دہلی پولیس کے ذریعےشوہر کی گرفتاری کے بعد ایک عورت کی زندگی کا حال۔
نئی دہلی:صبح تھوڑی عجلت ہوتی ہے۔ تین تین بچوں کو بیدار کرنا، انہیں آن لائن کلاس کے لیے بٹھانا، ہر ایک کے بیٹھنے کی جگہ طے کرنا اور یہ یقینی بنانا کہ وہ ویڈیو گیم کھیلنا شروع نہ کردیں،پڑھتے وقت جھپکی نہ لینے لگیں،آپس میں جھگڑا نہ کریں۔یہ سب کچھ زیادہ ہو جاتا ہے، جب آپ پچھلے 17مہینوں سے اکیلے گھر اوربچےسنبھال رہے ہوں۔
§
یہ ان کی شادی کا چودہواں سال ہے۔ جب 2007 میں شادی کی پیش کش آئی تو وہ دونوں کم از کم ایک بار شخصی طور پر ملنا چاہتے تھے ۔ زیادہ تر روایتی شادیوں میں الگ سے اکیلے مل پانا شاذ ہی ہوتا ہے۔
انہیں سینٹرل دہلی کے کناٹ پلیس میں حال ہی میں کھلے پجا ہٹ آؤٹ لیٹ میں ملنا تھا۔ وہ 20 برس کی تھیں،دہلی یونیورسٹی کے انڈرگریجویٹ کے پہلےسال کی اسٹوڈنٹ تھی۔ وہ 25 سال کے تھے اور سمبایوسس انسٹی ٹیوٹ، پونے سے پوسٹ گریجویشن کر چکے تھے۔ وہ میٹرو سے پہنچی تھی اور وہ گاڑی سے آئے تھے۔
وہ کہتی ہیں،‘میں نے جن دوسرے مردوں کو دیکھا تھا، ان کے برعکس وہ نہ تو لاپرواہ تھا اور نہ ہی بہت سنجیدہ ۔ سمجھدار، باشعوراور حس مزاح بھی۔ اس نے ہمارے دونوں پجا سے مرچ اکٹھی کی اور مجھ سے کھانے کو کہا۔ سوچیے ذرا!’
یہاں تک کہ انہوں نے کھانے کا بل بھی انہی سے دلوایا۔ انہوں نے اب تک زیادہ تر مردوں کو ہی ہر چیز کا بل بھرتے دیکھا تھا۔ ایسا آدمی جس سے آپ شادی کرنے والے ہوں ، آپ سے بل دلائے،یہ غیرمتوقع تھا۔ وہ یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں،‘لیکن مجھے یہ پسند آیا۔ میں نے خود کو برابر محسوس کیا، جیسے میرے ہاتھ میں بھی کنٹرول ہے۔’
کچھ ہی مہینوں میں انہوں نے شادی کر لی۔ یہ ایک روایتی لیکن خوشحال زندگی تھی۔ اگلے کچھ سال تین بچوں کی دیکھ بھال کرنے میں بیت گئے، سب سے چھوٹا بچہ بہت بعد میں آیا کیونکہ وہ دونوں ایک بیٹی کی چاہت رکھتے تھے۔
انہوں نے شروع میں اپنےوالد کے فرنیچربزنس میں کام کیا۔ وہ کہتی ہیں،‘لیکن وہ اپنے کام میں بہت متحرک نہیں تھے۔ بعد میں انہوں نے ایک ٹریول کمپنی شروع کی، جو تیرتھ یاترائیں(زیارت)کرواتی تھی۔ لیکن کام کے علاوہ وہ ہمیشہ دوسرے کاموں میں لگے رہتے تھے۔ اگر نالیاں بند ہو جاتیں، سیور لائن اوورفلو ہو جاتی، تو وہ انہیں صاف کروانے کے لیے دوڑنا شروع کر دیتے۔’
وہ کہتی ہیں،‘میں پریشان ہو جاتی تھی۔ ہم تیسری منزل پر رہتے ہیں۔ یہ ہمیں متاثر بھی نہیں کر رہا ہے۔تمہیں ایسا کرنے کی ضرورت کیوں ہے؟’
