گزشتہ 15 مارچ کو کرناٹک ہائی کورٹ نے حجاب تنازعہ سے متعلق ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ حجاب پہننا اسلام میں ضروری مذہبی روایت کا حصہ نہیں ہے اور ریاست میں تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو برقرار رکھا تھا۔ اس کے بعد کرناٹک حکومت نے واضح کیا تھا کہ سب کو ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنا ہو گا، ورنہ امتحان دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
نئی دہلی: تعلیمی اداروں میں حجاب پر کرناٹک حکومت کی پابندی کو برقرار رکھنے کے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد سیکنڈری اسکول لیونگ سرٹیفکیٹ امتحان (ایس ایس ایل سی یا دسویں بورڈ امتحان) سوموار یعنی 28 مارچ کو ریاست میں شروع ہوا۔اس دوران حجاب میں ملبوس طالبات کو امتحانات کے مراکز پر روکے جانے کی اطلاعات ہیں۔
واضح ہوکہ ان مسلم طالبات کو ہائی کورٹ کے حالیہ فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے مرکز پر داخلے سے روک دیا گیا۔ ذرائع نے بتایا کہ زیادہ تر مسلم طالبات نے حجاب کے بغیر امتحان دینے کا انتخاب کیا اور کہا کہ امتحان میں شرکت کرنا ان کے لیے امتحان ہال میں سر ڈھانپنے سے زیادہ اہم ہے۔
ہبلی ضلع کے ایک اسکول کے مرکز پرامتحان دینے آئی حجاب میں ملبوس مسلم طالبات کو واپس بھیج دیاگیا۔ تاہم، بعد میں جب وہ اسکول یونیفارم میں آئیں تو انہیں امتحان میں شرکت کی اجازت دی گئی۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، کرناٹک حکومت کے ایک سینئر افسر دھارواڑ موہن کمار نے بتایا، وہ سول ڈریس میں امتحان دینے آئی تھیں۔ انہوں نے ڈریس کوڈ پر عمل نہیں کیا اور انہوں نےبرقعہ پہن رکھا تھا۔ ہم نے ان سے کہا کہ انہیں ہائی کورٹ کے حکم پر عمل کرنا ہوگا۔ اس کے بعد انہوں نے کپڑے بدلے اور اب وہ اپنا امتحان دے رہی ہیں۔
اسی طرح کا منظر باگل کوٹ ضلع کے ایلکل نگر کے ایک سرکاری اسکول میں دیکھا گیا جہاں مسلم طالبات کو ایس ایس ایل سی امتحان دینےسے منع کر دیا گیا۔ جب انہیں برقعہ تبدیل کرنے کو کہا گیا تو انہوں نے امتحان نہ دینے کا فیصلہ کیا۔
خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی نے بتایا تھا کہ ہائی کورٹ کے فیصلے کے اعلان کے بعد کچھ مسلم طالبات نے احتجاج کے طور پرامتحان کا ‘بائیکاٹ’ کرنے کی بات کہی تھی۔
دریں اثنا بنگلورو میں ڈیوٹی پر حجاب میں ملبوس ایک سپروائزر کو سسپنڈ کر دیا گیا ہے۔
واضح ہو کہ 15 مارچ کو کرناٹک ہائی کورٹ نے کرناٹک کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر تنازعہ سے متعلق ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا تھا کہ حجاب پہننا اسلام میں ضروری مذہبی روایت کا حصہ نہیں ہے اور اس نےکلاس میں حجاب پہننے سے متعلق مسلم طالبات کی عرضیوں کو مسترد کر دیاتھااور ریاست کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی برقرار رکھی گئی تھی۔
اس کے بعد کرناٹک حکومت نے واضح کیا تھا کہ سب کو ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل کرنا ہو گا، ورنہ امتحان دینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
تین ججوں کی بنچ نے کہا تھاکہ اسکول یونیفارم کا اصول ایک معقول پابندی ہے اور آئینی طور پر تسلیم شدہ ہے، جس پر طالبات اعتراض نہیں کر سکتیں۔ بنچ نے یہ بھی کہا تھا کہ حکومت کے پاس 5 فروری 2022 کےسرکاری فیصلے کو جاری کرنے کا اختیار ہے اور اسے غیرقانونی قرار دینے کا کوئی معاملہ نہیں بنتاہے۔ اس فیصلے میں ریاستی حکومت نے ایسے لباس پہننے پر پابندی عائد کردی ہے جو اسکولوں اور کالجوں میں مساوات، سالمیت اور امن عامہ کو متاثر کرتے ہیں۔
مسلم لڑکیوں نے اس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جس پر ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا تھا۔ تاہم اسی دن اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج دیا گیا تھا۔
اتناہی نہیں، 25 مارچ کو کرناٹک کے پرائمری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ نے ایک سرکلر جاری کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ سرکاری اسکولوں کے طلبا کو امتحان میں شرکت کے لیے حکومت کی طرف سے مجوزہ یونیفارم پہننا ہوگا۔
سرکلر کے مطابق، امداد یافتہ اور غیر امدادیافتہ دونوں طرح کےپرائیویٹ اسکول کے طلبا کو اسکول انتظامیہ کی طرف سے مجوزہ یونیفارم پہننا ہوگا۔پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے انڈر سکریٹری وی سرینواس مورتی کے دستخط شدہ سرکلر میں 5 فروری کے گورنمنٹ آرڈر (جی او) کا بھی حوالہ دیا گیا ہے۔
ریاستی حکومت کے وزراء نے ان جذبات کی نمائندگی کی، وزیر داخلہ اراگا گیانندرا نے کہا کہ جو بھی قواعد کی خلاف ورزی کرے گا اسے کارروائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ ہائی کورٹ کے احکامات پر سب کو عمل کرنا چاہیے۔ طالبات کو حجاب اتار کر امتحان دینا ہو گا۔
اسی طرح پرائمری اور سیکنڈری ایجوکیشن کے وزیر بی سی ناگیش نے کہا،سرکاری قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے کسی بھی شخص کے خلاف پولیس فطری طور پر کارروائی کرے گی۔ مجھے یقین ہے کہ کوئی بچہ ایسی باتوں کا موقع نہیں دے گا۔
ریاست میں اس کے 3440 مراکز پر کل 8.74 لاکھ طلبا دسویں جماعت کے بورڈ کے امتحانات میں شرکت کریں گے۔ امتحانات 11 اپریل کو ختم ہوں گے۔
امتحان شروع ہونے سے پہلے ہی 24 مارچ کوسپریم کورٹ نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کی فوری سماعت کے لیے عرضیوں کو خارج کر دیا تھا۔ درخواست کو خارج کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے کہا تھا، اس کا امتحان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اسے سنسنی خیز مت بنائیے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)
Categories: خبریں