مودی حکومت کی جانب سےکورونا وائرس کو لےکر بنائے گئے سائنسی مشاورتی گروپ کے چیئرمین شاہد جمیل نے پچھلے کچھ مہینوں میں کئی بار اس بات کو لےکر ناراضگی ظاہر کی تھی کہ کورونا انفیکشن کو لےکرپالیسیاں بناتے ہوئےسائنس کو ترجیح نہیں دیا جا رہا ہے، جوباعث تشویش ہے۔
نئی دہلی: ملک کے معروف وائرولوجسٹ شاہد جمیل نے مودی حکومت کی جانب سےکورونا پر بنائے گئے ایک سائنسی مشاورتی گروپ کے چیئرمین کےعہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔یہ گروپ پچھلے سال اس لیے بنایا گیا تھا، تاکہ یہ پتہ لگایا جا سکے کہ کووڈ 19 وائرس کی کون سی قسم ہندوستان میں کتنی تیزی سے اور کس حد تک پھیل رہی ہے۔
جمیل اس وقت میں ہریانہ کے سونی پت واقع اشوکا یونیورسٹی میں ترویدی اسکول آف بایوسائنسز کے ڈائریکٹرہیں۔ انہوں نے ‘انڈین سارس-سی-او-وی 2 جینوم سکوینسنگ کانسورسیا’(آئی این ایس اے سی اوجی)نام سے بنائے گئے اس گروپ کو پچھلے سال جوائن کیا تھا۔
اپنے استعفیٰ سے چار دن پہلے جمیل نے نیویارک ٹائمز میں ایک مضمون لکھ کر کہا تھا کہ ملک کو تباہ کن دوسری کورونا لہر سے بچانے کے لیےہندوستان کو ٹیسٹنگ بڑھانی ہوگی اور متاثرین کو آئسولیٹ کرنا شروع کرنا ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ان باتوں کی ہندوستان میں ساتھی سائنسداں حمایت کرتے ہیں، لیکن انہیں شواہد پر مبنی پالیسی کی تشکیل کے لیے شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
سائنسداں نے کہا، ’30 اپریل کو 800 سے زیادہ ہندوستانی سائنسدانوں نے وزیر اعظم سے اپیل کر ان ڈیٹا کو عوامی کرنے کی مانگ کی تھی، جس کی بنیاد پر مطالعہ کرکے وائرس کو اور پھیلنے سے روکا جا سکے۔ ہندوستان میں مہاماری کنٹرول سے باہر ہو گئی ہے۔ ہم جس انسانی قیمت کو جھیل رہے ہیں، وہ ایک مستقل نشان چھوڑ جائےگی۔’
اس مہینے کے شروعات میں بھی جمیل نے کچھ ایسا ہی کہا تھا، ‘پالیسی کوشواہد پر مبنی ہونا چاہیے۔ میں اس بات کو لےکرفکرمند ہوں کہ پالیسیاں بناتے ہوئے سائنس کو نوٹس میں نہیں لیا جا رہا ہے۔ لیکن مجھے پتہ ہے کہ میرادائرہ اختیار کہاں پرختم ہوتا ہے۔ ایک سائنسداں کے طورپر ہم شواہد دیتے ہیں،پالیسی بنانے کا کام سرکار کا ہے۔’
جب این ڈی ٹی وی نے ان سے پوچھا کہ انہوں نے کیوں استعفیٰ دیا، جمیل نے کہا، ‘میرا فیصلہ صحیح ہے اور میرے پاس اس بارے میں بتانے کے لیے کچھ اور نہیں ہے۔’شاہد جمیل نے رائٹرس اور دی ہندو کو بھی اپنے استعفیٰ کی وجہ نہیں بتائی۔
معلوم ہو کہ آئی این ایس اےسی اوجی اور سرکار کے رشتوں کے بیچ کافی تلخی آ گئی تھی۔ رائٹرس نے ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ اس گروپ نے کورونا کی دوسری لہر کے بارے میں سرکار کو ہوشیارکیا تھا، لیکن مودی سرکار نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔
سائنسدانوں کے گروپ آئی این ایس اےسی اوجی نے کہا تھا کہ دوسری لہر کے مد نظر سرکار کو زیادہ پابندی لگانی ہوں گی۔ لیکن اس بیچ مودی سرکار نے لاکھوں کی بھیڑ کے ساتھ ریلیاں کرنا، کمبھ میلے کی اجازت دینا، پنچایت چناؤ جیسے کئی بھیڑ بھاڑ والے پروگراموں کو اجازت دینا زیادہ ضروری سمجھا۔ نتیجتاًملک کو دنیا میں سب سے خطرناک کورونا کی دوسری لہر کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اس سے پہلے راکیش مشرا، جو کچھ وقت پہلے تک آئی این ایس اےسی اوجی کے ایک لیب‘سینٹر فار سیلولر اینڈ مالکیولر بیالوجی’کے سربراہ تھے، نے دی وائر کو بتایا تھا کہ ‘ہم بہت فکرمند تھے کہ کچھ بھیانک ہو سکتا ہے۔’
Categories: خبریں