معاملہ ناسک کا ہے، جہاں ایک ہندو خاتون کی مسلمان مرد سے شادی کا کارڈ وہاٹس ایپ پر لیک ہونے کے بعد کچھ لوگوں نے اسے ‘لو جہاد’ بتاتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔ گھر والوں کی رضامندی سے شادی کی تقریب 18 جولائی کو ہونی تھی، لیکن اب اسے رد کر دیا گیا ہے۔
نئی دہلی: مہاراشٹر کے ناسک میں ہندو خاتون اورمسلم نوجوان کی شادی کا جشن منانے کے لیے ایک گھریلو تقریب کو رد کرنا پڑا کیونکہ اس شادی کا کارڈ لیک ہو گیا تھا۔انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، اس شادی کا کارڈ وہاٹس ایپ پر لیک ہونے کے بعد کچھ لوگوں نے اسے لو جہاد کا معاملہ بتاتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔ یہ تقریب 18 جولائی کو ہونی تھی لیکن اب اسے رد کر دیا گیا ہے۔
رشتہ ازداوج سے منسلک ہونے والایہ جوڑاگھروالوں کی موجودگی میں مئی مہینے میں ناسک عدالت کےسامنے اپنی شادی کا رجسٹریشن بھی کرا چکا ہے۔بتا دیں کہ 18 جولائی کو ہونے والی اس تقریب میں کچھ ہندو رسم و رواج پر عمل ہونا تھا۔
دلہن کےوالدمقامی طور پر جانےمانے جوہری ہیں اور ان کی فیملی نے جسمانی طور پر معذور اپنی بیٹی کے لیے ایک مناسب رشتہ تلاش کرنے کے لیے جدوجہد کی تھی لیکن جب ان کی بیٹی اور اس کے ساتھ پڑھ چکے ایک دوست نے ایک دوسرے سے شادی کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تو دونوں کے گھر والے راضی ہو گئے۔ دونوں فیملی ایک دوسرے کو گزشتہ کچھ سالوں سے جانتے ہیں۔
ایک مقامی عدالت میں اس شادی کا رجسٹریشن ہونے کے بعد دونوں فریق نے 18 جولائی کو ایک تقریب منعقد کرنے کی خواہش کا اظہار کیا تھا، جس میں دونوں طرف کے قریبی لوگ ہی شرکت کرنے والے تھے۔اس تقریب کا دعوت نامہ پرنٹ کرایا گیا لیکن یہ دعوات نامہ وہاٹس ایپ پر لیک ہو گیا جس کے بعد لڑکی کے باپ کو کئی اجنبی لوگوں کےکال اور پیغامات موصول ہوئے، جن میں اس تقریب کو رد کرنے کی مانگ کی گئی۔
دلہن کے والدنے کہا کہ نو جولائی کو ان کی کمیونٹی کے ممبروں نے ان سے ملاقات کی تھی اور اس تقریب کو نہیں کرانے کی صلاح دی تھی۔دلہن کی طرف کے ایک ممبر نے بتایا،‘کمیونٹی اور دیگر لوگوں کی طرف سے بہت دباؤ پڑنا شروع ہو گیا، اس لیے ہم نے اس شادی کی تقریب کو رد کرنے کا فیصلہ کیا۔’
اس کے بعد دلہن کے والد اور ان کے گھر والوں نے مقامی کمیونٹی کو ایک خط بھیج کر بتایا کہ تقریب کو رد کر دیا گیا ہے۔ناسک کے لاڈ سورنکار سنستھا کے صدر سنیل مہلکر نے کہا، ‘ہمیں فیملی سے ایک خط ملا اور انہوں نے ہمیں بتایا کہ شادی کو رد کر دیا گیا ہے۔’
بتا دیں کہ اسی ادارےکو خط لکھا گیا تھا۔ حالانکہ اس سلسلےمیں گھروالوں نے پولیس کی طرف رخ کرنا پسند نہیں کیا۔ انہوں نے زور دےکر کہا ہے کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، نوجوان جوڑے کو الگ ہونے کے لیے مجبور نہیں کیا جائےگا۔
بتا دیں کہ ‘لو جہاد’ ہندوتوادی تنظیموں کے ذریعےاستعمال میں لائی جانے والی ایک اصطلاح ہے، جس میں مبینہ طور پر ہندو خواتین کو زبردستی یا بہلا پھسلاکر ان کا مذہب تبدیل کرواکر مسلمان سے اس کی شادی کرائی جاتی ہے۔
Categories: خبریں