چونکہ 120رکنی ایوان میں کسی بھی اتحاد کو اکثر یت حاصل نہیں ہوئی ہے، اس لیے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو یا ان کے مخالف خیمہ کے لیے ان عرب پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔
چند برس قبل جب مجھے فلسطین اور اسرائیل کا دورہ کرنے کا موقعہ ملا تو پرفضا شہر حیفہ میں پیغمبر حضرت الیاس علیہ السلام سے موسوم جبل الیاس کے دامن میں ایک خوبصورت ریستوراں میں عرب اسرائیلی ٹینس کھلاڑی نادینہ فاحوم اور ان کی والدہ وفا زویب فاحوم سے ملاقات ہوئی۔
عرب اسرائیلی کی اصطلاح دراصل ان مسلمانوں اور مسیحیوں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جنہوں نے فلسطینیوں کے برعکس یہودی ریاست کے اقتدار اعلیٰ کو تسلیم کیا ہے اور اسرائیلی شہریت حاصل کرکے اس کی سوسائٹی میں رچ بس گئے ہیں۔
تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کی نو ملین آبادی میں ان کی تعداد 25فیصد کے لگ بھگ ہے، جن میں 85فیصد مسلمان ہیں۔ 1967 اور اس سے قبل 1948میں اسرائیل نے مقبوضہ علاقوں سے ایک بڑی عرب آباد ی کو نقل مکانی پر مجبور کردیاتھا، تاہم 14فیصد آبادی کو اپنے علاقوں میں رہنے دیا گیاتھا، جنہوں نے بعد میں اسرائیلی شہریت اختیار کی۔ ہندوستان میں بھی فی الوقت اسرائیلی سفارت خانے کے ترجمان ایک اسرائیلی عرب محمد حیب ہیں۔افریقی ملک اریٹیریا میں بھی ایک بدو قبیلہ کے عرب اسماعیل خالدی اسرائیل کے سفیر ہیں۔
نادینہ نے کئی قومی اور بین الاقوامی حتیٰ کہ اولمپکس میں بھی اسرائیل کی نمائندگی کی تھی۔ لگتا تھا کہ بس چند سال بعد ہی وہ ہندوستانی ٹینس اسٹار ثانیہ مرزا کی طرح دنیا میں دھوم مچا دے گی۔ اس کی شکل و صورت اور کھیلنے کا اسٹائل بھی ثانیہ مرزا کے ساتھ خاصا مماثلت رکھتا تھا۔
مگر جب ایک بار اسرائیل کی نمائندگی کرنے کے لیے دیگر کھلاڑیوں کے ہمراہ و ہ اٹلی جا رہی تھی، تو اس پورے گروپ میں واحد مسلمان ہونے کے ناطے اس کو تل ابیب ایئر پورٹ پر الگ نکا ل کر سخت سیکورٹی جانچ کرکے کئی گھنٹوں تک ایئرپورٹ پر روکا گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ اسرائیلی ایئر پورٹوں پر سیکورٹی جانچ کرنا اور بے عزت محسوس کروانے میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ اس واقعہ کے بعد ان کی والدہ، جو اسرائیل کی نامور وکیل بھی ہیں، نے ان کے کھیل کے سفر پر لگام لگا کر ان کو امریکہ اعلیٰ تعلیم کےلیے روانہ کردیا۔
چونکہ 1993کے اوسلو اکارڈ اور اب حال میں عرب-اسرائیل معاہدوں کے بعد ایک بار پھر دو اسٹیٹ فارمولہ یعنی فلسطین اور اسرائیل کو دو علیحدہ مملکتیں تسلیم کرنے پر زور دیا جا رہا ہے، وفا اور نادینہ نے گفتگو کے دوران کہا کہ چونکہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل ہی ایک واحد جمہوری ملک ہے، عربو ں کو اس کا فائدہ اٹھا کراسرائیلی پارلایمنٹ یعنی نیسٹ تک رسائی حاصل کرکے حقوق حاصل کرنے چاہیے نہ کہ اپنے لیے الگ مملکت کے قیام پر زور دینا چاہیے اور یہودی آبادی کے ساتھ میل جول بڑھانا چاہیے۔
مگر پورے اسرائیل میں عرب اور یہودی آبادی نہ صرف الگ الگ علاقوں میں رہتے ہیں، بلکہ ان کے اسکول بھی مختلف ہیں۔ یونیورسٹی تک شاید ہی ان کا آپس میں کوئی رابطہ ہوتا ہے۔
اس واقعہ کو یاد کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اسرائیل میں جہاں حال ہی میں اختتام پذیر انتخابات میں ایک معلق پارلیامنٹ وجود میں آئی ہے، وہیں عرب اسلام پسند جماعت یعنی القائم العربیہ الموحدہ (رعام) یا یونائیٹڈ عرب لسٹ کو چار سیٹیں حاصل ہوئی ہیں۔ دیگر عرب پارٹیاں یعنی جوائنٹ لسٹ بھی چھ نشتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی ہیں۔
گو کہ عرب آبادی میں ان انتخابات کے تئیں اس بار کچھ زیادہ جوش و خروش نہیں تھا، کیونکہ پچھلے دو سالوں میں یہ چوتھا الیکشن تھا، پھر بھی عرب پارٹیوں کے خاطے میں کل 10نشستیں آئی ہیں۔ چونکہ 120رکنی ایوان میں کسی بھی اتحاد کو اکثر یت حاصل نہیں ہوئی ہے، اس لیے وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو یا ان کے مخالف خیمہ کے لیے ان عرب پارٹیوں کی حمایت حاصل کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ ان پارٹیوں کا رول ایک طرح سے کنگ میکر جیسا ہو گیا ہے، تو غلط نہ ہوگا۔
نیتن یاہو کی قیادت والی حکومتی اتحاد کو 52 نشستوں پر کامیابی ملی ہے جب کہ ان کی حریف اتحاد نے 56 سیٹیں حاصل کی ہیں۔ رعام پارٹی کے قائد منصور عباس نے ماضی میں دیگر عرب جماعتوں کے موقف کے برعکس اسرائیلی حکومت میں شمولیت کو خارج ازامکان قرار نہیں دیاہے اور واضح طور پر اشارہ دیا ہے کہ تمام متبادل کھلے ہوئے ہیں۔
انہوں نے اسرائیلی ریڈیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”ہم وزیر اعظم نیتن یاہو کا کیمپ یا ان کے حریف سے ملنے کے لیے تیار ہیں لیکن میں کسی کی جیب میں نہیں ہوں۔” مگر ان کا کہنا ہے کہ ”ہمیں بہت احتیاط سے کام لینا ہوگا لیکن ساتھ ہی ہمیں انتظار بھی کرنا ہوگا۔ یہ ایک بڑی ذمہ داری ہے۔”
حکومت سازی کے لیے کم از کم 61 نشستوں کی اکثریت حاصل کرنے کے لیے منصور عباس کے ساتھ ساتھ یہودی مذہبی قوم پرست رہنما نیفتالی بینیٹ کی حمایت بھی درکار ہوگی، جن کے پاس سات نشستیں ہیں۔ نیتن یاہو کے سامنے اب دو ہی راستے ہیں یاتو ایک اور الیکشن میں قسمت آزمائی کریں یا پھر ایک اسلام پسند جماعت کے ساتھ معاہدہ کریں۔
اسرائیل کے سابق رکن پارلیامان اور تھنک ٹینک اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ کے سربراہ یوہانن پلیزنر کا کہنا ہے نیتن یاہو خود اپنے ہی تیار کردہ سیاسی جال میں پھنس گئے ہیں کیونکہ ماضی میں وہ فلسطینیوں کے ساتھ کسی بھی طرح کی مصالحت کو مسترد کرکے اقتدار تک پہنچے تھے اور وہ ملک میں عرب اقلیتوں کے خلاف نسلی بیان بازی اور انہیں دہشت گردوں کا حامی بھی قرار دیتے رہے ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران نیتن یاہو اور ان کے حواریوں نے رعام اور اس کے لیڈر عباس کو یہودی مخالف اور دہشت گرد تک کہا تھا۔ پلیزنر کا کہنا ہے کہ 1992میں جب اسحاق رابین کی اقلیتی حکومت نے ایک عرب سیاسی جماعت کی حمایت حاصل کی تھی تو نیتن یاہو نے انہیں صیہونیت اور اسرائیل کے وجود سے غداری کے مترادف قرار دیا تھا۔
