خبریں

کشمیری آج خود کو ہندوستانی نہیں مانتے، وہ چین کے زیر اقتدار رہنے کو تیار ہیں: فاروق عبداللہ

نیشنل کانفرنس کےصدراور جموں وکشمیر کے سابق وزیراعلیٰ فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ وہ آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے کودوبارہ نافذ کروانے اور جموں کشمیر کو ریاست  کا درجہ دلوانے کے لیےپرعزم ہیں اور اس کے لیے آخری سانس تک پرامن  ڈھنگ سے لڑیں گے۔

فاروق عبداللہ اور کرن تھاپر (فوٹو: دیوی دت)

فاروق عبداللہ اور کرن تھاپر (فوٹو: دیوی دت)

نئی دہلی: جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ موجودہ وقت میں کشمیری شہری خود کو ہندوستانی  نہیں سمجھتے اور وہ  ہندوستانی رہنا بھی نہیں چاہتے۔انہوں نے یہاں تک کہا کہ اس کے بجائے کشمیری شہری  چین کے زیر اقتدار رہنے کو تیار ہیں۔ عبداللہ نے دی  وائر کے لیے کرن تھاپر کو دیےانٹرویو میں یہ باتیں کہیں۔

نیشنل کانفرنس کے سربراہ اورگزشتہ چار دہائی  سے جموں وکشمیر کی سیاست میں ہندوستان حامی  چہروں میں سے ایک رہے فاروق نے کشمیریوں کاموازنہ غلاموں سے کرتے ہوئے کہا کہ ان کے ساتھ ملک کے دوئم درجے کے شہریوں کی طرح سلوک کیا جا رہا ہے۔

د ی وائر کو دیے44 منٹ کےانٹرویومیں عبداللہ نے کہا کہ بی جے پی کا یہ کہنا بالکل بے معنی  ہے کہ کشمیر کے لوگوں نے اگست 2019 میں ہوئی  تبدیلیوں کو قبول کر لیا ہے، وہ بھی صرف اس لیےکہ وہاں کوئی مظاہرہ نہیں ہوا۔انہوں نے کہا کہ اگر کشمیر کی ہر سڑک سے فوج کو ہٹا دیا جائے اور وہاں سے دفعہ144 بھی ہٹا دی جائے تو لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر نکلیں گے۔

عبداللہ نے دی وائر کو بتایا کہ گھاٹی کو ہندوؤں سے بھر دینے اور گھاٹی کو ہندواکثریت میں لانے کے لیے ہی نیا ڈومیسائل قانون لایاگیا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے کشمیر کے لوگوں میں اور کڑواہٹ پیدا ہوئی ہے۔

یہ پوچھنے پر کہ کشمیر کے لوگ مرکزی حکومت بالخصوص وزیر اعظم  مودی اور وزیر داخلہ  امت شاہ کو کس طرح دیکھتے ہیں؟اس پر عبداللہ نے کہا، ‘ان کادل ٹوٹ  گیا ہے۔ ان کا مرکزی حکومت  میں یقین نہیں ہے۔ وہ بھروسہ جو کشمیر کو باقی ملک سے جوڑتا تھا، اب پوری طرح سے ختم ہو گیا ہے۔’

عبداللہ نے پانچ اگست 2019 کو کشمیر کےخصوصی درجے کو ختم کرنے کو لےکر ہوئے فیصلے سے 72 گھنٹے پہلے وزیراعظم  نریندر مودی کے ساتھ ہوئی بیٹھک سے جڑی جانکاریوں کاانکشاف بھی کیا۔

فاروق عبداللہ نے وزیراعظم مودی سے ملاقات کرکے آرٹیکل 370 اور 35اے کو جاری رکھنے کی یقین دہانی  کی بات کہی تھی۔ انہوں نے وزیراعظم سے پوچھا تھا کہ گھاٹی میں اتنےفوجی دستوں  کو کیوں تعینات کیا گیاہے؟ کیا یہ کسی طرح کےفوجی خطرے کی وجہ سے ہے؟

عبداللہ کے مطابق وزیراعظم  نے جان بوجھ کر ایسا اشارہ دیا کہ فوج  کی تعیناتی کے پیچھے سلامتی وجہیں ہیں۔ عبداللہ نے کہا کہ مودی نے میٹنگ میں آرٹیکل 370 اور 35اے کو لےکر ایک لفظ نہیں کہا۔انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم مودی کے ساتھ ہوئی اس میٹنگ  کے بعد انہیں یقین تھا کہ ان دونوں آرٹیکل کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ حالانکہ، وہ متفق  ہیں کہ وزیر اعظم  نے انہیں گمراہ  کیا اور دھوکہ دیا۔

عبداللہ نے کہا کہ پانچ اگست 2019 کو جب اچانک سے آئینی تبدیلی کی گئی، اس وقت نیشنل کانفرنس اور دیگر مین اسٹریم کی سیاسی پارٹیاں کشمیری لوگوں کی نظروں میں گر سے گئے۔

وہ خود کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ خود دو طرف سے پھنسے تھے۔ ایک طرف مرکزی حکومت نے انہیں غدار کی طرح دیکھا اور گرفتار کر لیا تھا۔ دوسری طرف، کشمیری انہیں سرکار کےخدمت گار کے طورپر دیکھ رہے تھے اور ‘عبداللہ کے ساتھ صحیح ہوا’ جیسی باتیں کہہ رہے تھے۔