وہ2011-2012 میں انڈیا اگینسٹ کرپشن تحریک کے بدعنوانی مخالف مظاہروں میں شامل ہو گئے۔ 2012 میں جب عام آدمی پارٹی کاقیام ہوا، تو انہیں اس نئی پارٹی کے امکانات پر پورا بھروسہ تھا۔ وہ یاد کرتی ہیں،‘ہر انتخاب میں، کوئی مصروف نیتاجی آکر ہمیں ہاتھی، پتنگ، چمچ، وغیرہ کے لیے ووٹ کرنے کے لیے کہتے تھے۔لیکن ان کے پاس نالہ صاف کرنے کاوقت نہیں تھا۔’
بےروزگاری،ناکام بنیادی ڈھانچے اور بےکارانتخانی مہم سے تنگ آکر انہوں نے کچھ سالوں تک پارٹی کے لیے کام کیا۔ گھر میں ان کا سمجھوتہ ہوا تھا۔ اس سے یہ نہیں پوچھا جائےگا کہ وہ پورے ہفتے کیا کرتے ہیں۔ وہ دیر رات، کبھی1 بجے 2 بجے تک آتے تھے۔ وہ کئی دنوں تک ایک ساتھ کھانا بھی نہیں کھاتے تھے۔لیکن ہفتے میں ایک دن بچا ہوا تھا اور صرف ان کے نام تھا۔ بچے ابھی بھی اسےہیش ٹیگ فرائیڈے مستی کہتے ہیں اور ان کا سوشل میڈیا ان یادوں سے بھرا ہوا ہے مال، واٹرپارک، پبلک پارک یا صرف ڈرائیو۔
§
بائیس جون، 2017 کو 15سالہ جنید خان متھرا جانے والی ٹرین میں فریدآباد واپس گھر جا رہا تھا۔ عید بس کچھ ہی دن دور تھی۔ اس نے نئے کپڑے، جوتے وغیرہ خریدے تھے۔ سیٹوں کو لےکر ہوئے تنازعہ کے بعد نوجوانوں کے ایک گروپ نے اس کو چاقو مارکر ہلاک کر دیا۔ انہوں نے مبینہ طور پر لڑکوں کا مذاق اڑایا، ان کی داڑھی کھینچی اور ان پر گائے کا گوشت کھانے کا الزام لگایا۔ انہوں نے انہیں فریدآباد کے ایک اسٹیشن پر ٹرین سے باہر پھینک دیا، جہاں اس کی موت ہو گئی۔
اب تک ہندوستان میں گئورکشا کی آڑ میں مسلمانوں کو نشانہ بناکر کیے جانے والے ہیٹ کرائم اور لنچنگ کے دو خونی سال ہو چکے تھے۔ شدت پسندوں کو سرکار کی حمایت سے پرجوش کیا گیا تھا اور انہیں پوری طرح سے سزاسے چھوٹ ملی ہوئی تھی۔ لیکن جنید کی لنچنگ نے سب کے برے سپنوں کو زندہ کر دیا آپ کو صرف اس لیے مارا جا سکتا ہے کہ آپ ایک خاص کمیونٹی سے ہیں ۔
اس کے بعد 28 جون، 2017 کو اکثریتی طبقے کے مفادات کے تحفظ کے نام پر نشانہ بناکر کیے جا رہے قتل کے معاملوں کی مذمت کرنے کے لیے پورے ملک میں‘ناٹ ان مائی نیم‘ نام کےایک احتجاجی مظاہرہ کا نعقادکیا گیا تھا۔
وہ بھی پریشان تھے اور دہلی میں ناٹ ان مائی نیم والے مظاہرہ کے لیے جنتر منتر پر پہنچ گئے۔
یہ پہلا موقع ہے جب انہیں پولیس نے حراست میں لیا تھا۔ وہ کہتی ہیں،‘میں انہیں گرفتار کیے جانے کے بات سے ہی گھبرا گئی تھی۔’ تب انہیں پہلی بار حراست اور گرفتاری کے بیچ فرق کا پتہ چلا۔
اس دن ان کے ساتھ کچھ اور لوگوں کو بھی حراست میں لیا گیا تھا۔ کچھ دنوں بعد ان سب لوگوں نے مل کر یونائٹیڈ اگینسٹ ہیٹ(یواے ایچ) نام کاایک گرو پ بنایا۔
یوایچ اے مسلمانوں، آدی واسی، عیسائیوں یہاں تک کہ سری لنکائی عیسائیوں کے لیے بھی لگاتار احتجاجی مظاہرہ کرتا رہا۔ انہوں نے کیرل کی باڑھ اور فلسطین کے لوگوں کے لیےیکجہتی سے متعلق پروگرام منعقد کیے۔ انہوں نے ننکانہ صاحب پر حملے کی مذمت کی اور فرضی انکاؤنٹر معاملوں کے لیے پبلک ٹریبونل بھی منعقدکیے۔
انہوں نے صحافیوں ،ریسرچ اسکالروں ، کارکنوں کے ساتھ مل کر پورے ہندوستان میں فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجے۔ آسام میں شہریوں کے قومی رجسٹر پر، اتر پردیش کے کاس گنج، بہرائچ اور بلندشہر میں تشدد جیسے معاملوں پر فیکٹ فائنڈنگ کی۔ یہاں تک کہ وہ پریس کی آزادی کے لیے احتجاج بھی کرتے تھے اور پرشانت کنوجیا جیسے صحافیوں کے جیل سے چھڑانے میں بھی پیش پیش تھے۔
ایک نئی دنیا کھل گئی تھی جو سڑک پر بند نالیوں اور گڈھوں سے پرے تھی۔وہ کہتی ہیں،‘ایسا لگ رہا تھا کہ آخرکار انہیں اپنا راستہ مل گیا ہے۔’
§
ڈیڑھ سال کے اندر15 جولائی،2019 کو یواے ایچ نےہیٹ کرائم کےخلاف ایک ہیلپ لائن شروع کی۔ یہ ہیلپ لائن ہیٹ کرائم کا سامنا کر رہے لوگوں کو فوراً ردعمل ، قانونی امداد اور وکالت کی سہولیات دینے والی تھی۔
یو اے ایچ کی ٹیم چھوٹی تھی اور انہوں نے پہلے سے کہیں زیادہ کام لینا شروع کر دیا تھا۔ وہ کبھی کبھی گھر پر ہیلپ لائن نمبر والا فون چھوڑ دیتے تھے اور انہیں ہر کال پر دھیان دینے کے لیے کہتے۔
انہوں نے ایمرجنسی ہیلپ کے لیےمختلف شعبوں میں مقامی لوگوں سے رابطہ کے لیے نمبر دیے۔ وہ کرتیں،‘وہ سب تو ٹھیک تھا مگر انہیں لگتا تھا کہ دلیل، انسانیت کو کیا ہو گیا ہے۔’
ایک دن جھارکھنڈ کے دوردرازعلاقے سے ایک فون کرنے والے نے کہا کہ ایک آدمی کو پیڑ سے باندھ دیا گیا ہے اور انہیں لنچنگ کا شک ہے۔ انہوں نے فون کرنے والوں کی سرزنش کی۔
انہوں نے کہا،‘اچھاہے کہ آپ کال کر رہے ہیں، لیکن کیا آپ اصل میں کسی کو اپنی آنکھوں کے سامنے لنچنگ کرتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں اور فون کال کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرتے ہیں؟ کچھ لوگوں کو اکٹھا کرو اور انہیں روکو۔ ہم فوراً کچھ مقامی مدد بھیجیں گے لیکن تب تک جاکر انہیں بچا لیجیے۔’اور اس دن، وہ شخص سچ مچ بچا لیا گیا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ لوگوں نے یہ پوچھنے کے لیے فون بھی کیاکہ ،‘کیا آپ صرف مسلمانوں کو بچاتے ہیں؟’ میں نے ان میں سے ایک سے پوچھا، ‘کیا آپ کو یاد ہے کہ دسمبر 2018 میں بلندشہر میں کون مارا گیا تھا؟
بلندشہر ضلع میں دسمبر 2018 میں دولوگ انسپکٹر سبودھ کمار سنگھ اور ایک مظاہرہ کرنے والےشخص سمت کو وہاں ہوئےتشددکے واقعہ میں گولی مارکرہلاک کر دیا گیا تھا، جس میں ایک پولیس چوکی پر ہتھیاروں کا استعمال، بھاری پتھراو اور آگ زنی شامل تھی۔
شدت پسندوں نے الزام لگایا تھا کہ شہر کے ایک حصہ میں گایوں کا ذبیحہ کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے پولیس افسروں کو ہندومخالف بتایا تھا۔ پولیس افسروں میں سے ایک سبودھ کمار سنگھ دادری لنچنگ معاملے کی بھی جانچ کر رہے تھے، جہاں ستمبر 2015 میں گائے کا گوشت کھانے کےشک میں50سالہ اخلاق کو پیٹ پیٹ کرقتل کر دیا گیا تھا۔
سبودھ کی فیملی کا الزام ہے کہ اسی کی وجہ سے ان کوقتل کیا گیا ہے۔ یو اے ایچ مہلوک کے اہل خانہ کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے ایک وفدکو بلندشہر لے گیا تھا۔
وہ کہتی ہیں،‘لیکن میں نے انہیں یہ بھی بتایا کہ یہ اصل میں سچ ہے کہ اقلیت اور دلت موجودہ ہندوستان میں ہیٹ کرائم کے تئیں زیادہ حساس ہیں۔ مظلوم اور بااثر طبقوں میں جھوٹی برابری نہیں ہونی چاہیے۔’
ابھی تک ان کی سماجی زندگی باورچی خانے تک ہی محدود تھی، بڑی تعدادمیں مہمانوں کے لیے چائے ناشتہ بناکر باہر کے کمرے میں بھیجتے رہنا۔ وہ کہتی ہیں،‘میں زیادہ تر لوگوں کو نہیں جانتی تھی اور جاننے کی کبھی زحمت بھی نہیں اٹھائی۔’
فون پر اجنبی لوگوں سے بات کرنے والی خواتین کو ہندوستان میں طویل عرصے سے بھلا برا کہا گیا ہے، لیکن یہ گمنامی ہی تھی جس نے انہیں بحث کرنے، صلاح دینے، مدد کرنے، سننے اور ان شعبوں کو سمجھنے کا یقین پیدا کر دیا تھا، جو انہیں لگتا تھا کہ ان کے نہیں ہےاجتماعی ، سماجی، سیاسی ۔
§
اب انہوں نے گھر پر وقت بتانا بند کر دیا تھا۔ وہ لمبے وقت تک باہر رہتے تھے، اتوار کو بھی گھر پر نہیں ہوا کرتے تھے۔ وہ مزیدکہتی ہیں کہ انہیں ہلکے میں لیا جا رہا تھا، ‘جیسا کہ خواتین کے ساتھ ہمیشہ ہوتا ہے۔’
خواتین شادی کے بعدشاید ہی پرانی دوستی کو بنائے رکھ پاتی ہیں۔شادی کے بعد ان کا گھر بدل جاتا ہے اور اپنے دوستوں کے رابطے سے باہر ہو جاتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں، ‘جب سے میری شادی ہوئی ہے، و ہی میرے واحد دوست ہیں۔ ہم گھنٹوں باتیں کر سکتے ہیں۔ مجھے اس کی کمی محسوس ہونے لگی تھی۔’
