شوپیاں کےایگزیکٹیو مجسٹریٹ نےگرفتاری وارنٹ جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ گوہر گیلانی لگاتارعوامی امن وامان کو متاثرکر رہے ہیں۔ انہیں 7 فروری کو عدالت میں پیش ہونے کے لیے بلایا گیا تھا، لیکن وہ حاضر نہیں ہوئے۔
مقامی انتظامیہ نے جمعرات کو جموں و کشمیر پولیس کو ہدایت دی ہے کہ سری نگر کےصحافی اورمصنف گوہر گیلانی کوگرفتار کرنے کےبعد 19 فروری کو جنوبی کشمیر کے شوپیاں میں ایگزیکٹو مجسٹریٹ (تحصیلدار)کے سامنے پیش کیا جائے۔
گوہر جرمن میڈیا ادارے ڈوئچے ویلے اور دی فیڈرل سے وابستہ ہیں۔ انہیں3 فروری کو شوپیاں کے تحصیلدار کے سامنے پیش ہونے کے لیےسمن جاری کیا گیا تھا،جس میں انہیں ضابطہ فوجداری1973 کی دفعہ 107 کے تحت 7 فروری کو پیش ہونا تھا۔
یہ سیکشن مجسٹریٹ کو اختیار دیتا ہے کہ وہ ایسے کسی شخص سے بانڈ بھروا سکتے ہیں یا تحریری بیان لےسکتے ہیں جس سے امن کی خلاف ورزی کا خدشہ ہو۔ قانون کے مطابق، بانڈ کی مدت ایک سال سے زائدنہیں ہو سکتی۔ اظہار رائے کی آزادی کےحق میں سرگرم کارکن اسے کسی کی آواز کو زبردستی دبانے کا ایک طریقہ قرار دیتے ہیں۔
شوپیاں مجسٹریٹ کی جانب سے جاری کردہ گرفتاری وارنٹ میں لکھا ہےکہ دفعہ 107 کے تحت دیے گئے نوٹس پر گوہر نذیر گیلانی پیش نہیں ہوئے، اس لیے انہیں گرفتار کرکے عدالت میں پیش کیا جائے۔
گرفتاری وارنٹ میں درج ہے کہ گیلانی کے خلاف سی آر پی سی کی دفعہ 151 لگائی گئی ہے۔ جبکہ 3 فروری کے نوٹس میں صرف دفعہ 107 کا ذکر تھا۔
دفعہ 151 کے تحت کسی شخص کو احتیاط کے طو رپرحراست میں لیا جا سکتا ہے۔ اگر گیلانی کی بات کریں تو ان پر یو اے پی اے کے تحت بھی مقدمہ درج ہو چکا ہے۔ اس میں حراست کی مدت غیر معینہ مدت تک بڑھائی جا سکتی ہے۔
مرکزی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کوختم کرنے اورسابقہ ریاست کو دو یونین ٹریٹری میں تقسیم کرنے کے بعد سے ریاست کےدو سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر عبداللہ سمیت ریاست کے سرکردہ رہنماؤں کے خلاف بھی سی آر پی سی کےانہی دونوں دفعات کا استعمال کیا گیا تھا۔
مقبول کتاب کشمیر: ریج اینڈ ریزن کے مصنف گیلانی کے خلاف قانونی کارروائی اس وقت ہوئی جب انہوں نے یکم فروری کو ایک مقامی اخبار کی ایک اسٹوری کو ٹوئٹ کیا۔ یہ خبر شوپیاں کے امشی پورہ گاؤں میں دہشت گردانہ حملے سےمتعلق تھی، جس میں ایک پولیس اہلکار شبیر احمد واگے زخمی ہوگئے تھے۔
گیلانی نے اپنے ٹوئٹ میں لکھا تھا،مشتبہ مسلح باغیوں نے شوپیاں کےامشی پورہ کےرہائشی پولیس اہلکار شبیرکو گولی مار کر شدیدطور پرزخمی کر دیا۔ انہیں ڈسٹرکٹ ہسپتال شوپیاں منتقل کیا گیا،جہاں سے انہیں بہتر علاج کے لئے ایس ایم ایچ ایس ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔
بعد میں انہوں نے اپنا ٹوئٹ ڈیلیٹ کر دیا تھا۔
دو دن بعدہی انہیں ایگزیکٹو مجسٹریٹ نےسمن جاری کردیا،جس میں کہا گیاہےکہ انہوں نے سوشل میڈیا پر ایسی معلومات شیئر کی ہیں،جس سے زخمی شخص اور دیگر افراد کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا؛ نیزاس کی تشہیرسےسلامتی اور امن وامان کےلیے ایک سنگین صورتحال پیدا ہو گئی ہے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نےخدشہ ظاہر کیا کہ گیلانی مستقبل میں بھی ایسا کرتے رہیں گے۔
جموں و کشمیر پولیس کو گیلانی کی گرفتاری کا حکم دیتے ہوئےمجسٹریٹ نےان کے خلاف درج پرانے معاملوں، یو اے پی اے اور آئی پی سی سیکشن505 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ گیلانی پہلے بھی ایسا کرتے رہے ہیں۔
بتادیں کہ آرٹیکل370 ہٹائےجانےکےبعد سے گیلانی مرکزی حکومت اور جموں و کشمیر انتظامیہ کی پالیسیوں کے سخت ناقد رہے ہیں۔ اس حوالے سے وہ سوشل میڈیا پر مسلسل لکھتے رہے ہیں، لیکن جب سے مجسٹریٹ نے انہیں سمن جاری کیا ہے، ان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر کوئی سرگرمی نظر نہیں آئی۔
اس سے قبل 2020 میں جموں و کشمیر پولیس نے سوشل میڈیا پر گیلانی کی سرگرمیوں کی وجہ سے ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا تھا اور ان کی پوسٹ کو ہندوستان کی قومی سالمیت، خودمختاری اور سلامتی کے لیے خطرہ بتایاتھا۔
گیلانی کے علاوہ ایک اور کشمیری صحافی مسرت زہرہ، جو اب جرمنی میں مقیم ہیں،کے خلاف سوشل میڈیا پر’ملک مخالف، اشتعال انگیز اور قابل اعتراض‘مواد پوسٹ کرنے کاالزام لگایا تھا۔
اس سےقبل 31 اگست 2019 کو گیلانی کو دہلی کےاندرا گاندھی انٹرنیشنل ہوائی اڈے پر امیگریشن حکام نےاس وقت روک لیاتھاجب وہ ڈوئچے ویلے کے ایڈیٹر کے طور پر ایک تربیتی پروگرام میں شرکت کے لیے جرمنی جا رہے تھے۔
غورطلب ہے کہ گیلانی کے خلاف گرفتاری وارنٹ جموں و کشمیر پولیس کی طرف سےکشمیر والا کے ایڈیٹر فہد شاہ کی گرفتاری کے کچھ ہی دن بعد آیا ہے۔
شاہ کی گرفتاری کے خلاف ملک بھر میں احتجاج کیا گیا تھا۔ ایڈیٹرز گلڈ آف انڈیا سمیت ملک اور دنیا بھر کی50 سے زیادہ آزادی صحافت کی تنظیموں، انسانی حقوق کی تنظیموں اور میڈیا پبلی کیشنز نے احتجاج کیاتھااور جموں و کشمیر کے لیفٹیننٹ گورنر منوج سنگھا کو خط لکھ کر شاہ کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔
اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔
Categories: خبریں