وزیر اعظم کی خوبی یہ ہے کہ وہ جب بھی کسی ناخوشگوار صورتحال کا سامناکرتے ہیں تو کسی نہ کسی طرح ان کی جان خطرے میں پڑ جاتی ہے۔ جب سے وہ وزیر اعلیٰ ہوئےتب سے اب تک کچھ وقت کے بعد ان کے قتل کی سازش کی کہانی کہی جانے لگتی ہے۔ لوگوں کو گرفتار کیا جاتا ہے، لیکن کچھ ثابت نہیں ہوتا۔ پھر ایک دن ایک نئے خطرے کی کہانی سامنے آجاتی ہے۔
‘خدا کا شکر ہے کہ وزیر اعظم محفوظ ہیں۔’ ٹیلی گراف نے طنزیہ سرخی لگائی۔
‘وزیراعظم نے پاکستان، خالصتان کے حامیوں اور کانگریس کی سازش کو ناکام بنایا’۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے ایک ویڈیو جاری کرکےدعویٰ کیا۔وہ سچ بتلانے کے لیےلوٹ آئے۔ ڈرامائی انداز میں ویڈیو پوچھتا ہے کہ اگر وزیراعظم اس راستے پر آگے بڑھتے تو کیا ہوتا؟ دنگا؟ حملہ؟ تشدد، خون خرابہ؟ وزیراعظم کے قتل کی سازش؟
کیا وزیراعظم پر کوئی حملہ ہوا؟ کیا کہیں کوئی محاصرہ تھا؟ کیا وہ کسی پرتشدد ہجوم کے بیچ سے بچ کر نکل آئے؟انہوں نےآخر پاکستان اور خالصتان کے حامیوں اور کانگریس کی سازش کو کیسے ناکام بنایا؟
یہ سوال آج کے ہندوستان میں بیکار ہیں۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ اپنی پارٹی کے سیاسی اجلاس میں جو سیاستدان جارہا تھا، اس کی مخالفت کا حق پنجاب کے کسانوں کو کیوں نہیں ہے۔ جمہوریت میں عوام کو وزیراعظم کے خلاف احتجاج کا حق نہیں ہے، یہ کس آئین میں لکھا ہے؟
وزیر اعظم کی ہر مخالفت ان کی سلامتی کے لیے خطرہ کیوں ہے؟ دنیا کی ہر جمہوریت میں سربراہ مملکت کے سامنے اس کے خلاف مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔ امریکہ میں، آپ وہائٹ ہاؤس کے سامنے احتجاج کر سکتے ہیں۔ کیااس سے امریکی صدر کی جان کو خطرہ ہونے کا شورآپ نے کبھی سنا ہے؟
اتنا ہنگامہ کیوں برپاہے؟ ہوا توبس یہی تھا نہ کہ نریندر مودی اپنی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کرنے سڑک کے راستے جا رہے تھے اور کسان راستہ گھیر کر بیٹھے تھے۔ یہ احتجاج وہ کسانوں کی تحریک کے دوران ہونے والی اموات اور وزیر مملکت برائے داخلہ کے بیٹے کے ہاتھوں کسانوں کی ہلاکت کا حساب لینے کےمطالبہ کے ساتھ کر رہے تھے۔ احتجاج اس لیے بھی ہوا کہ کسانوں کی موت پر وزیر اعظم نے اپنے ایک گورنر سے کہا کہ کیا وہ ان کے لیےمرے تھے کہ وہ کچھ کریں!
کیا ہندوستان کے خودمختار ووٹر کو اپنی حکومت کے سربراہ کو پابند کرنے کا حق نہیں ہے؟ یہ کون سا جمہوری قانون ہے کہ اگر عوام وزیراعظم کے سامنے آجائے گی تو ان کی جان کو خطرہ ہوجائے گا؟
لیکن نریندر مودی اور ان کی پارٹی کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم عوام کے اوپر ہے۔ جب وہ گزرے توسڑک عوام سے صاف دکھائی پڑنی چاہیے۔ اسےصرف جئے کارسننی ہے، احتجاجی نعرے گستاخی ہیں۔
چوں کہ کسان راستہ روک کر بیٹھے تھے، وزیر اعظم کے قافلے کو ایک کیلومیٹر پہلے ہی روک دیا گیا۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ان سے کچھ وقت مانگا گیاکہ کسانوں کو ہٹایا جا سکے، انہیں متبادل راستہ بتایا گیالیکن وزیر اعظم نے گاڑی واپس گھمالی۔
اسے کہا جا رہا ہے کہ وہ بچ کر آگئے، کچھ بھی ہو سکتا تھا، کہ انہوں نے پاکستان کی سازش کو ناکام بنا دیا۔ جیسے آپ کی مخالفت کررہی عوام سےمنھ چراکر بھاگ آنامورچہ فتح کرنے کی بہادری ہو۔
اس پورےمعاملے میں سکیورٹی میں کوتاہی کہاں ہے؟ اس میں سازش کہاں ہے؟ کیوں سارا میڈیاایک سُر میں اس کووزیر اعظم کی سکیورٹی کےساتھ کھلواڑ بتا رہا ہے؟ کیوں سپریم کورٹ اس معاملے کو فوری سماعت کے لیے ترجیح دے رہی ہے؟
معاملہ بہت صاف ہے۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ نے کہا کہ اصل بات یہ تھی کہ وزیراعظم کو خبر مل گئی تھی کہ لوگ جلسے میں نہیں آرہے ہیں۔ وہاں جا کر خالی گراؤنڈ سے پتہ چل جاتا کہ پنجاب میں ان کا خیرمقدم نہیں ہے۔اس ذلت سے بچنے کا ایک شاطرانہ طریقہ یہ تھا کہ پورے معاملے کو ڈرامائی موڑ دیا جائے۔
میڈیا تیار بیٹھا ہے۔ ہر اخبار کا اداریہ یہ رہا ہے کہ وزیر اعظم آخر وزیر اعظم ہوتا ہے۔ وہ سیاست سےاوپر ہوتا ہے وغیرہ وغیرہ۔
نریندر مودی لیکن کبھی وزیر اعظم رہے نہیں۔ وہ ریاست اور ٹیکس دہندگان کے پیسے پر گزشتہ 7 سالوں سے اپنی پارٹی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے پرچار کا ہی کام کر رہے ہیں۔ انہیں کبھی کسی نے نہیں کہا کہ وہ ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے انہی کے خلاف مہم نہیں چلا سکتے۔
اس جانب بھی توجہ مبذول کرائی گئی کہ یہ بی جے پی اور اس وزیر اعظم ک خوبی ہے کہ جب بھی وہ کسی ناخوشگوار صورتحال کا سامنا کرتے ہیں تو ان کی جان کو کسی نہ کسی طرح خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔جب سے وہ گجرات کے وزیر اعلیٰ ہوئے تب سے اب تک کچھ وقت کےان کے قتل کی سازش کی کہانی کہی جانے لگتی ہے۔ لوگ گرفتار ہوتے ہیں، کچھ ثابت نہیں ہوتا، نئے خطرے کی سازش کی کہانی سامنے آ جاتی ہے۔
ابھی دھرم سنسد، مسلم خواتین کی نیلامی جیسے معاملوں میں حکومت کی خاموشی کی وجہ سے پوری دنیا میں نریندر مودی حکومت کی سخت تنقید کی جارہی تھی۔ پنجاب کے کسان ان سے ناراض ہیں ہی۔ اس ماحول کو بدلنے کا ایک ہی راستہ تھا: وزیراعظم کی جان کو خطرے کا ڈرامہ!
لیکن ایک واقعہ اور ہے۔ وہ یہی پنجاب، اتراکھنڈ اور اتر پردیش کا انتخاب۔ اتر پردیش اور اتراکھنڈ کے ہندو ووٹر کو خالصتانی خطرے کا بھوت دکھانے پر وہ شایدڈر کے مارے بی جے پی کے سینےسے چمٹ جائے، کوشش یہی ہے۔ کسانوں کی تحریک کے دوران بی جے پی نے خالصتانی پریت کو اپنے ووٹروں میں زندہ کر دیا ہے۔ وہ اس کا استعمال کرکے ملک کوبچانے کے نام پر ووٹ حاصل کرناچاہتی ہے۔
دوسری بات یہ کہ معاملے کو اتنابھیانک بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پنجاب کو کسی طرح وفاقی کنٹرول میں لے لیا جائے۔ تمام وفاقی ریاستی ادارے متحرک ہو چکے ہیں۔ ایسے دکھایا جا رہا ہے جیسے ریاست ان کے کنٹرول میں ہے۔ بی جے پی کے اتحادی کیپٹن امریندر سنگھ نے صدر راج نافذ کرنے کا مطالبہ کر ہی ڈالا ہے۔
جیسا کہ پریتم سنگھ نے دی وائر میں لکھا ہے کہ بی جے پی کی سیاست کے لیے پنجاب پر قبضہ بہت ضروری ہے۔ پنجاب کی وجہ سے اسے زرعی قوانین واپس لینے پڑے ہیں۔ یہ قوانین اس کارپوریٹ سرمائے کی توسیع کے لیے ضروری ہیں جس نے ہندوستان کو تقسیم کرنے والی بی جے پی کو اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے۔
اگر ان کو واپس لانا ہے تو پنجاب کو کنٹرول کرنا، اس کی کسان تنظیموں کو توڑنا ضروری ہے۔ وہ پنجاب کو کنٹرول کرنے کے بعد ہی ہو سکتا ہے۔ کیایہ پورا ڈرامہ اس کی ایک سازش ہے؟ وزیراعظم کی سکیورٹی کے بہانے پورا میڈیا، بیوروکریسی، پولیس اور عدلیہ بھی اس کا راستہ ہمورار کرے گی؟
اس کا فائدہ جیسا کہ ہم نے کہا، باقی ریاستوں بالخصوص اتر پردیش میں، خالصتان اور پاکستان کا خوف پیدا کرکے محب وطن عوام میں سکھ دشمنی کو ہوا دے کر اٹھایا جائے گا۔ بی جے پی پہلے بھی ایسا کر چکی ہے۔
وہ شمالی ہندوستان میں کیرالہ، تمل ناڈو، بنگال کے خلاف مہم چلاتی رہی ہے۔ سکھوں کے خلاف ایک تعصب 40 سالوں سے ہندوؤں کے ذہن میں ہے۔ اس ڈرامے سے اس تعصب کو ہوا دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ ڈرامہ مضحکہ خیز ہے۔ہنسا جا سکتا تھا اگر اس کے پیچھے جمہوریت کے اغوا کا شیطانی ذہن نہ ہوتا ۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر