سنیکت ہندوسنگھرش سمیتی نےانتظامیہ کو ایک الٹی میٹم جاری کرکے کہا کہ وہ اگلے ہفتے سےشہر میں کسی بھی عوامی جگہ پر نماز کی اجازت نہیں دیں گے۔جمعہ کو گڑگاؤں کے سیکٹر37 میں مظاہرین کی طرف سے مسلسل نعرےبازی اور امن وامان میں خلل پڑنے کے اندیشہ کو دیکھتے ہوئے پولیس نے 10 لوگوں کو حراست میں لیا اور بعد میں ایک کو گرفتار بھی کیا۔
نئی دہلی: ہریانہ کے گڑگاؤں میں نعرے لگاکر نماز جمعہ میں خلل ڈالنے کی کوشش کےالزام میں کم از کم 10 لوگوں کو حراست میں لیا گیا۔
پولیس کے ایک افسر نے بتایا کہ امن وامان بنائے رکھنے کے لیے احتیاطی قدم کے تحت سیکٹر37 سے کچھ لوگوں کو حراست میں لیا گیا۔
ہندو تنظیموں کے کئی لوگ وہاں جمع ہوئے اور ‘بھارت ماتا کی جئے’ اور ‘جئے شری رام’ کے نعرے لگانے لگے، جہاں مسلمان جمعہ کی نماز کے لیے آ رہے تھے۔
اس طرح کے الزام ہیں کہ کچھ مقامی لوگوں نے دن میں پارکنگ کی پریشانی کا دعویٰ کرتے ہوئے نماز ادا کرنے کی جگہ کے پاس ٹرک کھڑے کر دیے تھے۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کےمطابق،مسلسل نعرےبازی امن وامان میں خلل پڑنے کے خدشہ کو دیکھتے ہوئے پولیس نے 10 لوگوں کو حراست میں لیا اور بعد میں ایک کو گرفتار بھی کیا۔
کھلے میں نماز کوروکنے کے لیےسلسلہ وار ڈھنگ سے ٹرک کھڑا کرنامظاہرین کا جدیدترین ہتھیار ہے۔ اس سے پہلے پچھلے ہفتے کئی گاؤں کے لوگ اس مخصوص مقام پر پہنچ گئے تھے، جو سیکٹر 37 تھانے کے پاس ہے۔وہاں انہوں نےہون کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا یہ ممبئی دہشت گردانہ حملے کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور جگہ پر ان لوگوں کو کرکٹ کھیلتے دیکھا گیا تھا اور ایک مقام پر پوجا کی گئی اور بعد میں وہاں گوبر پھینک دیا گیا۔
ایک مہینے پہلے بی جے پی لیڈر کپل مشرا نے گڑگاؤں کے سیکٹر 12 اے کے اس مقام پر گئووردھن پوجا میں شرکت کی تھی جہاں مسلمان ہر ہفتے نماز ادا کرتے ہیں۔
رپورٹ کےمطابق،شہر میں عوامی مقامات پر نماز کے خلاف احتجاج کر رہے لوگوں کی سنیکت ہندو سنگھرش سمتی کے زیر اہتمام منعقد گئوردھن پوجا میں عزت افزائی بھی کی گئی تھی۔
جمعہ کو اکٹھا ہوئے تقریباً 70مظاہرین نے دعویٰ کیا کہ وہ آس پاس کے گاؤں کھانڈسا، نرسنگھ پور، محمدپور جھارسا اور بیگم پور کھٹولہ سے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اپنے ٹرک پارک کرنے اور کرکٹ کھیلنے کا نماز کے معاملے سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔
پولیس نے انہیں نظم ونسق اور کووڈ 19پروٹوکول پر عمل نہیں کرنے کا حوالہ دیتے ہوئے وہاں سے ہٹنے کے لیے کہا، لیکن بھیڑ نے انکار کر دیا۔
اس بیچ سنیکت ہندو سنگھرش کمیٹی نےانتظامیہ کو ایک الٹی میٹم جاری کرکے کہا کہ اگلے ہفتے سے وہ شہر میں کسی بھی عوامی مقام پر نمازکی اجازت نہیں دیں گے۔
یہ سمتی پچھلے مہینے کھلے میں نماز کی مخالفت کو لےکر ڈپٹی کمشنر کے ذریعے بنائی گئی ٹیم کا حصہ ہے، جسے ان مقامات کی نشاندہی کرنے کے لیے کہا گیا ہے، جہاں نمازادا کی جا سکتی ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، سمیتی کے ریاستی صدر مہاویر بھاردواج نے کہا، ‘ہم نے انتظامیہ کو ایک مہینے کا وقت دیا تھا، جو کل (سنیچر)کو مکمل ہو رہا ہے۔ 10 دسمبر سے ہم ان میں سے کسی بھی مقام پر نماز نہیں ہونے دیں گے۔ میں اس بات کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں کہ نماز کے لیے کوئی فہرست یا جگہ طے نہیں کی گئی۔ اجازت صرف عارضی تھی۔’
انہوں نے مزیدکہا، ‘کھانڈسا (گاؤں)کے بہادر لوگوں کے اس احتجاج سے ہماری تحریک کو اور مضبوطی ملی ہے۔ ہمیں پورے ملک سے حمایت مل رہی ہے۔’
کھانڈسا کے ایک کاروباری اونیش راگھو، جو پچھلے ہفتے ہون کےمنتظمین میں سے تھے اور جمعہ کو سیکٹر 37 میں بھی موجود تھے، نے کہا، ‘ہمارا ٹرانسپورٹ کا کاروبارہے۔ یہ ہماری زمین ہے۔ ہم بس یہاں اپنے ٹرک پارک کرنے کے لیےجمع ہوئے ہیں، کہیں اور جگہ نہیں ہے۔’
انہوں نےمزید کہا،‘سرکار نے نہ تو مسلمانوں کو یہاں نماز ادا کرنے کی اجازت دی ہے اور نہ ہی ہمیں یہاں آنے سے روکا ہے۔یہاں کے گاؤں کے لوگوں کے پاس کوئی پروگرام کرنے کے لیے جگہ نہیں ہے، جبکہ کچھ باہری لوگ یہاں تک کہ میوات سے بھی لوگ نماز پڑھنے چلے آتے ہیں۔’
ایک گھنٹے سے زیادہ تک مظاہرین نعرےبازی کرتے ہوئے وہاں پر ڈیرہ ڈالے رہے۔ دوپہر 1.05 بجے مسلم ایکتا منچ کےصدر شہزادخان کی سربراہی میں ایک گروپ نے وہاں تک اپنا راستہ بنا لیا۔ مظاہرین نے انہیں روکنے کی کوشش کی، لیکن پولیس نے انہیں پیچھے دھکیل دیا۔
رپورٹ کے مطابق،گرفتار شخص کی پہچان بھارت ماتا واہنی کے صدردنیش ٹھاکر کےطور پر ہوئی ہے، جنہوں نے سیکٹر47 میں نماز کے خلاف احتجاجی مظاہرے کی قیادت کی تھی اور گزشتہ اپریل میں دونوں برادریوں کے بیچ دشمنی کو بڑھاوا دینے کے لیے ان کے خلاف کیس بھی درج کیا گیا تھا۔
ڈی ایس پی(ویسٹ)دیپک سہارن نے کہا، ‘ٹھاکر کو سی آر پی سی کے احتیاطی اقدامات کےتحت نظم ونسق کا مدعا پیدا کرنے کے لیے گرفتار کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے بھی انہیں سیکٹر47 میں اسی طرح کے معاملے میں گرفتار کیا گیا تھا۔دوسرے لوگوں کو وارننگ کے بعد چھوڑ دیا گیا۔ ٹھاکر نے اپنی گرفتاری سے پہلے کہا تھا کہ یہ نماز لینڈ جہاد کی ایک سازش ہے۔’
سیکٹر 12 اے میں نماز کو روکنےکی کوشش میں29 اکتوبر کو گرفتار کیے گئے 26 لوگوں میں سے امت ہندو بھی جمعہ کو احتجاجی مظاہرے کا حصہ تھے۔ انہوں نے کہا، ‘ہم گرفتاری سے نہیں ڈرتے۔’
مسلم ایکتا منچ کے صدر شہزاد خان نے کہا کہ تمام فریقین کے ساتھ مشورےکے بعد حال ہی میں بنی کمیٹی کے ذریعےجمعہ کی نماز کے لیےمتفقہ مقامات کی فہرست میں سے سیکٹر37 ایک ہے۔ یہ سرکاری زمین ہے۔
انہوں نےمزید کہا، ‘کمیٹی نے نماز کے لیےطے شدہ 37 جگہوں کوگھٹاکر 29 کر دیا تھا۔ ہم مان گئے، لیکن طے شدہ مقامات پر ہم نماز ادا کریں گے۔ اگر لوگوں کا کوئی اختلاف ہے تو انہیں انتظامیہ سے رابطہ کرنا چاہیے۔ اگر انتظامیہ ہمیں کھلے میں نماز کو بند کرنے کے لیے کہتی ہے تو ہم رک جائیں گے۔’
گڑگاؤں مسلم کاؤنسل کےشریک بانی الطاف احمد نے دعویٰ کیا کہ گڑگاؤں کے امن وامان اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو بگاڑنے کے لیے جان بوجھ کر کوشش کی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا،‘آج (جمعہ)سیکٹر37 میں تنازعہ ہوا، جہاں رائٹ ونگ گروپوں نے نہ صرف جمعہ کی نماز میں خلل ڈالا بلکہ مسلمانوں کو وقار کے ساتھ عبادت کرنے سے بھی محروم کر دیا۔ جمعہ کی نماز کی اجازت انتظامیہ کی طرف سے 2018 میں دی جا چکی ہے، پھر بھی شرپسندوں کو موقع پر پہنچنے دیا گیا۔ یہ اس جدید شہر میں حیران کن اورافسوسناک واقعہ ہے۔’
تین سال قبل ضلع انتظامیہ نے مسلمانوں کو جمعہ کی نماز پڑھنے کے لیے شہر میں37 مقام مختص کیے تھے۔ اس کے بعد کچھ ہندو گروپوں نےمظاہرہ کیا تھا۔
معلوم ہو کہ ہندوتوا تنظیموں کےلوگ پچھلے کچھ مہینے سےہر جمعہ کو گڑگاؤں میں مظاہرہ کر رہے ہیں۔
اس کے بعد ہندوتوا تنظیموں کے دباؤ کے درمیان گڑگاؤں ضلع انتظامیہ نے 3 نومبر کو 37 میں سے آٹھ جگہوں پر نماز پڑھنے کی اجازت منسوخ کر دی تھی۔
سال 2018 میں بھی گڑگاؤں میں کھلے میں نماز ادا کر رہے مسلموں پر لگاتار حملے ہوئے تھے۔ کچھ لوگوں نے عوامی مقامات پر نماز ادا کر رہے مسلمانوں پر حملہ کیا تھا اور ان سے مبینہ طور پر جئے شری رام کے نعرے لگوائے تھے۔
Categories: خبریں