معاملہ علی گڑھ کا ہے، جہاں ایک ہندوفیملی نے جلیسر کے پیر بابا میں اپنی عقیدت کی وجہ سے اپنے گھر میں دو چھوٹی مزار بنائی ہوئی تھیں۔ بجرنگ دل کے کارکنوں کے ذریعے‘ہندوؤں کےتبدیلی مذہب کی سازش کرنے’کا الزام لگانے کے بعد انہیں ہٹا دیا گیا۔
نئی دہلی: اتر پردیش کےعلی گڑھ میں ایک ہندو فیملی کو بجرنگ دل کے کارکنوں کی مخالفت کے بعد اپنے گھروں سے دو مزاروں کو ہٹانا پڑا۔ٹائمس آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق، بجرنگ دل کے کارکنوں نے ‘ہندوؤں کے تبدیلی مذہب کی سازش’کرنے کاالزام لگاکر سوشل میڈیاپرمہم شروع کی تھی۔
جئےپال سنگھ اور سات لوگوں کے ان کی فیملی کے ذریعے ان کے گھر میں سیمنٹ سے بنی دو چھوٹی چھوٹی مزاریں بنائی گئی تھیں، جو جلیسر(ایٹہ) کے پیر بابا کو وقف تھیں۔
یومیہ مزدور کے طور پر کام کرنے والے جئےپال نے اس اخبار کو بتایا، ‘پیر بابا میں ہمارا گہرا یقین ہے اسی لیے ہم نے سال بھر پہلے ان مزاروں کو بنایا تھا۔ ہم نے کچھ غلط نہیں کیا۔ ہم نے کسی کی زمین پر قبضہ نہیں کیا لیکن کل پولیس نے ہمیں انہیں ہٹانے کو کہا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے فرقہ وارانہ کشیدگی ہو سکتی ہے۔ میں چھوٹا موٹا آدمی ہوں، کسی سے لڑائی نہیں کر سکتا۔’
بدھ کو بجرنگ دل کے کنوینر گورو شرما نے ٹوئٹ کر انتظامیہ سے مزاریں ہٹانے کو کہا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ ہندو ؤں کے تبدیلی مذہب کی سازش کا حصہ ہے۔شرما نے اپنے ٹوئٹ میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ،پی ایم او، علی گڑھ پولیس اور ایم پی سادھوی پر گیہ کو ٹیگ کیا تھا۔
شرما نے کہا کہ فیملی مزاروں کا استعمال غیرتعلیم یافتہ لوگوں کو ہندو سے اسلام میں تبدیلی مذہب کرنے کے لیے کر رہی ہے۔ ہندو گھر میں مزار کا کیا مطلب۔
پولیس نے قبول کیا ہے کہ انہیں اس معاملے پر بجرنگ دل سے شکایت ملی ہے اور انہوں نے بدھ کو سنگھ کے گھر کا دورہ کیا تھا۔ جلیسر کے چوکی انچارج انج کمار نے کہا، ‘ہم نے صرف سنگھ کو صلاح دی، مزار ہٹانے کا فیصلہ ان کا تھا۔’
Categories: خبریں