کسانوں کی تحریک کےغیرسیاسی ہونے کواس کی اضافی قوت کی صورت میں دیکھیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ہندو مسلم بھائی چارے کی یہ مہم سیاسی نفع نقصان سے وابستہ نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ قابل اعتماد ہے اور زیادہ امیدیں جگاتی ہے۔
کسانوں کی جانب سےگزشتہ دنوں مظفرنگر کی مہاپنچایت میں کیے گئے طاقت کےمظاہرے سے کم از کم ایک بات پوری طرح سے صاف ہو گئی ہے۔ وہ یہ کہ سرکارکے خلاف کسان اپنی جدوجہد سے پیچھے ہٹنے کو بالکل تیار نہیں ہیں۔ انہوں نے نریندر مودی سرکار کے اس اندازےکو بھی اوندھے منھ گرا دیا ہے کہ ان کی تحریک کی ان سنی کی عمر لگاتار بڑھائی جاتی رہی تو ایک دن وہ خود اپنی موت مر جائےگی۔
اس تحریک میں کسانوں نے اپنی ناقابل تسخیر روح سے نئی تاریخ ہی رقم نہیں کی ہے، کئی ریکارڈبھی اپنے نام کیے ہیں۔ وہ گزشتہ سال 26 نومبر سےتحریک کر رہے ہیں اور اس دوران انہوں نے اپنے کئی موسم راجدھانی دہلی کی سرحدوں پرگزارے ہیں موسم کی مار کے ساتھ ہی انہوں نے پولیس کی لاٹھیاں بھی برداشت کی ہیں، پانی کی توپوں سےنکلی بوچھاریں بھی اور آنسو گیس کے گولے بھی۔
اس بیچ سرکار ان کےخدشات کو دور کرنے کے بجائے انہیں ہٹانے کی قواعد کرتی، روکنے کے لیے سڑکوں پر گڑھے کھدواتی، کیلیں ٹھکواتی، جھوٹے مقدمے درج کراتی،تشدد کے لیے اکساتی، ان کی پہچان پر حملے کرتی،قواعد کومذہبی ،فرقہ وارانہ اور ملک مخالف رنگ دیتی،بات چیت کا دکھاوا کرتی اور اپنی بہی خواہ میڈیا کی معرفت ولن قرار دیتی ہی نظر آئی ہے۔
تعریف کرنی ہوگی کسانوں کےصبروتحمل کی کہ ان سب کے باوجود آج کی تاریخ میں ان کی تحریک عدم تشدد کی دنیا کی سب سے اچھی اور سب سے لمبی مثال بن چکی ہے۔
اسے ایک سیاسی مبصر کے ان لفظوں سے بھی سمجھا جا سکتا ہے، ‘تقریباً تقریباً حزب اختلاف کی عدم موجودگی والا ملک ،مفلوج پارلیامنٹ،سرکار کے آگے جھکی عدلیہ،غیر جوابدہ مقننہ، سرکاری احکامات پر اٹھ بیٹھ کرتی ایگزیکٹو اورسرمایہ داروں کے زیر کنٹرول میڈیا کے باوجود کسان اگر لاکھوں کی تعداد میں مظفرنگر میں جمع ہوئے تو سمجھنا چاہیے کہ ملک کی روح ابھی مردہ نہیں ہوئی ہے اور مزاحمت کی تاثیرزندہ ہے۔’
اس مبصر کے مطابق کسانوں نے ثابت کر دیا ہے کہ گاندھی کا یہ ملک برے سے برے حالات میں بھی ناانصافی کے خلاف کھڑا ہونا اور اس کا مقابلہ کرنا جانتا ہے۔
البتہ اس دوران ایک‘ریکارڈ’ مودی سرکار نے بھی بنایا ہے: وہ کسانوں سے اتنی لمبی محاذ آرائی کرنے والی ملک کی پہلی حکومت بن گئی ہے آزادی کے بعد کی ہی نہیں، غلامی کے دور کی بھی۔ وہ پہلی ایسی سرکار ہے، جو کسانوں کی سننے کے بجائے ان کی تحریک کے پہلے دن سے ہی اس کی قانونی حیثیت پر حملہ آور ہے۔
المیہ یہ کہ اپنے کئی دوسرے ‘ریکارڈ’ کی طرح اس نے یہ‘ریکارڈ’ بھی آزادی کے 75ویں سال میں بنایا ہے اور اس کی خماری میں اتنا بھی نہیں سمجھ پا رہی کہ کوئی سرکاری ناانصافی زندگی اور موت کےبحران تک جا پہنچتی ہے تو اس کی مزاحمت میں تحریک ، وہ کسانوں کے ہوں یا کسی اورکمیونٹی کے، نہ ہارتے ہیں، نہ ناکام ہوتے ہیں۔
کیونکہ سرکاریں کتنی بھی طاقتور کیوں نہ ہوں، وہ کچھ لوگوں کو لمبے وقت تک یا ڈھیر سارے لوگوں کو کچھ وقت تک ہی بیوقوف بنا سکتی ہیں۔ بڑی تعداد میں لوگوں کو لمبے وقت تک بیوقوف بناتے رہنا ہرگزممکن نہیں ہے۔
پھوٹ ڈالنے اور رسواکرنے کی سرکار کی جی توڑ کوششوں کے باوجود نو مہینوں بعد بھی کسانوں کی تحریک نہ صرف جاری ہے بلکہ وہ اس میں نئی جان ڈالنے میں کامیاب ہو رہے ہیں تو اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اسے اپنے مفاد تک ہی محدود نہیں رکھا ہے۔
