جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ کشمیری پنڈتوں کے بغیر کشمیر نامکمل ہے اور وہ انہیں عزت کے ساتھ واپس لانے کی کسی بھی پیش رفت کی حمایت کریں گے۔
نئی دہلی: جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے 90کی دہائی کی شروعات میں کشمیری پنڈتوں کی ہجرت کی جانچ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ جج سے کرانے کی اتوار کو مانگ کی۔ایک ویبی نار کے دوران سوالوں کا جواب دیتے ہوئے عبداللہ نے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ کشمیری پنڈتوں کے بغیرکشمیر نامکمل ہے اور وہ انہیں عزت کے ساتھ واپس لانے کی کسی بھی پیش رفت کی حمایت کریں گے۔
قابل ذکر ہے کہ 90 کی شروعات میں دہشت گردی کے آغاز کے بعد تقریباً60 ہزار کشمیری خاندانوں نے تارکین وطن کے طور پر اپنارجسٹریشن کرایا ہے۔لوک سبھا ممبراور نیشنل کانفرنس کے صدر عبداللہ نے الزام لگایا کہ کشمیری پنڈتوں کی ہجرت کے لیے اس وقت کے گورنر جگموہن ذمہ دار تھے، جو تین مہینے میں واپسی کا جھوٹا وعدہ کرکے انہیں گھاٹی سے باہر لےکر گئے۔
اس ویبی نار کا انعقاد جموں کے ایپی لاگ نیوز نیٹ ورک نے کیا تھا اور اس کامرکزی موضوع‘پرانے آرڈرکی منسوخی اورنئے آرڈرکا نفاذ- آرٹیکل 370 اور 35 اے کےخاتمہ کے ایک سال’بعد تھا۔اس دوران عبداللہ سے پوچھا گیا کہ کیا وہ نسل کشی کے بل کی حمایت کریں گے، جو پنون کشمیر نامی کشمیری پنڈتوں کی ایک تنظیم لےکر آئی ہے اور اس میں تارکین وطن کے لیے الگ ریاست کی مانگ کی گئی ہے۔
اس پر عبداللہ نے کہا کہ وہ پہلےبل کو پڑھیں گے۔تین بار جموں و کشمیر کےوزیر اعلیٰ رہ چکے فاروق عبداللہ نے کہا، ‘سپریم کورٹ کے سبکدوش محنتی اور ایماندار جج یا ججوں کی ٹیم کو جانچ کرنے دیں اور رپورٹ آنے دیجیے۔ اس سے ینگ کشمیری پنڈتوں کے بہت سےخدشات دور ہو جائیں گے اور پتہ چلے گا کہ انہیں کشمیری مسلمانوں نے باہر نہیں نکالا۔ اب بھی کئی کشمیری پنڈت ہیں جنہوں نے کبھی گھاٹی نہیں چھوڑی اور اب بھی وہاں رہ رہے ہیں۔
نیشنل کانفرنس کے رہنما نے کئی واقعات کاذکر کیا جس میں1947 سے اب تک کشمیری پنڈتوں کے لیے مسلمان کھڑے ہوئے۔انہوں نے کہا کہ، ‘کیا آپ مانتے ہیں کہ ہم آپ کے(کشمیری پنڈتوں)جانے سے خوش ہیں؟ ہمارا ماننا ہے کہ کشمیر تب تک مکمل نہیں ہوگا جب تک ہندو واپس نہیں لوٹیں گے اور ایک ساتھ نہیں رہیں گے۔’
عبداللہ نے کہا کہ وہ اپنی پارٹی کے اس نظریے پر قائم رہیں گے چاہے کوئی کسی بھی مذہب کا کو مانتا ہو ان کے لیے سب ایک برابر ہیں۔انہوں نے کہا، ‘میرے والد نے کبھی دو قومی نظریے کو قبول نہیں کیا۔ وہ کبھی نہیں مانتے تھے کہ مسلم، ہندو، سکھ، عیسائی، بودھ اوردوسرے مذاہب الگ ہیں۔ ہم سب کو آدم اور حوا کی اولاد مانتے ہیں۔ سب کی ضرورتیں ایک ہیں اور انہوں نے یکجہتی کے لیے کام کیا میں آخری دم تک تک اس راستے پر قائم رہوں گا اور سب کو متحد کرنے کے لیے کام کرتا رہوں گا۔’
بتا دیں کہ مرکز کی جانب سے جموں و کشمیر کے خصوصی درجے کو ختم کرنے اور اس کو دویونین ٹریٹری میں بانٹنے کے اعلان سے پہلے فاروق عبداللہ، ان کے بیٹے اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ سمیت تمام اہم رہنماؤں اور کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔گزشتہ13 مارچ کو فاروق عبداللہ پر سے پی ایس اے ہٹاتے ہوئے انہیں رہا کیا گیا تھا۔ اس کے بعد 24 مارچ کو ان کے بیٹے اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ پر سے بھی پی ایس اے ہٹاتے ہوئے ان کورہا کیا گیا تھا۔
حالانکہ،سابق وزیر اعلیٰ اور پیپلس ڈیموکریٹک پارٹی(پی ڈی پی)کی رہنما محبوبہ مفتی کی پی ایس اے کے تحت حراست مزید تین مہینے کے لیے بڑھا دی گئی ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں