گزشتہ4 اگست کو فیصل احمد خان نام کےقانون کے ایک استاذ نے رائٹ ونگ کے شدت پسند رہنماؤں یتی نرسنہانند اورسورج پال امو کے الگ الگ مواقع پرمسلم مخالف بیانات پر جامعہ نگر پولیس اسٹیشن میں شکایتیں کی تھیں۔ کوئی کارروائی نہ ہونے پر 7 اگست کو انہوں نے نے ساکیت ضلع کورٹ سے پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت دینے کامطالبہ کیا۔
نئی دہلی: رائٹ ونگ کےشدت پسند رہنماؤں یتی نرسنہانند اور سورج پال امو کے فرقہ وارانہ بیانات کے خلاف درج شکایتوں پر مبینہ طور پر یف آئی آر درج نہ کرنے کے معاملے میں دہلی کی ایک عدالت نے جامعہ نگر پولیس اسٹیشن سے کارروائی کو لےکر رپورٹ طلب کی ہے۔
گزشتہ 4 اگست کو قانون کے استاذفیصل احمدخان نے دونوں کے الگ الگ مواقع پرمسلم مخالف بیانات کے سلسلے میں جامعہ نگر پولیس اسٹیشن میں شکایتیں درج کرائی تھیں۔تین دنوں تک انتظار کرنے کے بعد 7 اگست کو خان نے ساکیت ضلع کورٹ کا رخ کیا اور دونوں کے خلاف پولیس کو ایف آئی آر درج کرنے کی ہدایت دینے کی مانگ کی۔
اس سلسلےمیں خان نے دو الگ الگ ایف آئی آر درج کرنے کی مانگ کی اور دونوں پر آئی پی سی کی دفعہ153(دنگے بھڑ کانے کے مقصد سے اکسانا)، 153 اے (مذہب، جاتی،مقام پیدائش، رہائش،زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروپوں میں تعصب پیدا کرنا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب کرنے کے مقصدسے کام کرنا)، 295 اے (کسی طبقہ کے مذہب کی توہین کرنے کے مقصد سے عبادت گاہوں کونقصان پہنچانایاناپاک کرنا)، 298(مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے جان بوجھ کرتبصرہ کرنا)، 504(بدامنی پھیلانے کے مقصدسے جان بوجھ کر توہین کرنا)، 505-1(فوجی بغاوت یا عوامی امن وامان کے خلاف جرم کرنے کے مقصد سے جھوٹے بیان ، رائے عامہ وغیرہ کومشتہر کرنا)، 505-2(مختلف کمیونٹی کے بیچ عداوت، نفرت یاتعصب کے جذبات پیدا کرنے کے مقصد سے جھوٹے بیان،رائے عامہ ،وغیرہ مشتہر کرنا اور 506(مجرمانہ طورپر دھمکی کے لیے سزا)کے تحت الزامات درج کرنے کی مانگ کی ہے۔
گزشتہ11 اگست کو ساکیت کورٹ نے جامعہ نگر پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او ستیش کمار کو کارروائی کی رپورٹ (اےٹی آر)پیش کرنے کے لیے کہا تھا، جس میں انہیں یہ بتانا تھا کہ کیا پولیس اسٹیشن میں شکایت گزار کی جانب سے کوئی شکایت درج کرائی گئی اور اگر ہاں تو اس پر کیا کارروائی کی گئی۔
اپنے آرڈر میں میٹروپولیٹن مجسٹریٹ رجت گوئل نے ایس ایچ او سے یہ بھی پوچھا کہ کیا اس سلسلے میں کوئی جانچ کی گئی اور اگر ہاں تو جانچ کی کیاپوزیشن ہے اور اگر کوئی قابل دست اندازی جرم کیا گیا تو کیا کوئی ایف آئی آر درج کی گئی یا نہیں۔
فیصل احمدخان کے وکیل صارم نوید نے دی وائر کو بتایا کہ ایس ایچ او کو ان دونوں معاملوں میں اےٹی آر درج کرنے کے لیے27 ستمبر تک کاوقت دیا گیا۔اپنی درخواست میں خان نے کہا تھا کہ غازی آباد کے ڈاسنہ مندر میں پجاری نرسنہانند نے دنگے بھڑ کانے کے مقصد سے فرقہ وارانہ بیان دیا اور ہندو کمیونٹی کےلوگوں کو مسلمانوں کے خلاف جرم کرنے کے لیے اکسایا۔
یہ نرسنہانند کےاس بیان کےسلسلے میں تھا،جس میں انہوں نے میڈیااداروں سے بات کرتے ہوئے الزام لگایا تھا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جامعہ ملیہ اسلامیہ اوردارالعلوم دیوبندسمیت کچھ تعلیمی اداروں کےطلباہندوستان کےآئین کے لیےسچی عقیدت اور احترام کاجذبہ نہیں رکھ سکتے ہیں یا ہندوستان کی خودمختاریت اورسالمیت کو بنائے نہیں رکھ سکتے ہیں۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نرسنہانند نے مسلمانوں کو مجرمانہ طور پر ڈرانے کے ارادے سے ان اداروں پر بمباری کی وکالت کی تھی۔درخواست میں کہا گیا،‘انہوں نے مسلمانوں کے مکمل بائیکاٹ اور ان کے مذہبی صحیفوں کے مکمل بائیکاٹ کرنے اور اسلام یا اس سے متعلق کسی بھی چیز سےآزاد ملک کے قیام کی اپیل کی۔’
