خبریں

جموں کشمیر: سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی 14مہینے کی نظربندی کے بعد رہا

سابق وزیر اعلیٰ اور پیپلس ڈیموکریٹک پارٹی کی صدرمحبوبہ مفتی پچھلے سال پانچ اگست کو آرٹیکل 370 کےاکثر اہتماموں کو ختم کرکے جموں وکشمیر سے خصوصی ریاست کا درجہ ہٹائے جانے کے بعد سے ہی نظربند تھیں۔ رہا ہونے کے بعد مفتی نے کہا کہ جو ہم سے چھینا گیا، اسے واپس لینا ہوگا۔

محبوبہ مفتی(فوٹو: رائٹرس)

محبوبہ مفتی(فوٹو: رائٹرس)

نئی دہلی: جموں وکشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ اور پیپلس ڈیموکریٹک پارٹی(پی ڈی پی)کی صدر محبوبہ مفتی کو 14 مہینے بعد رہا کر دیا گیا ہے۔محبوبہ پچھلے سال پانچ اگست کو جموں وکشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے کے بعد سے ہی نظربند تھیں۔

جموں وکشمیر کےترجمان روہت کنسل نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘محبوبہ مفتی کو رہا کیا جا رہا ہے۔’محبوبہ نے منگل کو رہا کیے جانے کے بعد اپنے حامیوں کے لیے ایک مختصرآڈیوپیغام  ٹوئٹ کیا۔

اس پیغام میں انہوں نے کہا، ‘میں آج ایک سال سے بھی زیادہ عرصے کے بعد رہا ہوئی ہوں۔ اس دوران پانچ اگست 2019 کے کالے دن کا کالا فیصلہ ہر پل میرے دل اور روح پر وار کرتا رہا اور مجھے احساس ہے کہ یہی کیفیت جموں وکشمیر کے تمام لوگوں کی رہی ہوگی۔ ہم میں سے کوئی بھی شخص اس دن کی بےعزتی کو قطعی بھول نہیں سکتا۔’

انہوں نے کہا، ‘ہم سب کو اس بات کو یاد رکھنا ہوگا کہ دہلی دربار نے پانچ اگست کو غیرقانونی، غیرجمہوری اور غیرآئینی  طریقے سے جو ہم سے چھین لیا، اسے واپس لینا ہوگا، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں مسئلہ کشمیر جس کی وجہ سے جموں وکشمیر میں ہزاروں لوگوں نے اپنی جانیں قربان  کیں، اس کوحل کرنے کے لیے ہمیں جدوجہد جاری رکھنی ہوگی۔’

مفتی نے آگے کہا، ‘میں مانتی ہوں کہ یہ راہ قطعی آسان نہیں ہوگی، لیکن مجھے یقین ہے کہ ہم سب کا حوصلہ اور جرأت اس راستے کو طے کرنے میں ہماری مدد کرےگا۔ آج جب مجھے رہا کیا گیا ہے، میں چاہتی ہوں کہ جموں وکشمیر کے جتنے بھی لوگ ملک کی جیلوں میں بند پڑے ہیں، انہیں جلد سے جلد رہا کیا جائے۔’

بتا دیں کہ پچھلے سال جموں وکشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹائے جانے سے کچھ گھنٹے پہلے ہی گھاٹی کے تمام رہنماؤں کے ساتھ محبوبہ مفتی کو بھی احتیاطاً حراست میں لیا گیا تھا، لیکن ان کی چھ مہینے کی حراستی مدت ختم  ہونے سے پہلے ہی ان پر پی ایس اے لگا دیا گیا تھا۔

محبوبہ مفتی کی رہائی کی خبر آنے کے بعد ان کی بیٹی التجا مفتی نے اپنی ماں کے ٹوئٹر ہینڈل سے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘محبوبہ مفتی کوغیرقانونی طریقے سے قیدی  بنانے کی مدت آخرکار ختم  ہو رہی ہے۔ ان  مشکل حالات میں حمایت  دینے والے تمام  لوگوں کا شکریہ۔ میں لوگوں کی قرضدار ہوں۔ اب آپ سے وداع لے رہی ہوں اللہ سب کومحفوظ  رکھیں۔’

بتا دیں کہ محبوبہ مفتی کی نظربندی کے دوران التجا ہی ان کا ٹوئٹر ہینڈل چلا رہی تھیں۔

محبوبہ مفتی کی رہائی پر جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ محبوبہ مفتی صاحبہ کو ایک سال سے بھی زیادہ عرصے تک حراست میں رکھے جانے کے بعد رہا کیا گیا۔ ان کو لگاتار حراست میں رکھنا ایک مذاق تھا اورجمہوریت  کے بنیادی اصولوں کے خلاف تھا۔ محبوبہ آپ کا استقبال ہے۔’

گزشتہ31 جولائی کو جموں وکشمیر انتظامیہ  نے پی ایس اے کے تحت محبوبہ کی نظربندی کو تین مہینے اور بڑھا دیا تھا۔

شروعات میں انہیں چشمہ شاہی گیسٹ ہاؤس میں رکھا گیا تھا، لیکن پھر انہیں سرینگر میں ایم اے لنک روڈ پر ایک دوسرے سرکاری گیسٹ ہاؤس میں شفٹ کیا گیا۔ اس کے بعد محبوبہ مفتی کو ان کی رہائش پر نظربند کیا گیا تھا۔

محبوبہ مفتی کی بیٹی التجا مفتی نے سپریم کورٹ میں حبس بے جا یعنی ہیبیس کارپس کی درخواست دائر کرکے پی ایس اےکے تحت اپنی ماں کی غیر قانونی  نظربندی کو چیلنج  دیا تھا، جس پر 29 ستمبر کوشنوائی ہوئی تھی۔ سپریم کورٹ نے تب جموں وکشمیر انتظامیہ  نے التجا کی عرضی  پر جواب مانگتے ہوئے کہا تھا کہ نظربندی ہمیشہ کے لیے نہیں ہو سکتی۔

ان سے پہلے جموں و کشمیر کے دو سابق وزرائے اعلیٰ فاروق اور عمر عبداللہ دونوں کو اس سال مارچ مہینے میں رہا کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ جموں اینڈ کشمیر پیپلس کانفرنس(جےکے پی سی)کے چیئرمین سجاد غنی لون کو ایک سال بعد نظربندی سے رہا کیا گیا تھا۔

کانگریس رہنما سیف الدین سوز کو بھی حال ہی میں رہا کیا گیا۔ سیف الدین سوز کے بارے میں ریاستی  سرکار نے سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ سوزکبھی نظربند نہیں تھے، لیکن اس کے ایک دن بعد ہی سوز کا ایک ویڈیو وائرل ہوا تھا، جس میں وہ سرینگر واقع اپنے گھر کی دیوار سے باہر جھانکتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ وہ آزاد نہیں ہیں۔