تینوں سیاہ زرعی قوانین کی واپسی اورکم از کم امدادی قیمت کی گارنٹی کی مانگ کے ساتھ سرکاری شعبےکی صنعتوں کی اندھادھند نجکاری، منیٹائزیشن کے نام پرملکی اثاثوں اور وسائل کی کارپوریٹائزیشن، بےروزگاری اور مہنگائی کےمدعوں کو تحریک سے جوڑ لینے کا حاصل یہ ہے کہ وہ بےروزگار نوجوانوں، روزی روٹی کھو رہے مزدوروں اور مہنگائی سمیت کئی کئی پاٹوں کے بیچ پس رہے مڈل کلاس کے لوگوں کی امیدوں کے بھی مرکز میں آ گئے ہیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ وہ یہ سمجھنے میں بھی غلطی نہیں کر رہے کہ اس سرکار نے جس فرقہ وارانہ تقسیم کے بوتے اقتدار پر قبضہ کیا ہے اور جس کی وجہ سے وہ کسی بھی طرح کے طبقاتی عدم اطمینان کو ٹال کر اپنےاقتدار کے تحفظ کو لےکر‘مطمئن’رہتی ہے، اس کی جڑوں پرحملہ کیے بنا کام نہیں چلنے والا۔
اس سرکار کی قیادت کر رہی بھارتیہ جنتا پارٹی آج کل کچھ اور ہی بولی بولنے لگی ہے، تو اسی لیے کہ اسے لگتا ہےکہ جب تک رائے دہندگان اس کے ہندو مسلمان کے چکر میں پھنسے رہیں گے، سو جوتے اورسو پیاز کھاکر بھی اسے ‘ناقابل تسخیر’بنائے رکھیں گے۔ اسی وجہ سے وہ اپنے تکبر، ہٹ دھرمی اور ان دونوں سے پیدا ہونے والے شیطانی دائروں اور سنک کو اپنی طاقت کانعم البدل مان بیٹھی ہے اورمغربی بنگال کےرائے دہندگان کی جانب سے سکھائے گئے ہار کے اسباق کے باوجود اسے لامحدود قرار دے کر پروپیگنڈہ کر رہی ہے۔
ایسے میں2013 میں ہولناک فرقہ وارانہ فسادات جھیل چکے مظفرنگر کی کسان مہاپنچایت میں کسان رہنماؤں کا غلط سرکار چننے کی غلطی کوتسلیم کرنا اور ایک ساتھ ‘ہر ہر مہادیو’،‘اللہ اکبر’ اور ‘وہ توڑیں گے، ہم جوڑیں گے’جیسے نعرے لگوانا بلاشبہ ایساخوشگوار تجربہ ہے، چاروں سمت منھ کھولے گھوم رہی فرقہ واریت کے خلاف پچھلے سات سالوں سے جس کی ملک کو سخت ضرورت تھی۔
سچ پوچھیں تویہ کام بھارتیہ جنتا پارٹی کےسیاسی اپوزیشن کا تھا۔ لیکن دوسرے نظریے سے دیکھیں تو یہ اور اچھی بات ہے کہ اس کی شروعات غیرسیاسی کسان تحریک کی مہاپنچایت سے ہوئی ہے۔
غیرسیاسی ہونے کو کسانوں کی تحریک کی اضافی طاقت کے روپ میں دیکھیں تو کہہ سکتے ہیں کہ اس کی ہندو مسلم بھائی چارے کی یہ مہم سیاسی نفع نقصان سے وابستہ نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ قابل اعتماد ہے اور زیادہ امیدیں جگاتی ہے۔ اس لحاظ سے بھی کہ اس نے آمروں کو ووٹ کی جو چوٹ دینے کا ارادہ کیا ہے،فرقہ وارانہ تقسیم کے برقرار رہتے اس کی بیل کے اونچی چڑھ پانے کو لےکرشک کم نہیں ہونے والے۔
جو بھی ہو، کسان ایک بار پھر ہار نہ ماننے اور مانگیں پوری ہوئے بغیر گھر واپس نہ جانے کا ارادہ کرچکے ہیں۔ انہوں نے یہ بھی طے کیا ہے کہ وہ اپنے مطالبات پر زور دینے کے لیے آئندہ 27 ستمبر کو بھارت بند کرائیں گے اور اتر پردیش کے تمام18اضلاع میں مہاپنچایتیں کریں گے۔اسمبلی انتخاب ہوں گے تو مغربی بنگال کی ہی طرح وہ رائے دہندگان سے کہیں گے کہ کسان مخالف بی جے پی کو چھوڑ جسے بھی چاہیں ووٹ دیں۔
اب گیند سرکار کے پالے میں ہے اور اسے ہی فیصلہ کرنا ہے کہ کسانوں کےمفاد بڑے ہیں یا اس کی ضد بڑی ہے۔ وہ ابھی بھی اپنی ضد پر ہی قائم رہتی ہے تو کسانوں کی اس بات کو ہی صحیح ثابت کرےگی کہ اسے ووٹ کی چوٹ دےکر ہی جھکایا جا سکتا ہے۔
لیکن اس وقت کم از کم ایک سوال کا سامنا تو اسے ہی نہیں سارے ملک کو کرنا چاہیے:کسان سرکار کو جھکاکر اپنا اور ملک کےمفاد اور مستقبل کوسنوارنا چاہتے ہیں لیکن سرکار کے نزدیک کسانوں کو جھکانے کا حاصل کیا ہے؟ اگر کارپوریٹ کا مفاد، تو اسے بہاری کے لفظوں میں یہی بن مانگی صلاح دی جا سکتی ہے کہ باز پرایے کاج ہت تو پچھینو نہ مارو، یعنی اے عقاب دوسروں کی انا کی تسکین کے لیے اپنے پرندوں کو مت مارو۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں۔)
Categories: فکر و نظر