دہلی پولیس نے تشدد کے دوران ویٹر دلبر نیگی کےقتل کے معاملے میں درج چارج شیٹ میں الہند ہاسپٹل کے مالک ڈاکٹر ایم اے انورکو ملزم بنایا ہے۔ اس ہاسپٹل میں متاثرین کا علاج بھی کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر انور اور ارشد پردھان کو فاروقیہ مسجد میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف ہوئے مظاہرے کا آرگنائزر بتایا گیا ہے۔
نئی دہلی: دہلی پولیس کی چارج شیٹ میں شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات کے دوران متاثرین کو ایمرجنسی طبی خدمات فراہم کرانے والے ہاسپٹل کے مالک کا نام بھی شامل ہے۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، پولیس نے ویٹر دلبر نیگی (20)کےقتل کے معاملے میں درج چارج شیٹ میں الہند ہاسپٹل کے مالک ڈاکٹر ایم اے انور کو ملزم بنایا ہے۔ چارج شیٹ میں انہیں سی اے اے اور این آر سی کےخلاف ہوئے مظاہرے کاآرگنائزربتایا گیا ہے،جس میں حصہ لینے والے مظاہرین دہلی میں ہوئےتشدد میں شامل تھے۔
انور نیومصطفیٰ آباد کے الہند ہاسپٹل کے مالک ہیں، جنہوں نے فروری میں ہوئے دہلی فسادات کے دوران کئی زخمی مریضوں کا علاج کیا تھا، ان میں سے کئی مریضوں کو گولیاں لگی تھیں، کئی کے سر کی ہڈیاں ٹوٹ گئی تھیں۔یہ ہاسپٹل پچھلے تین سالوں سے اپنی خدمات دے رہا ہے۔
شرپسندوں کے ذریعےایمبولنس کو نشانہ بنائے جانے کی وجہ سے شدید طور پرزخمی کئی مریضوں کو الہند سے جی ٹی بی ہاسپٹل نہیں لے جایا جا سکا تھا، اس لیے 25 فروری کو ڈاکیومنٹری فلم میکر راہل رائے نے اپنے وکیل سرور منڈیر کے ذریعے دہلی ہائی کورٹ میں عرضی دائر کی تھی۔آدھی رات کو ہوئی شنوائی میں ہائی کورٹ نے دہلی پولیس کو ہدایت دی تھی کہ وہ زخمیوں کو جی ٹی بی یا کسی دیگر سرکاری ہاسپٹل میں حفاظت کے ساتھ پہنچانا یقینی بنائے۔
دہلی پولیس نے چار جون کو کڑکڑڈوما کورٹ میں چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ پون سنگھ راجاوت کےسامنے چارج شیٹ داخل کی تھی، جس میں کہا گیا، ’15 جنوری 2020 سے فاروقیہ مسجد کے پاس غیرقانونی طور پر شہریت قانون (سی اے اے) اور این آر سی مخالف مظاہرے ہو رہے تھے، جس میں کئی مقررین نے آکر بھڑکاؤ بیانات دیے۔ جھوٹی خبر پھیلائی گئی کہ این آر سی کی وجہ سے مسلمانوں کو ہندوستانی شہریت سے محروم رکھا جائےگا اور انہیں ڈٹینشن سینٹرس میں رکھا جائےگا۔’
چارج شیٹ میں کہا گیا،‘جہاں مظاہرے ہوئے اس کے باہر بی آرامبیڈکر، شہید بھگت سنگھ، مہاتما گاندھی کی تصویریں لگی تھیں اور ترنگا لہرا رہا تھا۔ حالانکہ، ایک خاص کمیونٹی کومرکزی حکومت کے خلاف اکسایا گیا۔ جن لوگوں نے اس احتجاجی مظاہرے میں حصہ لیا تھا، انہیں اکسایا گیا، جس کے بعد وہ 23 فروری 2020 کو تشدد میں شامل ہوئے، جس کی ایف آئی آر دیال پور پولیس تھانے میں درج ہے۔’
چارج شیٹ میں کہا گیا،‘فاروقیہ مسجد میں ہوئے اس مظاہرےکے آرگنائزرارشد پردھان اور الہند ہاسپٹل کے مالک ڈاکٹرانور ہیں۔ ان لوگوں سے پوچھ تاچھ نہیں کی جا سکی۔ ان سے بعد میں پوچھ تاچھ کی جائےگی اور ہم اس کے مطابق جانچ کریں گے۔ 23-24 فروری کو ہواتشدد کوئی الگ واقعہ نہیں تھا۔’
ڈاکٹرانور کا کہنا ہے، ‘مجھے پتہ ہے کہ چارج شیٹ میں میرا نام ہے۔ نہ ہی میں نے اس احتجاجی مظاہرے کا انعقاد کیا تھا اور نہ ہی اس میں شامل تھا کیونکہ میں ہمیشہ مصروف رہتا ہوں۔ دراصل کئی بار میں نے مقامی پولیس کو بتایا تھا کہ مظاہرے کی وجہ سے علاقے میں آنے جانے میں دقت ہوتی ہے اور اس کو خالی کرایا جانا چاہیے۔
انڈین ایکسپریس سے بات چیت میں انہوں نے کہا، میرا نام اس میں گھسیٹا گیا، کیونکہ میں نے فسادات کے دوران ہاسپٹل میں لوگوں کا علاج کیا تھا۔ اس معاملے میں مجھے گھسیٹا جا رہا ہے کیونکہ میں نے انسانیت دکھائی۔ مجھے نشانا بنایا جا رہا ہے۔ یہ جھوٹے الزم ہیں۔’اس چارج شیٹ میں ارشد پردھان کاذکر نہرو وہار کے باشندہ کے طور پر کیا گیا ہے۔
بتا دیں کہ نیگی جس مٹھائی کی دکان میں کام کرتے تھے،یہ ہاسپٹل اس سے لگ بھگ ایک کیلومیٹر کی دوری پر ہے، جبکہ فاروقیہ مسجد سے بھی ہاسپٹل کی دوری اتنی ہی ہے۔پولیس نے اب تک چارج شیٹ میں 12 لوگوں کو ملزم بنایا ہے، یہ سبھی عدالتی حراست میں ہیں۔ ان کی پہچان محمد شاہنواز عرف شانو، محمدفیضل، آزاد، اشرف علی، راشد عرف مونو، شاہ رخ، محمد شعیب، پرویز، راشد عرف راجہ، محمد طاہر، سلمان اور سونوسیفی کے طور پر ہوئی ہے۔
اتراکھنڈ کے رہنے والے نیگی شیو وہار میں انل سوئٹس پر کام کرتے تھے۔گزشتہ26 فروری کی دوپہر گوکول پوری کی مقامی پولیس کو گودام کے اندر ایک شخص کی لاش کا پتہ چلا، لاش جلی ہوئی حالت میں تھی، اس کی جانگھ کا نچلا حصہ غائب تھا۔ بعد میں لاش کی پہچان نیگی کے طور پر ہوئی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ نیگی 24 فروری کو لنچ کے لیے دکان کے گودام میں گیا تھا اور اس کے بعد سے اس کا کچھ پتہ نہیں چل پایا۔چارج شیٹ کے مطابق، برج پوری کی پلیا سے بھیڑ آئی اور انل سوئٹس کی دکان اور گودام سمیت ہندوؤں کی کئی دکانوں اور ملکیت کو آگ لگا دی گئی۔
Categories: خبریں