اتر پردیش میں سی اے اے کے خلاف دسمبر2019 میں ہوئے احتجاجی مظاہروں کے دوران پولیس نے کئی اضلاع میں مظاہرین پر فائرنگ کی تھی،جس میں 22 مسلمان ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ سول سوسائٹی کی متعدد شکایتوں پرنیشنل ہیومن رائٹس کمیشن نے اب اپنی جانچ شروع کی ہے۔
نئی دہلی: اتر پردیش پولیس کے ذریعے 19 دسمبر 2019 کو شہریت قانون (سی اے اے)کے خلاف احتجاجی مظاہروں کے دوران 22 مسلمانوں کی ہلاکت، بڑی تعداد میں لوگوں کے زخمی ہونے اور مسلمانوں کی املاک کو تباہ کرنے کے دو سال بعد، آخر کار نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن(این ایچ آر سی)نےالزامات کی جانچ شروع کی ہے۔
بتادیں کہ سول سوسائٹی کی متعدد شکایتوں پر تفتیش کرنے والے افسر راجویر سنگھ کی سربراہی میں اکتوبر 2021 میں جانچ شروع کی گئی ہے۔
ایسی ہی ایک شکایت ہنری ٹفانگے اور ماجا دارو والا نے درج کرائی تھی، جس میں دسمبر 2019 میں اتر پردیش میں بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کو اجاگر کیاگیا تھا۔
اسی شکایت میں حراست میں تشدد اور نابالغوں کو غیر قانونی طریقے سےحراست میں رکھنےکے علاوہ پولیس کی من مانی گرفتاریوں کا بھی ذکر کیا گیاہے۔
مظاہرین کے خلاف کارروائی
دسمبر2019 میں ملک بھر میں ہوئےسی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران ہی یہ پتہ چلا کہ بنگلہ دیش، پاکستان اور افغانستان سے غیر قانونی تارکین وطن کو شہریت دینے کے لیے شہریت ایکٹ میں ترمیم کی گئی ہے اور ان ممالک کے یہ غیر قانونی تارکین وطن مسلمان نہیں ہیں۔
اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے کھلے عام ریاست کے مظاہرین کو سنگین نتائج کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ وہ ان سے اور ریاست کی املاک کو تباہ کرنے والوں سے بدلہ لیں گے۔
یہ مظاہرہ اس وقت شدت اختیار کر گیا جب 12 دسمبر 2019 کو سی اے اے منظور ہوا۔ لوگ سڑکوں پر نکل آئے اور ملک کے سیکولرازم کے آئینی وعدے کی بحالی کا مطالبہ کرنے لگے۔
حالاں کہ، بی جے پی کی مقتدرہ ریاستوں نے سی اے اے مخالف مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی کی جو دراصل اختلاف کرنے والوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نظر آتی ہے۔
جب سول سوسائٹی اور متعلقہ شہریوں نے مشترکہ طور پر 19 دسمبر 2019 کوسی اے اے کے خلاف کل ہند احتجاج کی کال دی تو ریاست بھر میں سی آر پی سی کی دفعہ 144 نافذ کر دی گئی، جس کے تحت کسی علاقے میں چار یااس سے زیادہ لوگوں کے جمع ہونے پرپابندی ہے۔
اس وقت انسانی حقوق کے کارکنوں کو گھروں میں نظر بند کر دیا گیا اور کئی اضلاع میں دس دنوں تک انٹرنیٹ کو بھی بند کر دیا گیا تھا۔
قابل ذکر ہے کہ 19 دسمبر کو ہی جب سی اے اے مخالف مظاہرین جمع ہوئے تو اتر پردیش پولیس نے ریاست کے کئی اضلاع میں ان پر گولی چلا دی، جس میں 22 مسلمان ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔
پولیس نے مبینہ طور پر مسلمانوں کی املاک کو بھی تباہ کیا۔ اس واقعے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے زیادہ تر لوگ یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدور تھے۔
اس کے فوراً بعد، سول سوسائٹی کی تنظیموں اور این ایچ آر سی کے کئی اراکین کی طرف سے متعدد شکایات درج کرائی گئیں، جن میں پولیس کے ضابطوں کی خلاف ورزیوں کی آزادانہ جانچ اور نہ صرف پولیس افسران کے ذریعے جانچ ٹیموں کی تشکیل بلکہ این ایچ آر سی کے خصوصی افسران کے ذریعےجانچ ٹیموں کی تشکیل کرنا شامل ہے۔
متاثرین کی گواہی
این ایچ آر سی کے ذریعےاکتوبر2021 میں کیے گئےجانچ ریکارڈ میں پولیس کی فائرنگ میں اپنے خویش واقارب کو کھوچکے لوگوں کے تفصیلی بیانات شامل تھے ۔
یہ گواہیاں خود متاثرین کے اہل خانہ نے این ایچ آر سی کی ٹیم کے سامنے دی تھیں۔بعض لوگوں نے تو مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کی املاک کو تباہ کرنے والی پولیس کے ویڈیوز بھی شیئر کیے تھے۔ ان ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اہلکار خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف غیرمہذب زبان استعمال کر رہے ہیں۔
این ایچ آر سی نے پولیس کارروائی میں زخمی ہونے والے لوگوں کی گواہی بھی ریکارڈ کی۔
کانپور اور فیروز آباد میں پولیس کی فائرنگ سے زخمی ہونے والے کچھ لوگوں کو بعد میں نوٹس موصول ہوئے، جن میں ان پر سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور پولیس کو بھاری رشوت دینے کا الزام لگایا گیا تھا۔
سی اے اے مخالف مظاہروں کے بعد سے ان دو سالوں میں، متاثرہ خاندانوں کو انتظامیہ اور پولیس حکام کی طرف سے بار بار دھمکیاں دی جا رہی ہیں اور انہیں پوسٹ مارٹم رپورٹ تک نہیں دی جارہی ۔
ان لوگوں کا الزام ہے کہ انہیں کئی بار وارننگ دی گئی ہے کہ وہ پولیس کے خلاف کچھ نہ بولیں اور انصاف کے لیے دوسرے شہروں میں نہ جائیں۔
این ایچ آر سی کی تفتیشی ٹیم نے ان لوگوں کے بیانات بھی لیے ہیں جنہیں جھوٹے الزامات میں گرفتار کیا گیا اور پولیس حراست میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا جبکہ ان لوگوں کی میڈیکل رپورٹس میں تشدد کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
ان لوگوں کی گواہیاں بتاتی ہیں کہ ان کے اختلاف کو دبانے اور مسلمان ہونے کی وجہ سے انہیں کس حد تک اذیتیں دی گئیں۔
ان میں سے کچھ لوگوں نے سی اے اے مخالف مظاہروں میں حصہ تک نہیں لیا تھا، لیکن پھر بھی انہیں آدھی رات کو ان کے گھروں سے اٹھا لیا گیا۔ جو لوگ پولیس کی حراست میں تھے انہیں دھمکیاں دی گئیں۔ اس طرح کی دھمکیاں کئی اضلاع کے پولیس والوں نے دی تھیں۔
انصاف سے محروم
فروری 2020 میں، اتر پردیش حکومت نے الہ آباد ہائی کورٹ کے سامنے اعتراف کیا کہ دسمبر 2019 میں سی اے اے مخالف مظاہروں کے دوران 22 لوگوں کی موت ہوئی تھی۔
حالاں کہ، دو سال گزرنے کے باوجود وکلاء اور کارکنوں کی جانب سے انصاف کا مطالبہ کرنے کے باوجود اس معاملے میں ملزم پولیس اہلکاروں کے خلاف ایک ایف آئی آر تک درج نہیں ہو سکی۔
میرٹھ، بجنور اور کانپور میں متاثرین کے اہل خانہ نے پولیس کے اعلیٰ حکام کو خط لکھ کر اور سی آر پی سی کی دفعہ 156(3) کے تحت درخواستیں داخل کرکے ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی۔
دراصل سی آر پی سی کی اس دفعہ کے تحت پولیس کومجسٹریٹ کے حکم کی بنیاد پر ایف آئی آر درج کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے، لیکن ابھی تک اس معاملے میں کوئی ایف آئی آر درج نہیں ہوئی ہے۔
فیروز آباد میں ایک ایف آئی آر درج کی گئی لیکن پولیس کا دعویٰ ہے کہ ملزم نامعلوم فسادی ہے۔ اس معاملے میں این ایچ آر سی کے آرڈر کا انتظار ہے اور اہل خانہ کو انصاف کی امید ہے۔
(ایمن خان کوئل فاؤنڈیشن، نئی دہلی میں ریسرچ اسکالر ہیں۔)
(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)
Categories: خبریں