امریکہ کی ایک میگزین واشنگٹن اگزامنر کےمطابق، طالبان نے رائٹرس کے جرنلسٹ دانش صدیقی کی پہچان کی تصدیق کرنے کے بعدانہیں اور ان کےساتھ کے لوگوں کو مارا تھا۔ پیولٹزرانعام یافتہ دانش قندھار شہر کےاسپن بولڈک میں افغان فوجیوں اور طالبان کے بیچ جھڑپ کو کور کرنے گئے ہوئے تھے۔
نئی دہلی: پیولٹزرانعام یافتہ ہندوستانی فوٹو جرنلسٹ دانش صدیقی نہ تو افغانستان میں گولی باری میں پھنس کر مارے گئے، نہ ہی وہ ان واقعات کے دوران ہلاک ہوئے بلکہ طالبان نے ان کی پہچان کرنے کے بعد ‘بے رحمی سے قتل ’ کیاتھا۔ امریکہ کی ایک میگزین نے جمعرات کوشائع ایک رپورٹ میں یہ دعویٰ کیا ہے۔
صدیقی(38)افغانستان میں ایک اسائنمنٹ پر تھے جب وہ مارے گئے۔ پیولٹزرانعام یافتہ جرنلسٹ کی قندھار شہر کےاسپن بولڈک ضلع میں افغان فوجیوں اور طالبان کے بیچ جھڑپ کو کور کرنے کے دوران موت ہوئی تھی۔
‘واشنگٹن اگزامنر’ کی رپورٹ کے مطابق، صدیقی نے افغان نیشنل آرمی ٹیم کے ساتھ اسپن بولڈک خطے کا دورہ کیا تاکہ پاکستان کے ساتھ لگے بارڈر کراسنگ پرکنٹرول کے لیے افغان فورسز اور طالبان کے بیچ چل رہی جنگ کو کور کیا جا سکے۔
میگزین کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس حملے کے دوران،صدیقی کو چھرے لگے اور اس لیے وہ اور ان کی ٹیم ایک مقامی مسجد میں گئی ، جہاں انہیں فرسٹ ایڈ ملا۔حالانکہ جیسے ہی یہ خبر پھیلی کہ ایک جرنلسٹ مسجد میں ہے، طالبان نے حملہ کر دیا۔مقامی جانچ سے پتہ چلا ہے کہ طالبان نے صدیقی کی موجودگی کی وجہ سےہی مسجد پر حملہ کیا تھا۔
رپورٹ میں کہا گیا،‘صدیقی اس وقت زندہ تھے جب طالبان نے انہیں پکڑا۔ طالبان نے صدیقی کی پہچان کی تصدیق کی اور پھر انہیں اور ان کے ساتھ کے لوگوں کو بھی مار ڈالا۔ کمانڈر اور ان کی ٹیم کے باقی ممبروں کی موت ہو گئی کیونکہ انہوں نے دانش کو بچانے کی کوشش کی تھی۔’
امریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ میں سینئر فیلو مائکل روبین نے لکھا ہے، ‘بڑے پیمانے پر نشر ایک تصویر میں صدیقی کے چہرے کو پہچاننے کے قابل دکھایا گیا ہے، حالانکہ میں نے حکومت ہند کے ایک ذرائع کی جانب سے مجھے فراہم کی گئی دیگر تصویروں اور صدیقی کی لاش کے ویڈیو کا تجزیہ کیا، جس میں دکھا کہ طالبان نے صدیقی کے سر پر حملہ کیا اور پھر انہیں گولیوں سے چھلنی کر دیا۔’
رپورٹ میں کہا گیا،‘طالبان کا حملہ کرنے، صدیقی کو مارنے اور پھر ان کی لاش کو مسخ کرنے کا فیصلہ دکھاتا ہے کہ وہ جنگ کے اصولوں یاعالمی معاہدوں کااحترام نہیں کرتے ہیں۔’
صدیقی کی لاش18 جولائی کی شام دہلی لایا گیا اور جامعہ ملیا اسلامیہ کے قبرستان میں انہیں سپردخاک کیا گیا۔
صدیقی ممبئی کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے دہلی کے جامعہ ملیہ اسلامیہ سے اقتصادیات میں گریجویشن کیا تھا اور 2007 میں جامعہ کے اےجےکے ماس کمیونی کیشن ریسرچ سینٹر سے ماس کمیونی کیشن کا مطالعہ کیا تھا۔ وہ 2010 میں رائٹرس سے جڑے تھے۔
صدیقی نے اپنی ٹیم کے دوسرے لوگوں کے ساتھ روہنگیاپناہ گزینوں کے بحران پر اپنے کام کے لیے 2018 میں پیولٹرزایوارڈ جیتا تھا۔ صدیقی نے تب اسکرال ڈاٹ ان سے بات چیت میں کہا تھا، ایک تصویر کو لوگوں کو متوجہ کرنا چاہیے اور انہیں بنا زور کے پوری کہانی بتانا چاہیے۔ آپ خاتون کی بے بسی اور تھکاوٹ کو دیکھ سکتے ہیں، جو بادلوں کے ساتھ پس منظر میں ہو رہے واقعات کے ساتھ جوڑی گئی ہیں۔ یہی وہ فریم تھا، جسے میں دنیا کو دکھانا چاہتا تھا۔
رائٹرس سے پہلے صدیقی کے کام کو دی گارڈین، نیویارک ٹائمس، واشنگٹن پوسٹ، الجزیرہ ا اورمتعدد ہندوستانی اور بین الاقوامی اشاعتوں میں شائع کیا گیا تھا۔
سال2010کے بعد سےرائٹرس فوٹو جرنلسٹ کےطورپرصدیقی نےافغانستان اوعراق میں جنگ،روہنگیاپناہ گزینوں کےبحران ، ہانگ کانگ میں جمہوریت کے حامی مظاہروں اور نیپال کے زلزلےکو کور کیا تھا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں