خبریں

نماز میں رائٹ ونگ گروپوں کے رکاوٹ ڈالنے کی مذمت ہونی چاہیے: گڑگاؤں مسلم کاؤنسل

گڑگاؤں مسلم کاؤنسل نے کہا کہ دو دہائیوں سے زیادہ سے کھلی جگہوں پر جمعہ کی نماز ادا کی جا رہی ہے، کیونکہ مسلمانوں کے پاس مطلوبہ تعدادمیں مسجد نہیں ہے۔ مئی 2018 کے بعد شہر میں پہلی بار نمازمیں خلل کی اطلاع ملی تھی، جس کے بعد سے مسلمانوں کو ہراساں  کرنے کی  کئی کوششیں ہوئی  ہیں۔

 (فوٹو: پی ٹی آئی)

(فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: گڑگاؤں مسلم کاؤنسل (جی ایم سی)نے بدھ کو کہا کہ شہر میں جمعہ  کی نماز میں مبینہ  طور پر رائٹ ونگ گروپوں کے رکاوٹ ڈالے جانے کی مذمت  کی جانی چاہیے۔

کاؤنسل نےدہلی کے‘کانسٹی ٹیوشن کلب آف انڈیا’ میں پریس کانفرنس  میں یہ بات کہی۔

جی ایم سی کے مطابق دو دہائیوں سے زیادہ عرصے سے کھلی جگہوں پر جمعہ  کی نمازادا کی جا رہی ہے کیونکہ مسلمانوں کے پاس مطلوبہ  تعدادمیں مسجدیں  نہیں ہیں۔

گڑگاؤں مسلم کاؤنسل کے ایک ممبر الطاف  احمد نے دعویٰ کیا،‘ہم آج (بدھ)یہاں ملک کو یہ بتانے آئے ہیں کہ جمعہ کی نماز کےسلسلے میں گڑگاؤں میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے، اس کی مذمت کی جانی چاہیے، کیونکہ رائٹ ونگ گروپ مسلمانوں کو پریشان کر رہے ہیں۔’

احمد نے کہا کہ تین نمازیں عیدالفطر، عید الاضحیٰ اور جمعہ ایسی ہوتی ہیں،جنہیں اجتماعی طور پر ادا کیا جانا لازمی ہے۔

انہوں نے کہا کہ گڑگاؤں میں تقریباً پانچ لاکھ مسلمان ہیں، لیکن نمازکے لیےمطلوبہ تعداد میں مسجد نہیں ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ مئی 2018 کے بعد شہر میں پہلی بار نماز میں خلل پڑنے کی اطلاع ملی تھی، جس کے بعد سے مسلمانوں کو ہراساں کرنے کی کئی کوششیں ہوئی ہیں۔

خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، انہوں نے کہا کہ جب رائٹ ونگ گروپوں کے ذریعے پہلی بار نماز میں رکاوٹ ڈالی گئی تھی، تب 108 مقام ایسے تھے، جہاں مئی، 2018 تک بنا کسی مدعے کے اور بنا کسی سیکیورٹی کے پرامن طریقے سے نماز ادا کی جا رہی تھی۔ وہی لوگ جو ابھی مسلمانوں کو پریشان کر رہے ہیں، انہوں نے اس وقت10 جگہوں پر جمعہ کی نماز میں خلل پیدا کیا تھا۔

انہوں نے کہا، ‘ہم سیکیورٹی کے لیے انتظامیہ کے پاس گئے لیکن ان کے لیے 108 مقامات پر سیکیورٹی فراہم کرنا مشکل تھا۔ انہوں نے اسے 37 مقامات تک گھٹا دیا حالانکہ مسلم کمیونٹی نے اسے 60 مقامات تک کم کرنے کی پیشکش کی تھی۔’

گڑگاؤں مسلم کاؤنسل نے مزید کہا کہ گڑگاؤں میں اور مسجدوں کی سخت ضرورت ہے، کیونکہ مسلمان شہر میں رہنے والی دوسری  سب سے بڑی کمیونٹی ہے۔

معلوم ہو کہ رائٹ ونگ گروپوں کے حمایتی اورممبر پچھلے دو مہینے سے زیادہ سے ہر جمعہ کو گڑگاؤں میں نماز کی جگہوں پر احتجاج کر رہے ہیں۔اس میں سے ایک سیکٹر12ہے، جہاں مسلمان انتظامیہ  سے اجازت لےکرعوامی پراپرٹی  پر نمازادا کرتے آئے ہیں۔

اس کے بعد انتظامیہ نے گزشتہ تین نومبر کو 37مختص مقامات میں سے آٹھ پر نماز ادا کرنے کی اجازت رد کر دی تھی۔

گڑگاؤں پولیس نے پچھلے ہفتے نعرے لگاکر جمعہ  کی نماز کوروکنےکی مبینہ کوشش کے لیے دس لوگوں کو حراست میں لیا تھا۔ ایک پولیس افسرنے کہا تھا کہ سیکٹر 37 علاقے میں امن وامان  بنائے رکھنے کے لیے احتیاط کے طور پر کچھ لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔

گزشتہ جمعہ (تین دسمبر)کو سنیکت ہندو سنگھرش سمتی نے انتظامیہ  کو ایک الٹی میٹم جاری کر کہا تھا کہ اگلے ہفتے سے وہ شہر میں کسی بھی عوامی مقام پر نماز کی اجازت نہیں دیں گے۔

یہ سمتی پچھلے مہینے کھلے میں نماز کی مخالفت کو لےکر ڈپٹی کمشنر کے ذریعے بنائی گئی ٹیم کا حصہ ہے، جسے ان مقامات کی نشاندہی کرنے کے لیے کہا گیا ہے، جہاں نمازادا کی جا سکتی ہے۔

 نماز ادا کرنے کے لیے کھلی جگہ پر مسلمان پہنچ رہے تھے، تب مختلف  ہندو تنظیموں کے کئی لوگ وہاں جمع ہوئے اور ‘بھارت ماتا کی جئے’ اور ‘جئے شری رام’ کے نعرے لگانے لگے۔

ایک مہینے پہلے بی جے پی لیڈر کپل مشرا نے گڑگاؤں کے سیکٹر 12 اے کے اس مقام پر گئووردھن پوجا میں شرکت کی تھی جہاں مسلمان ہر ہفتے نماز ادا کرتے ہیں۔

رپورٹ کےمطابق،شہر میں عوامی مقامات پر نماز کے خلاف احتجاج کر رہے لوگوں کی سنیکت ہندو سنگھرش سمتی کے زیر اہتمام منعقد گئوردھن پوجا میں عزت افزائی  بھی کی گئی  تھی۔

اسی طرح سال 2018 میں بھی گڑگاؤں میں کھلے میں نماز ادا کر رہے مسلموں پر لگاتار حملے ہوئے تھے۔ کچھ لوگوں نے عوامی مقامات پر نماز ادا کر رہے مسلمانوں پر حملہ کیا تھا اور ان سے مبینہ طور پر جئے شری رام کے نعرے لگوائے تھے۔

(خبررساں  ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)