی اور ان کے ذریعے لیے گئے فیصلوں پر تفصیل  سے بات کی۔

مہاجر مزدوروں کے زندگی  کے حق سے جڑے ایک معاملے میں فیصلہ لینے میں کورٹ کے ذریعے تین ہفتے کاوقت لگانے کے سوال پر جسٹس لوکر نے کہا، ‘ہاں، مجھے لگتا ہے کہ کورٹ نے ان مہاجروں کومایوس کیا ہے۔ کورٹ کا یہ کہنا کہ سرکار مہاجر مزدوروں کے لیے جو اچھا سمجھے ویسا قدم اٹھائے، اس پر سابق جج نے کہا، ‘مجھے لگتا ہے کہ کورٹ اس سے زیادہ کر سکتی تھی اور اس کو کرنا چاہیے تھا۔’

دی  وائر کے ذریعے یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ ہندوستان  کے چیف جسٹس  ایس اے بوبڈے کے اس رخ سے متفق  ہیں جہاں انہوں نے27 اپریل کو د ی ہندو کو دیےایک انٹرویو میں کہا کہ – ‘یہ ایسی حالت  نہیں ہے، جہاں اور وقت  کی طرح حقوق  کو بہت اہمیت یاترجیح  دی جائے، جسٹس لوکر نے کہا، ‘یہ کہنا کہ موجودہ حالت  کی وجہ سے ابھی کے وقت میں بنیادی حقوق  اتنے اہم  نہیں ہیں، یہ غلط طریقہ ہے۔’

جسٹس لوکر نے کہا کہ سی جے آئی بوبڈے کا یہ تبصرہ  بدنام زمانہ اے ڈی ایم جبل پور معاملے میں اکثریت کی رائے سے ملتا جلتا ہے لیکن وقت نے یہ ثابت کر دیا کہ اس معاملے میں عدم اتفاق کا اظہار کرنے والے جسٹس ایچ آر کھنہ کے خیالات صحیح تھے۔انہوں نے کہا، ‘آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ابھی کے وقت میں ہمیں زندگی کے حق کو بھول جانا چاہیے۔ اگر آپ ایمرجنسی کے وقت میں زندگی کے حق کو نہیں بھول سکتے ہیں تو مجھے سمجھ نہیں آتا کہ ابھی کے وقت میں آپ اس کو کیسے بھول سکتے ہیں۔’

سپریم کورٹ نے مہاجر مزدوروں یا منریگا مزدوروں کی ادائیگی کے معاملے کو جس طرح ٹال دیا تھا، لیکن 15 گھنٹے کے اندر ری پبلک ٹی وی کے اینکر ارنب گوسوامی کی عرضی  پرشنوائی کی، اس کے بارے میں دی  وائر سے بات کرتے ہوئے جسٹس لوکر نے کہا، ‘یہ بہت بڑی غلطی تھی کہ بے حد ضروری کے زمرے سے باہر ہونے کے باوجود عدالت نے اس معاملے پرفوری شنوائی کی۔’

انہوں نے کہا، ‘حالات کو دیکھتے ہوئے مہاجروں کے حقوق  سے زیادہ اہم کوئی معاملہ نہیں تھا۔ یہ بے حد اہم  تھا اور بے حد ضروری  تھا۔ اس کے بجائے آپ نے ایک ایسے معاملے کو چنا جہاں(شاید)10 ایف آئی آر دائر ہوئے تھے۔ اس میں بے حد ضروری  کیا تھا؟ پولیس نے ان ایف آئی آر پر کوئی کارروائی بھی نہیں کی تھی۔ گرفتار ہونے کے امکانات لگ بھگ صفر تھے۔ غریبوں کی تکلیف اورمہاجروں  کی تکلیف کے سامنے اس کا کوئی موازنہ بھی نہیں ہو سکتا۔ میری سمجھ سے یہ بہت، بہت غلط تھا کہ سپریم کورٹ نے ایک ایسے معاملے کو چنا جو بے حد ضروری  کے زمرے میں فٹ نہیں بیٹھتا ہے۔’

سپریم کورٹ کے ذریعے جموں وکشمیر کی حالت اورشہریت(ترمیم شدہ)قانون سے متعلق سبھی آئینی عرضیوں کو باربارملتوی  کرنے کےبارے میں سابق جج نے کہا، ‘یہ سمجھنا مشکل ہے۔ یہ معاملے بہت اہم  ہیں کیونکہ ان میں لوگوں کے ایک بہت بڑے طبقے کو متاثر کرنے کی صلاحیت ہے۔ سماج کا ایک بڑا طبقہ اس سے متاثر ہوتا ہے۔ ان معاملوں کوترجیحات میں لیا جانا چاہیے تھا۔ میں سچ میں یہ سمجھ نہیں پا رہا کہ ان معاملوں کو ترجیح  کیوں نہیں دی گئی ہے۔’

سپریم کورٹ کے وکیل پرشانت بھوشن نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں کہا تھا کہ ، عدالت نےسرکار کے سامنے اپنے اختیارات کو سرینڈر کر دیا ہے۔ اس پر جسٹس لوکر نے سرینڈر لفظ کو غلط بتایا اور کہا کہ عدالت اپنے آئینی کاموں خاطر خواہ طریقے سے نہیں کر رہی ہے۔

جسٹس لوکر نے آگے کہا کہ اگر فرد کے پاس حق  ہے، تو اس کوعمل میں لانا ہوگا۔ بس۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجھےامید ہے اور یقین ہے کہ کوئی فرداپنی طرف سے اس حق کونافذ کرےگا۔فرد کا حق ہے۔ آپ اس کونافذکیوں نہیں کر رہے ہیں؟یہ(سپریم کورٹ)اپنے آئینی کاموں کواچھی طرح سے نہیں کر رہا ہے۔

آخر میں پوچھا گیا کہ کیا وہ سپریم کورٹ سےمایوس ہیں، جسٹس مدن لوکر نے کہا، ‘ہاں، میں مایوس ہوں۔ یہ مایوس کن ہے۔ یقینی طور پر۔’