بارہ دسمبر 2019 کو جب شہریت قانون (سی اےاے)پاس ہوا تو وہ پریشان ہو گئے۔ ساتھی مظاہرین کے ساتھ پولیس بیریکیڈس کا سامنا کرتے ہوئے وہ احتجاج کی جگہوں پر باقاعدگی سے جانے لگے۔
وہ بتاتی ہیں،‘ایمانداری سے میں ان کے ساتھ زیادہ وقت بتانے کے لیے سبھی احتجاجی مظاہروں میں ساتھ جانے لگی، اس بات سے بے خبر کہ یہ آگے کے لیے میری تیاری ہو رہی ہے۔’
شہریت ایکٹ نے خصوصی طور پرمسلمانوں کو ہندوستان میں پناہ لینے سے باہر رکھا ہے۔ اس کے بعد قومی شہری رجسٹر آنے کے اندازے تھے، جس کے ذریعے ان لوگوں کو فلٹر کیا جا رہا تھا جو تحریری دستاویزی ثبوت پیش نہیں کر سکے کہ ان کےاجدادہندوستان میں رہتے تھے۔
وہ بتاتی ہے، ‘میں نے ان سے کہا کہ آپ دہلی میں پیدا ہوئے ہو۔ میرا جنم دہلی میں ہوا تھا۔ ہمارے بچہ بھی دہلی میں پیدا ہوئے۔ آپ ان سب میں کیوں الجھ رہے ہو؟’
تب انہوں نے انہیں حاشیے پر رہنے والے، غریبوں کے لیےسی اے اے اور این آر سی کے اثرات کے بارے میں بتایا۔ اس نے یو اے ایچ آسام کی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کا حوالہ دیا جس میں پتہ چلا کہ کتنے لاکھ لوگوں کو ‘غیرقانونی شہری ’قراردیا گیا اور انہیں حراستی مراکزمیں بھیج دیا گیا۔
پھر19 دسمبر 2019 کو پہلی بار پولیس نے انہیں بھی ایک احتجاجی مقام سے حراست میں لیا۔ اس دن انہیں اپنے بھرے پورے خاندان کے ممبروں سے ایک غیر ذمہ دار ماں ہونے کے لیے سرزنش کرنے والے کئی فون آئے۔ وہ کہتی ہیں،‘میں نے ان سے کہا کہ میں اپنے بچوں کے حقوق کے لیے بھی احتجاج کر رہی ہوں۔ اور بےگھر لوگوں کے حقوق کے لیے، میرے گھریلو مزدور اور جن کے پاس کوئی دستاویز نہیں ہے کیونکہ وہ ہر دن زندہ رہنے کی جدوجہد میں پھنس گئے ہیں۔’
ابھی تک وہ فون پر اپنے من کی بات اجنبی لوگوں سے بولتی تھیں۔ اب گھر والوں سے اپنے من کی بات کہنے لگیں جو اس دنیا میں کافی مشکل کام ہے۔
وہ مشرقی دہلی کے کھریجی میں سی اے اے کے احتجاجی مقام کے آرگنائزرس میں سے ایک بن گئے، جسے سی اے اے پاس ہونے کے ایک مہینے بعد جنوری2020 میں شروع کیا گیا تھا۔ یہ جنوبی دہلی کے شاہین باغ کی طرح کے ایک احتجاج سے متاثر تھا جس نے قومی سطح پر توجہ کھینچی تھی۔
کھریجی کے مظاہرین پٹپڑگنج روڈ پر ایک پمپ کے سامنے چھتوں اور ٹینٹوں کے بیچ بیٹھ گئے۔ خواتین شام کو گھر کا کام ختم کرکے آتی تھیں۔ یہ جلد ہی ایک مقبول احتجاجی مقام بن گیا، جہاں دوردور سے لوگ یکجہتی دکھانے کے لیے آتے تھے۔ وہ بھی ایک ریگولر شریک کار تھیں، جو اکثر مین سڑک سے احتجاجی مقام تک خواتین کا مارچ نکالتی تھیں۔
ایک مہینے بعد 23 فروری، 2020 کو جعفرآباد میں ایک دوسرےسی اے اے مخالف احتجاجی مقام کے پاس نارتھ ایسٹ دہلی میں دنگے بھڑک اٹھے۔ اس دن وہ آئے اور عبادت کرکے سو گئے۔ وہ کافی پریشان نظر آ رہے تھے۔
وہ کہتی ہیں،‘ہماری دنیا میں مردوں کو اپنے چیلنجز،جدوجہد،پریشانیوں،جذبات کو اپنے پریواروں کے ساتھ ساجھا کرنے کے لیےتربیت نہیں کی جاتی ہے۔ ہروقت وہ کسی نہ کسی میں ہیں۔’
انہیں پتہ نہیں تھا کہ وہ صرف اس لیے پریشان نہیں تھے کیونکہ گھر کے اتنے قریب دنگوں میں اتنے لوگوں کی جان چلی گئی تھی۔ احتجاجی مقام کو خالی کرنے کے لیے پولیس کے دباؤ سے بھی وہ فکرمند تھے۔
تین دن بعد 26 فروری، 2020 کو پولیس آئی اور کھریجی کے احتجاجی مقام کو توڑنا شروع کر دیا اور مظاہرین کو منتشر کر دیا۔مظاہرین کو واپس آنے سے روکنے کے لیے انہوں نے بیریکیڈس لگا دیے۔
انہوں نے سنا کہ انہیں بھی پولیس نے اٹھا لیا ہے ۔ کسی نے انہیں ایک ویڈیو بھیجا جس میں وہ پولیس کی طرف سکون سے چلتے ہوئے دکھائی دے رہا تھا۔ انہوں نے کہا، ‘حراست میں لیا گیا ہوگا ۔ شام تک واپس آ جائیں گے۔’
اس دن وہ گھر واپس نہیں آئے۔
اسی دن سات اور لوگوں کوعدالتی حراست میں بھیج دیا گیا تھا، جس میں کانگریس کی ایک سابق کونسلر عشرت جہاں بھی شامل تھیں۔ ان پرآرمس ایکٹ اور آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت مہلک ہتھیار سے لیس ہوکر دنگا کرنے، غیرقانونی طریقےسے اکٹھا ہونے، ایک سرکاری افسرکو اپنے فریضہ کو پورا کرنے میں رکاوٹ ڈالنے، سرکاری افسر کو روکنے کے لیے حملے یا مجرمانہ طور پرطاقت کااستعمال ، قتل کی کوشش کے الزام لگائے گئے۔ ان پر یو اے پی اے کے تحت بھی الزام لگائے گئے تھے۔
چودہ دن بعد 11 مارچ 2020 کو جب انہوں نے انہیں اگلی بار دیکھا، تو وہ وہیل چیئر پر تھے، ان کے پیروں اور داہنے ہاتھ کی انگلیوں پر پٹیاں تھیں۔ انہیں حراست میں پیٹا گیا تھا۔
وہ 17 مہینے سے جیل میں ہیں۔
§
انہیں ٹوٹے پیروں کے ساتھ دیکھنے کےتیرہ دن بعد 24 مارچ، 2020 کو کووڈ -19 کے قہر کے بعد ملک گیرلاک ڈاؤن کا اعلان ہو گیا۔ یو این سمیت کئی بین الاقوامی باڈی نے مختلف ممالک سے سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کی اپیل کی۔
انہیں شوگر ہے، جیلوں میں بھیڑ ہے، وہ ان کے لیےفکرمند تھیں۔ انہیں اب بھی رہا نہیں کیا گیا۔
تبھی بچوں کی آن لائن کلاس شروع ہوئی۔ وہ کہتی ہیں،‘میری انگریزی کمزور ہے اور اس لیے وہ بچوں کو ان کے ہوم ورک میں مدد کرتے تھے۔ اور اب میں یہاں تین اسکول جانے والے بچوں کے لیے ایک ساتھ آن لائن کلاس چلا رہی ہوں،’ .