درخواست میں آگے کہا گیا کہ انہوں نے جان بوجھ کر اور تعصب سے کام لیتے ہوئے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی توہین کی اور غدار پیدا کرنے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے والا بتاکر اس میں پڑھنے والےمسلمانوں کےمذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے ارادے سے الزام تراشی کی ۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جامعہ نگر پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او نے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا۔ اس میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ شکایت گزار کے وکیل کی جانب سےمتعلقہ ڈی ایس پی کو ایس ایچ او کے ذریعے شکایت نامے کی ایک کاپی حاصل کرنے اورایف آئی آر درج کرنے سے انکار کرنے کے سلسلے میں بھیجے گئے ای میل کا بھی کوئی جواب نہیں ملا۔
وہیں دوسری طرف درخواست میں کرنی سینا کے سربراہ سورج پال امو کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کرنے کی مانگ کی گئی ہے۔ یہ ایف آئی آر گزشتہ30 مئی اور 4 جولائی کو ہریانہ کے نوح واقع اندری اور گڑگاؤں کے پٹودی ٹاؤن میں دو الگ الگ مہاپنچایتوں میں دیے گئےبیانات کےسلسلے میں درج کرنے کی مانگ کی گئی ہے۔
خان نےدرخواست کہا کہ تقریر مسلمانوں کےمذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے ارادے سے عوامی امن وامان کو متاثر کرنے اور مسلمانوں کے بیچ خوف اورتشویش پیدا کرنے کے ارادے سے کی گئی تھی۔
پہلا معاملہ اندری میں منعقد مہاپنچایت کا ذکر کرتا ہے، جس میں30 مئی کو لگ بھگ 50 ہزار لوگ شامل ہوئے تھےجو کہ آصف خان کے قتل کےدو ہفتے بعدمنعقد ہوا تھا اور ان کے اہل خانہ نےالزام لگایا تھا کہ انہیں ہریانہ میں ان کی پہچان کی وجہ سے لنچ (پیٹ پیٹ کر مارنا)کیا گیا تھا۔
درخواست میں کہا گیا کہ اس مہاپنچایت میں امو نے فرقہ وارانہ کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش میں ایک بیان دیا تھا، مذکورہ واقعہ کی وجہ سےعلاقے میں پہلے سے ہی کشیدگی تھی۔
درخواست میں امو کے درج بیان کےمطابق، ‘برائے مہربانی اصلی ہندو اپنا ہاتھ اٹھائیں۔ اگر یہاں کوئی پاکستانی کا بچہ ہے تو وہ بھی ہاتھ اٹھائے۔ آصف کا قتل پٹواری،اڈوانی نے کیا تھا۔اس کاقتل نہ تو پٹواری اور نہ ہی اڈوانی نے کیا تھا۔اگر اس کاقتل ہوا ہے تو اس کے اعمال کی وجہ سے،یہ کہنے کی ہمت کرو۔ ہم قصوروارنہیں ہیں، ہمارے لڑکے قصوروار نہیں ہیں۔ وہ ہماری بہنوں اور بیٹیوں کی ننگی تصویریں/ویڈیو بناتے ہیں اور ہم ان کا قتل بھی نہیں کر سکتے ہیں؟’
پٹواری اور اڈوانی آصف کےقتل معاملے میں ملزم ہیں۔درخواست میں کہا گیا ہے کہ لوگوں کو ان کےنقش قدم پر چلنے کے لیے پرجوش کرنے کے ارادے سے امو نے ملزمین کی تعریف کی۔درخواست میں مزیدکہا گیا کہ پانچ ہفتے بعد پٹودی میں ایک اور مہاپنچایت میں امو نے بھیڑ سے مسجدوں کوتباہ کرنے اور مسجد بنانے کی ہر کوشش کو ناکام بنانےکی اپیل کی تھی۔
دی وائر کے رابطہ کرنے پر جامعہ نگر پولیس اسٹیشن کے ایس ایچ او ستیش کمار نے کہا کہ یہ دونوں معاملے جامعہ نگر کے دائرہ اختیار میں نہیں آتے ہیں۔
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں)
Categories: خبریں