گزشتہ تین انتخابات میں نیتن یاہو یا ان کے مخالفین واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس بار سخت گیر یہودی لابی کو لبھانے کے لیے نیتن یاہو نے کئی وعدے کئے تھے۔ اب اگر ان کو عرب پارٹیوں کے ساتھ ہاتھ ملانا پڑتا ہے، تو وہ ان کو روبہ عمل نہیں لا سکیں گے، جس کی وجہ سے ان کا کور ووٹ بینک ان سے ناراض ہوسکتا ہے۔
ان کے قریبی اتحادی شاس، یونائیٹیڈ تورا جوڈیزم اور مذہبی صیہونی شاید ہی عرب پارٹیوں کے وجود کو برداشت کر پائیں گے۔ نیتن یاہو کے خلاف کورپشن کے کئی الزامات زیر تفتیش ہیں اور اقتدار سے علیحدگی کا مطلب ہے کہ وہ آئینی استنثا سے محروم ہو جائیں گے اور شاید ان کو جیل بھی جانا پڑے۔ اسی لیے اقتدار میں برقرار رہنا ان کے لیے زندگی اور موت کا سوال بنا ہوا ہے۔
ادھر عباس نے بھی اسرائیلی پارٹیوں کے سامنے حمایت لینے کے لیے شرائط رکھی ہیں، جن میں متنازعہ جیوش نیشنل اسٹیٹ اور کامنٹز قوانین کی منسوخی شامل ہے، جن کی رو سے اسرائیلی حکومت عربوں کی جائیدادوں کو نشانہ بناتی ہیں۔ اس کے علاوہ ان کا مطالبہ ہے کہ جنوبی اسرائیل میں نیگیویا صحرائے النقاب میں عرب بدو ں کی بستیوں کو ریگولر کرکے تسلیم کیا جائے اور عرب علاقوں میں جرائم کی روک تھام کے اقدامات کئے جائیں۔
دوسری طرف دائیں بازو کی یامنی پارٹی کے لیڈر نفتالی بینٹ نے سبھی یہودی پارٹیوں کو متحد ہوکر حکومت سازی کی اپیل کی ہے۔ ان کے مطابق ملک اب مزید سیاسی عدم استحکام اور پانچواں الیکشن برداشت نہیں کر سکتا ہے۔
گزشتہ23مارچ کو منعقد ہوئے ان انتخابات میں 13سیاسی جماعتوں نے شرکت کی، جن میں نیتن یاہو کی لکوڈ پارٹی کو سب سے زیادہ 30نشستیں ملی ہیں۔ ان کی حریف یش اتد کو 17سیٹیں حاصل ہوئی ہیں۔ نیتن یاہو کے حلیفوں میں ہاردی یہودیوں کی پارٹی شاس کونو سیٹیں، مذہبی قدامت پسند یونائیٹد تورا پارٹی کو سات اور مذہبی صیہونی پارٹی کو چھ نشستیں ملی ہیں۔
یش اتد کی قیادت والے اتحاد میں شامل لبر ل بلیو اینڈ وہائٹ کو آٹھ، دائیں بازوکی یامنا پارٹی کو سات اور لیبر پارٹی کو بھی سات نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ چاہے نیتن یاہو حکومت بنانے میں کامیاب ہو ں یا نہ ہو، اسرائیل کی ایک خاص بات ہے کہ سیاسی عدم استحکام یہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی یا حکومت کے دیگر پرزوں، جس میں دفاع یا معیشت شامل ہے کو متاثر نہیں کرتا ہے۔
سیاسی اتھل پتھل سے تل ابیب کا اسٹاک مارکیٹ متاثر ہوتا ہے نہ اس کی کرنسی۔ عرب پارٹیوں کے حکومت میں شامل ہونے سے شاید مقامی عرب آبادی کو راحت ملے، مگر فلسطینیوں اور دیگر ممالک کے تئیں شاید ہی اسرائیل کی پالیسی میں کوئی تبدیلی دیکھنے کو ملے گی۔
Categories: عالمی خبریں, فکر و نظر