کچھ وقت تک تو تینوں کو کلاس کے لیے ایک ہی فون سے کام چلانا پڑتا تھا۔ وہ کہتی ہیں کہ دھیرے دھیرے سب منظم کرنے میں کچھ وقت لگا۔
وہ اب اس کی رہائی مہم کے لیے ایک خود سے سب سیکھی ہوئی سوشل میڈیا منیجر ہیں۔ انہوں نے خود کو تربیت دینے کے لیے لاک ڈاؤن کا استعمال کیا۔
وہ کہتی ہیں،‘ان کی گرفتاری سے پہلے میرا کوئی سوشل میڈیا اکاؤنٹ بھی نہیں تھا۔’آج کی تاریخ میں ان کے دن کا کچھ حصہ ان کی رہائی کی پیروی کرنے کے لیے گرافکس اور موسیقی کا استعمال کرکے پوسٹر ویڈیو بنانے میں جاتا ہے۔
بچے سمجھتے ہیں کہ ان کے والدآس پاس کیوں نہیں ہیں، لیکن وہ ایک حد تک ہی سمجھ سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں خوشی ہے کہ کورونا کی وجہ سے وہ ابھی اسکول نہیں جا رہے ہیں۔ بچے پیچیدگیوں کو اتنی اچھی طرح نہیں سمجھتے ہیں۔ انہیں اپنے دوستوں سےیہ سمجھانا پڑتا کہ ان کے والد جیل میں کیوں ہیں۔’
مہاماری کے دوران گھر میں قید بچے اپنے والد کے لیے پوچھتے تھے۔ وہ بتاتی ہیں،‘گھر میں ایسے چھوٹے بچوں کے ساتھ ہر وقت سوگواری کا ماحول نہیں ہو سکتا۔ ان کی یاد دن بھر ہوتی ہے۔ پرانی چھٹیوں کے ویڈیو اور تصویریں، 2019 میں گوا جانا، باربار دیکھے جاتے ہیں۔ انسٹا ریل کیونکہ ان کے پسندیدہ ٹک ٹاک پر پابندی لگا دی گئی تھی ڈائیلاگ کی نقل اتارنا، ڈانس وغیرہ بھی اکثر ہوتے ہیں۔ کمپیوٹر گیم جہاں ان سب نے سیکھا کہ ‘گرائنڈنگ’ کا مطلب ہے ‘گیم میں سطح اوپر بڑھنا’- کی اجازت کبھی کبھار دے دی جاتی ہے۔’
اس دن بچہ ان کا پسندیدہ دال گوشت کھا رہے تھے۔ سب سے چھوٹے نے کھانا بند کر دیا اور پوچھا، ‘پاپا کو جیل کے اندر کھانے کے لیے صرف پرول کی سبزی ہی کیوں ملتی ہے؟’
وہ کہتی ہیں،‘وہ اس ملک اور اس کے لوگوں سے محبت کرتے ہیں، گہرا پیار۔’
وہ کہتی ہیں کہ انہوں نے کبھی امتیاز نہیں کیا۔ عید پارٹی کی تو دیوالی پارٹی بھی کی۔ ان کی گرفتاری کے بعد سے کئی خواتین اپنے بچوں کی فیس لینے آئی تھیں۔ وہ انہیں فنڈ دیا کرتے تھے، چاہے وہ کسی بھی مذہب کے ہوں۔ مجھے یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ وہ ایسا کر رہے ہیں۔
پچھلے ڈیڑھ سال میں وہ احتجاجی مظاہروں میں ریگولر ہو گئی ہیں۔ چاہے ہاتھرس ریپ کیس کی بات ہو، جہاں 19 سال کی دلت خاتون کے ساتھ اشرافیہ کے لوگوں نے ریپ کیا ہو یا پھر ابھی چل رہا کسانوں آندولن۔ وہ کہتی ہیں، ‘میں نے سیکھا ہے کہ جو لوگ ایک بہتر ملک چاہتے ہیں، انہیں ساتھ رہنے کی ضرورت ہے۔’
پچھلے ڈیڑھ سال میں انہیں بہت ساری قانونی اصطلاح سیکھنی پڑی اور یہ جانا ہے کہ عوامی طورپر کیا کہنا ہے۔ وہ یکجہتی کااظہار کر سکتی ہیں اور اس ٹھیس سے بھی نمٹ سکتی ہے جب پڑوسی یا خاندان والے ان کے عمل پر سوال اٹھاتے ہیں۔
انہوں نے مدد نہیں مانگی، مظلوم کا رول ادانہیں کیایہ بات خواتین میں قابل تحسین نہیں سمجھی جاتی۔ اور اس لیے ان کا گھر سے باہر نکلنا بجلی کا بل بھرنا، گیس سلنڈر بھروانا، اپنے بچہ کو ڈاکٹر کے پاس لے جانا یا اپنے پیر کا علاج کرنے کے لیے خود کو فزیوتھراپسٹ کے پاس لے جانا ایسا کچھ جو اس نے پہلے خود کبھی نہیں کیا تھا کے لیے سماج سے مذاق اور علیحدگی ملتی ہے۔
جب وہ بچوں کو بازار لے جاتی ہے، تو وہ کچھ بھی خریدنے سے پہلے پوچھتے ہیں،‘ممی، یہ مہنگا نہیں ہے، نہیں؟’یہ کچھ ایسا ہے جو انہوں نے تب کبھی نہیں سوچا تھا جب ان کے والدآس پاس تھے۔
سبھی ٹریول ایجنسی کی طرح ان کی کمپنی ایک سال سے زیادہ سے بند ہے۔ بچت کے پیسے ختم ہو رہے ہیں۔ وہ کہتی ہیں،‘جب سے وہ دور ہیں، میں نے بہت کچھ سیکھا ہے۔ دھیرے دھیرے میں ان کی کمپنی کو بھی پٹری پر لانا سیکھنے کی کوشش کروں گی۔’
مگر وہ ابھی بھی سیکھ رہی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو نئے نئے بہانے کیسے دے۔ وہ بے شمارسوال پوچھتے ہیں،‘ممی، پاپا گھر کب آئیں گے؟’ وہ ان کے ایک جنم دن کی تاریخ کا حوالہ دیتی ہے۔ جنم دن آتا ہے اور چلا جاتا ہے لیکن وہ گھر نہیں آتے۔
پھر وہ پریوار میں اگلے جنم دن کی تاریخ کا حوالہ دیتی ہے۔ ایسے چھ جنم دن بیت چکے ہیں۔ بچوں کو امید نہیں چھوڑنی چاہیے۔ اور اس لیے ہر روز منصوبہ بنایا جاتا ہے کہ وہ اپنےوالد خالد سیفی کا گھر پر استقبال کیسے کریں گے۔
سب سے بڑا یسا کہتا ہے،‘جب وہ رہا ہوں گے تو میں ایک ہاتھ میں چکن ٹکا، دوسرے ہاتھ میں چائنیز کھانا لےکر کھڑا رہوں گا۔’
منجھلے طہٰ کا کہنا ہے، ‘پٹاخے، ان میں بہت سارے، راکیٹ اور پھلجھڑیاں۔’
سب سے چھوٹی مریم کہتی ہیں، ‘گھر کے ہر کونے میں پھول اور تیزموسیقی ۔’
ان کی ماں نرگس سیفی کہتی ہیں، ‘اور ہم خوب باتیں کریں گے اور انہیں کبھی جانے نہیں دیں گے۔’
(نہا دکشت آزاد صحافی ہیں۔)
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)
Categories: حقوق انسانی, خبریں, فکر و نظر