عبداللہ نے کہا کہ ان کے ‘بھارت ماتا کی جے’بولنے پر انہیں بھلا برا کہا گیا،طنز کسے گئے، جس نے انہیں بہت مایوس کیا۔انہوں نے کہا، ‘حالانکہ نظربندی میں سات سے آٹھ مہینے رہنے کے بعد بھی اپنے رخ پر قائم رہنے کی وجہ سے کشمیریوں کے من میں ان کی پارٹی اوردیگر مین اسٹریم پارٹیوں  کو لےکر یقین دوبارہ بحال ہوا۔ لوگوں کو اب احساس ہوا کہ ہم سرکار کے خدمت گار نہیں ہیں۔’

انہوں نے کہا کہ نہ صرف نیشنل کانفرنس بلکہ تمام پارٹی اس مدعے پر ساتھ ہیں اور کشمیریوں کے وقار کو بحال کرنے کو لےکر پرعزم ہیں یعنی آرٹیکل370 اور آرٹیکل35اے کو دوبارہ لاگو کرنے اور جموں وکشمیر کو دوبارہ ریاست کا درجہ دلوانے کے لیے پرعزم ہیں۔

انہوں نے کہا کہ وہ اس کے لیے اپنی آخری سانس تک لڑتے رہیں گے لیکن پرامن طریقے سے۔عبداللہ نے کہا کہ ان کا سپریم کورٹ میں بھروسہ ہے اور امید ہے کہ عدالت ان کی پارٹی کی جانب سے دائر کی جا رہی عرضی  کوملتوی کرنا بند کرےگی اور اس پر شنوائی کرےگی۔ انٹرویو کے دوران انہوں نے سپریم کورٹ کے ججوں سے آئینی  معاملوں پر جلدشنوائی کی اپیل کی۔

یہ پوچھنے پر کہ انہوں نے پارلیامنٹ کے موجودہ سیشن کے دوران اس مدعے کو کیوں نہیں اٹھایا، انہوں نے جواب دیا کہ انہیں وقت ہی نہیں دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ وہ کانگریس، ترنمول کانگریس، ڈی ایم کے اور لیفٹ پارٹیوں کے رکن پارلیامان  کے ساتھ مل کر لوک سبھا اسپیکراوم بڑلا سے ملنے گئے تھے اور اسپیکر نے انہیں یقین دلایا تھا کہ چرچہ کے لیے وقت دیا جائےگا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

یہ پوچھنے پر کہ کیا انہیں لگتا ہے کہ سرکار نے اس میں دخل اندازی کرکےاسپیکر سے آپ کو وقت نہیں دینے کو کہا ہوگا؟ اس پر عبداللہ نے کہا کہ انہیں اس کے بارے میں نہیں پتہ لیکن و ہ اس پر متفق ہوئے کہ لوک سبھا اسپیکراپنے وعدے پر کھرے نہیں اترے۔

عبداللہ نے دی  وائر کو بتایا کہ کشمیر کے حق کے لیے مفتی اور عبداللہ فیملی اپنے پچھلے اختلافات کو بھلاکر ایک ساتھ آ گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ آج کی تاریخ میں محبوبہ مفتی سیاسی طور پر ان کے بیٹے عمر اور ان کے نزدیک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ بھی ان کے رابطہ  میں تھے اور ہر ہفتے ان سے بات کرتے تھے۔

انٹرویو کے دوران عبداللہ نے سوال اٹھایا کہ محبوبہ مفتی کو کیوں رہا نہیں کیا گیا؟ کیا وہ مجرم  ہیں؟یہ پوچھنے پر کہ کیا لمبے وقت سے نظربند رہنے سے اس کا ان پر (محبوبہ)اثر ہونا شروع ہوا ہوگا؟اس پر وہ کہتے ہیں، ‘کیسے نہیں ہو سکتا؟ آخر وہ بھی ایک انسان ہیں۔’

عبداللہ نے نیشنل کانفرنس پارٹی کے اگلا چناؤ لڑنے کے سوال پر کہا کہ اس پر فیصلہ لیا جائےگا۔ پہلے یہ جمہوری طور پر پارٹی کے اندر لیا جائےگا اور پارٹی کا صدر ہونے کے ناطے وہ اپنی ذاتی  سوچ کو نہیں تھوپیں گے۔ اس پر فیصلہ تمام  فریقوں کے ساتھ مل کر لیا جائےگا۔

عبداللہ نے بتایا کہ ان کے بیٹے عمر عبداللہ کے حال ہی میں ایک اخبار میں لکھے اپنے مضمون میں یہ کہنا کہ جب تک جموں وکشمیر یوینن ٹریٹری رہےگا، وہ اسمبلی کا انتخاب نہیں لڑیں گے، عمر کا نجی فیصلہ ہے، نہ کہ پارٹی کاا سٹینڈ۔انہوں نے کہا کہ اگر عمر چناؤ لڑنا نہیں چاہتے تو انہیں ایسا کرنے کا حق ہے لیکن وہ اجتماعی طور پر پارٹی کی جانب سے لیے گئے فیصلےپر عمل  کریں گے۔

(یہ خبر دی  وائر کے لیے کرن تھاپر کے ذریعےلیے گئے فاروق عبداللہ کے انٹرویو کا حصہ ہے۔ اس انٹرویو کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)