لگ بھگ سال بھر سےدہلی فسادات سےمتعلق معاملے میں جیل میں بندعمر خالد کی والدہ کہتی ہیں کہ اسے باہر آنے پر ہندوستان چھوڑ دینا چاہیے، لیکن کچھ لمحو ں میں وہ بدل سی جاتی ہیں۔
ہندوستان میں ماؤں کے بڑے قصے ہیں، کئی باتیں ہیں۔ ماں کا آشیرواد، ماں کا آنچل، ماں کا پیاراور دلار، ماں کی چپل، ماں کے قدموں تلے جنت۔ ماں عورت ہے پر عورت نہیں ہے۔ ماں ایک جادوئی کرشمہ ہے۔ ماں کوئی آسمانی معجزہ ہے۔
ہم سب کے دنیا میں ہونے کی وجہ ایک ماں ہی ہے۔ میری بھی اور آپ کی بھی۔ عمر خالد کی بھی ماں ہے۔ میں اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا ہوں، مل کر آیا ہوں۔ پر ملنے پر تھوڑا مایوس ہوا۔
یہ کیسی ماں ہیں جو ہم دوستوں سے کہہ رہی تھیں،‘جب عمر باہر آئے تو اس سے کہنا، ہندوستان چھوڑکر چلا جائے، ورنہ پھر اسے کچھ جھوٹے مقدموں میں پھنسا دیں گے… سڑک پر کوئی لڑ رہا ہوتا تو بھاگ کر پہنچ جاتا ہے، لڑائی روکنے کے لیے۔ خون خرابے اور لڑائی جھگڑے سے تو اسے ایسی چڑ ہے کہ خود کو ہلاکت میں ڈال دیتا ہے۔ بتائیےوہ کروائے گا دنگے؟ جو سڑک پر لوگوں کو لڑنے نہیں دیتا، صلح صفائی کرنے پہنچ جاتا ہے؟’
ہم سب چپ چاپ بیٹھے رہے۔ نہ ہمارے پاس کوئی جواب تھا نہ کوئی تدبیر۔ اور ایسی صورتوں میں چپ رہنا ہی مناسب ہوتا ہے۔ ایک عجیب سی خاموشی تھی، عمر کے والدبھی وہاں تھے۔ وہ کافی دیر سے والد کا رول پلے کر رہے تھے۔ ایک انقلابی کا باپ ہونا بڑا کام ہے، اپنے اصل جذبات کو چھپانا پڑتا ہے، خون کے گھونٹ ایسے پینے پڑتے ہیں کہ کسی کو پتہ نہ چلے۔
ہمیں لگا کہ وہ کچھ عمر کی اماں کو دلاسہ دیں گے۔ کچھ ایسی بات کہیں گے کہ ذمہ داری ہمارے کندھوں سے ہٹےگی۔ ان 5-6 سیکنڈ میں کوئی کچھ نہیں بولا۔ شاید والد صاب کی بھی ہمت نہ تھی،یا شاید ان کے پاس بھی کوئی جواب نہ تھا۔
جب کوئی کچھ نہ بولا، یا یوں کہوں کہ کچھ نہیں بول پایا، تو وہ خود بولیں،‘میں ایئرپورٹ پر تھی، جب عمر کی خبر آئی کہ کسی نے اس پر گولی چلائی ہے۔ ہندی نیوز چینل پر وہ نمبر سے خبریں چلتی ہیں نہ، اس میں نمبر ایک پر عمر کی خبر تھی۔ میں اس قدر بےچین ہوئی کہ ٹی وی کے سامنے جاکر بیٹھ گئی۔ اور وہیں حجاب کے اندرزاروقطار رونے لگی۔ آنسو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے تھے۔ پھر کچھ دیر بعد پتہ چلا کہ پستول جام ہو گئی تھی، گولی چلی نہیں، عمر خیر سے ہے۔ تب جاکر جان میں جان آئی۔ بعد میں جب عمر کو میں نے یہ بات بتائی تو بولا اماں ، ایسےسرعام برقعے میں مت رویا کرو، لوگ تین طلاق کی تہمت لگا دیں گے– دیکھو کمبخت، ہر وقت مذاق کرتا ہے۔’
ہم سب بھی زور سے ہنس پڑے۔ ہم سب کو لگا، بچ گئے کیونکہ ان کے پہلے سوال کا جواب ہمارے پاس نہیں تھا۔ ابھی کچھ سال پہلے عامرخان نے بھی کچھ ایسا ہی سوال کیا تھا کہ ‘ان کی بیوی(کرن)کو بھی یہاں ڈر لگنے لگا ہے۔’اور لوگوں نے پھر انہیں اتنا ڈرا دیا کہ ان کا بولنا اور ڈر دونوں ہی ختم ہو گئے۔
اب اگر عمر خالد کی ماں ہم سے یہ کہتی ہیں کہ عمر کو ہندوستان چھوڑ دینا چاہیے تو کافی لوگ یہ کہیں گے کہ اسے پاکستان چلے جانا چاہیے۔ یا شاید آج کل افغانستان زیادہ چلن میں ہے۔
لیکن بات تو صحیح ہے۔ اب جیسے اندور کےقصے کو ہی لیجیے۔ ایک چوڑی والے کو صرف اور صرف اس لیے مارا جاتا ہے کہ وہ مسلمان ہے۔ پھر جب مسلمانوں کی بھیڑ اس بات پر اپنا احتجاج درج کرانے تھانے پہنچتی ہے، تو ان میں سے کچھ پر سنگین مقدمات کر دیے جاتے ہیں۔ چوڑی والے کو پاکسو کے کیس میں حراست میں لے لیا جاتا ہے۔
دوسرے دن ہزاروں کی بھیڑ ان کی حمایت میں جمع ہوتی ہے، جنہوں نے اس چوڑی والے کو مارا۔ مطلب بالکل صاف ہے، ہم تمہیں ماریں گے بھی اور اگر تم نے آواز بھی نکالی تو تمہیں اور تمہارے سارے خیرخواہوں کو جیل میں ڈال کر سڑا دیں گے۔
اب ایسے حالات میں اگرعمر خالد کی ماں چاہتی ہیں کہ وہ ملک چھوڑ دے، تو کیا غلط کہتی ہیں۔
لیکن ابھی کہانی میں ٹوئسٹ ہے، کیونکہ وہ جو آگے کہتی ہیں وہ بھی آپ کے لیے جاننا ضروری ہے۔ وہ کہتی ہیں،‘لیکن وہ باہر جائےگا کہاں؟ نہ جانے خدا نے اس کے کان میں کیا کہہ کر بھیجا ہے کہ ڈرتا ہی نہیں ہے۔ ہمت ہارنا تو جیسے اس نے سیکھا ہی نہیں ہے۔ اب سال بھر سے جیل میں بند ہے، پر ہمیشہ مجھ سے کہتا ہے ‘یہ دیواریں ہی تو ہیں، اور دیواریں کہاں آزاد خیالوں کو روک پائی ہیں۔’
ہمیں احساس ہوتا ہے کہ شاید وہ ہم سے بات ہی نہیں کر رہی ہیں۔ یہ ان کا کوئی انر ڈائیلاگ چل رہا ہے اور ہم بس یہاں سامع ہیں جو اسے سن رہے ہیں۔ پھر وہ کہتی ہیں،‘کرنے دو جو کرنا ہے ان لوگوں کو۔ دیکھتے ہیں ہم بھی آخر کتنا ظلم بچا ہے ان کے اندر۔’
پھر مسکراتی ہیں،‘اب تو میں بھی بدل گئی ہوں۔ابھی جنتر منتر پر کوئی ریلی تھی۔ مجھے تو پتہ بھی نہیں تھا کیا مسئلہ ہے، ایک پولیس والا باہر دروازے پر آکر کھڑا ہو گیا۔ ہم نے جب پوچھا کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو تو بولا، حکم ہے کہ آپ سب کو اس ریلی میں جانے سے روکنا ہے۔ بس پھر کیا تھا، میں نے پلٹ کر جواب دیا کہ ویسے تو مجھے پتہ نہیں ہے کون سی ریلی ہے، پر ایک بات کان کھول کر سن لو، اگر مجھے جانا ہوا تو کوئی طاقت مجھے وہاں جانے سے نہیں روک سکتی ہے۔ وہ وہاں دنگ کھڑا ہمارا منھ تاکتا رہ گیا… اب میں بھی بدل گئی ہوں…’
ہم سب مسکرانے لگے۔ یہ اصل میں ایک انقلابی کی ماں کے خیالوں کا سفر تھا، جسے آج ہم نے اپنی آنکھوں کے سامنے کھلتے، پلٹتے، سنبھلتے اور پھر پرواز کرتے ہوئے دیکھا۔
شایدسارے انقلابیوں کی مائیں ایسی ہی ہوتی ہوں گی۔ ڈرتی بھی ہوں گی، خود سے لڑتی بھی ہوں گی، خود سے جیتتی بھی ہوں گی۔ روز صبح شام بس یہی کرتی ہوں گی۔
ملک کا حال آپ کے سامنے ہیں، میں اس پر یہاں کوئی’گیان’ نہیں دوں گا۔ لیکن ایک بات ضرور ہے، عمر خالد کی ماں جیسی کئی مائیں آج ہندوستان میں ہیں۔
آپ کے ذہن شاید دال روٹی کی جدوجہد میں الجھے ہیں۔سوچا، جو لوگ آپ کی دال روٹی کے لیے لڑ رہے ہیں، آپ کو بتا دوں، ان کے گھروں میں بھی لوگ صبح شام خوف وہراس، بےچینی، اپنی بےچارگی سے بھی لڑ رہے ہیں۔ یہ لڑائی ہر چوک پر، ہر گلی میں جاری ہے اور ہم سب کو یہ بتایا گیا تھا:
سارے جہاں سے اچھا، ہندوستاں ہمارا،
ہم بلبلیں ہیں اس کی،یہ گلستاں ہمارا…
یہ گلستاں ہمارا، ہونہہ!
(داراب فاروقی اسکرپٹ رائٹر ہیں اور فلم ڈیڑھ عشقیہ کی کہانی لکھ چکے ہیں۔ )
Categories: فکر و نظر