معاملہ اُڈپی کےگورنمنٹ ویمنس پی یو کالج کا ہے۔ چھ مسلم طالبات نے الزام لگایا ہےکہ پرنسپل انہیں کلاس میں حجاب پہننے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں اُردو، عربی اور بیری زبان میں بات کرنے کی بھی اجازت نہیں دی جارہی ہے۔ پرنسپل کا کہنا ہے کہ طالبات کیمپس میں حجاب پہن سکتی ہیں،لیکن کلاس روم میں اس کی اجازت نہیں ہے۔
نئی دہلی: کرناٹک کے اڈپی میں ویمنس پی یو کالج کی چھ مسلم طالبات نے الزام لگایا ہے کہ پرنسپل انہیں کلاس میں حجاب پہننے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔
انہوں نے یہ بھی شکایت کی کہ انہیں اُردو، عربی اور بیری زبان میں بات کرنے کی اجازت نہیں دی جارہی۔ لڑکیاں تین دنوں سے کلاس کے باہر احتجاج کے طور پر کھڑی ہیں۔
طالبات نے دعویٰ کیا کہ ان کے والدین نے پرنسپل رودر گوڑا سے بھی رابطہ کیا، لیکن انہوں نے اس مسئلہ پر بات کرنے سے انکار کردیا۔
لڑکیوں نے بتایا کہ گزشتہ تین دنوں سے ان کی حاضری بھی درج نہیں کی جارہی ہے اور انہیں ڈر ہے کہ اس سے کالج میں ان کی حاضری کم ہو سکتی ہے۔
دوسری طرف کالج کے پرنسپل رودرا گوڑا نے کہا کہ طالبات کیمپس میں حجاب پہن سکتی ہیں لیکن کلاس روم کے اندر اس کی اجازت نہیں ہے۔ کلاس روم میں یکسانیت کو یقینی بنانے کے لیے اس اصول پر عمل کیا جا رہا ہے۔
پرنسپل نے کہا کہ اس معاملے پر جلد ہی والدین اور اساتذہ کی میٹنگ بھی بلائی جائے گی۔
دریں اثنا، سوشل ڈیموکریٹک پارٹی آف انڈیا(ایس ڈی پی آئی)اڈپی یونٹ کے صدر نذیر احمد نے کہا کہ اگر طالبات کو حجاب پہن کر کلاس میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دی گئی تو وہ احتجاجی مظاہرہ کریں گی۔
ہندوستان ٹائمس کے مطابق ،ایک طالب علم نے میڈیا کو بتایا کہ ،’ہمیں اپنے والدین کو کالج لانے کے لیے کہا گیا تھا، لیکن جب وہ پہنچے تو اسکول حکام نے انھیں تین سے چار گھنٹے تک انتظار کرایا۔’
ایک اور طالبہ کا کہنا تھا کہ ‘حجاب پہننے سے پہلے سب کچھ ٹھیک تھا لیکن اب ہمارے ساتھ اس طرح کاامتیازی سلوک کیا جا رہا ہے۔’
کالج کے پرنسپل رودرا گوڑا نے کہا، ہمارے اسکول کے قوانین میں حجاب کو یونیفارم کے طور پر رکھنے کا کوئی اہتمام نہیں ہے۔ پچھلے تین دنوں سے 60 مسلم طالبات میں سے چھ حجاب پہن کر کالج پہنچ رہی ہیں۔ اس لیے ہم نے انہیں کلاس میں جانے کی اجازت نہیں دی۔ اگر وہ حجاب ہٹا دیں تو وہ کلاسز میں شرکت کر سکتی ہیں۔ ہم نے ان کے گھر والوں کو بلایا اور اس معاملے پر بات کی ہے۔
سنیچرکو کالج کے کچھ طلبہ اور یک وفد نےاسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کے کچھ ممبران کےساتھ اس معاملے کو لے کر ڈسٹرکٹ کلکٹر کرما راؤ سے رابطہ کیا۔ جن پانچ لڑکیوں کو کلاس میں داخلے سے روکا گیا وہ اس وفد کا حصہ تھیں۔
یہ معاملہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کرناٹک حکومت تبدیلی مذہب مخالف بل لانے پر زور دے رہی ہے۔اس بل کوابھی قانون بننا ہے کیونکہ اسے قانون ساز کونسل سے پاس ہونا باقی ہے۔
چیف منسٹر بسواراج بومئی نے بل کو آئینی اور قانونی قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ اس بل کا مقصد تبدیلی مذہب کے خطرے سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کےان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں