ملک میں جہاں ایک طرف نفرت کے علمبردار فرقہ واریت کی خلیج کو مزید گہرا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، وہیں دوسری طرف ان کی بھڑکانے اور اکسانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود عام لوگ فرقہ وارانہ خطوط پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نہیں ہو رہے بلکہ ان کے منصوبوں کو سمجھ کرزندگی کی نئی سطحوں کوتلاش کرنے کی سمت میں بڑھن رہے ہیں۔
کیا طرح طرح کی نفرت کے کھیلوں سے پریشان اس ملک کے مسکرانے کےدن آنے والے ہیں؟ امید تو جاگ رہی ہے۔ کیونکہ ایک طرف نفرت کے علمبردار لال قلعہ کو بھی نفرت کی علامت بنانے کے درپے ہیں تو دوسری طرف اہل وطن نے نہ صرف اپنے صبر کی انتہا کر دی ہے بلکہ ان کے خلاف آواز اٹھا کر ان کے عزائم کو پانی پلانابھی شروع کر دیا ہے۔
بلاشبہ، ہمیں ان احتجاجی آوازوں کو ٹھیک سے سمجھنے کی ضرورت ہے، امید سے دیکھنے اور ان کے سُر میں سُر ملانے کی ضرورت ہے۔
اس ملک کے پاس لال قلعہ کو یاد کرنے کی متاثر کن وجوہات کی کبھی کوئی کمی نہیں رہی۔ مغل حکمراں شاہ جہاں کے زمانے میں 1638 اور 1649 کے درمیان 254. 67 ایکڑ اراضی پر تعمیر کیا گیا یہ قلعہ جہاں کئی بیرونی حملوں کے ساتھ ہماری جدوجہد آزادی کا بھی گواہ رہا ہے۔ ہاں، 1739 کی اس تاریک گھڑی کا بھی، جب وحشی حملہ آور نادرشاہ نے ایک ہولناک قتل عام کے دوران اس کے کوہ نور سے جڑے تخت طاؤس کو لوٹ لیا تھا۔
یہاں تک کہ 1857 کے اس لافانی لمحے کا بھی، جب میرٹھ سے آئے باغی سپاہیوں کی درخواست پر آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر نے پہلی جدوجہد آزادی کی قیادت قبول کی تھی۔ اگر وہ جدوجہد ناکام ہوئی تو بدقسمت ظفر رنگون جلاوطنی تک اسی قلعہ میں قید رہے۔ لیکن ظفر تو ظفر، خود انگریز اس قلعے کو ہندوستانی قومی فخر کی ایسی علامت سمجھتے تھے کہ جب تک اس پر یونین جیک نہیں لہرایا، وہ خود کو ہندوستان کا حکمران نہیں مان سکے تھے۔
سن 1945 میں انہوں نے نیتا جی سبھاش چندر بوس کی آزاد ہند فوج کے گرفتار جنگجوؤں اور سپاہیوں کے خلاف اسی قلعے میں مقدمہ چلایا، جو بالآخر لال قلعے سے آئی آواز – سہگل، ڈھلون، شاہنواز’ جیسے نعروں تک جا پہنچا تھا۔
پندرہ اگست 1947 کو آزادی ملی اور اگلے دن ملک کے پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے اس قلعے کی فصیل پر پہلا ترنگا لہرایا تو ملک کی خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا۔ اس کے بعد سے ہر 15 اگست کو وزرائے اعظم کے ذریعے اس پر ترنگا لہرانے کی روایت ہے۔
لیکن اب حکمرانوں کی کھلم کھلا حمایت یافتہ نفرت کے علمبرداروں کو یہ یادیں اپنے کھیل کے لیے مفید نہیں لگ رہی ہیں۔ ویسے بھی نفرت کے سفر کودشمنی کی یاد دلاتیں بدلہ لینے کے لیے اکساتی یادیں ہی خوشگواربناتی ہیں۔ اس لیے وہ یہ یاد دلانے پراتر آئے ہیں کہ یہ وہی قلعہ ہے جہاں مغل بادشاہ اورنگ زیب نے 1675 میں سکھوں کے نویں گرو تیغ بہادر کے خلاف ‘فرمان’ جاری کیا تھا،اور خوب ستائے جانے کے بعدجن کا سر قلم کر دیا گیا تھا۔
یہی یاد دلانے کے لیےگزشتہ دنوں مرکزی وزارت ثقافت نے دہلی سکھ گوردوارہ پربندھک کمیٹی کے ساتھ قلعہ کے لان میں گرو تیغ بہادر کے 400 ویں ‘پرکاش پرو’ کا اہتمام کر کے مذہبی پروگراموں کے لیے اس کے استعمال کی روایت ڈال دی گئی ۔
حالاں کہ قلعہ کے پاس ہی چاندنی چوک کے قریب واقع گوردوارہ سیس گنج صاحب اس تقریب کے لیے زیادہ موزوں تھا، جہاں گرو کا سرقلم کیا گیا تھا۔ لیکن کہا جاتا ہے کہ وزارت ثقافت سمجھ گئی تھی کہ اگر تقریب وہاں ہوئی تو اس کا یہ ‘مقصد’ پورا نہیں ہوگاکہ لال قلعہ کو سکھ مغل دشمنی سے جوڑ کر جدوجہد آزادی کی مشترکہ اقدار کی علامت والی اس کی شناخت کو تبدیل یا داغدار کردیا جائے!
کون کہہ سکتا ہے کہ بادشاہت خواہ وہ کسی بھی مذہب یا فرقے سے تعلق رکھتے ہوں، اپنے دور میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ظلم و ستم کا سہارا نہیں لیتی تھی یا قتل و غارت، ناانصافی، جبر، استحصال اور جبر سے گریز کرتی تھیں۔ اگر ایسا ہوتا تو ہماری تاریخ میں سر قلم کرنے اور تلواریں بھونکنے کے واقعات ہوتے ہی نہیں۔
لیکن اس کے ساتھ یہ بھی کون کہہ سکتا ہے کہ آج، جب ہم ان بادشاہوں اور شہنشاہوں کو تاریخ میں دفن کر چکے ہیں تو ان کے کسی بھی عمل کو دو برادریوں کی دشمنی کے طور پر یاد کرتے ہوئے ان کے حال سے بدلہ لینے کی اجازت دی جانی چاہیے۔
لیکن ہم خوش ہو سکتے ہیں کہ جب نفرت کے علمبردار ایسی تمام باتوں کو پس پشت ڈال دینا چاہتے ہیں، ان کی بھڑکانے، گمراہ کرنے اور اکسانے کی تمام تر کوششوں کے باوجود اہل وطن مذہبی یا فرقہ وارانہ خطوط پر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نہیں ہو رہے، بلکہ ان کے منصوبوں کو سمجھ کر زندگی کی ایک نئی سطح تلاش کرنے کی طرف بڑھنے لگے ہیں۔
انہیں اس بات کی پرواہ نہیں کہ خود کو مذہبی پیشوا کہلوانے والے بعض حضرات کسی مذہبی کمیونٹی کی نسل کشی کی اپیل تک جاپہنچے ہیں، جبکہ بلڈوزر کا کلچر ملک کی جمہوریت کو نئے سرے سے پیش کرنے لگا ہے۔
فی الحال، اس سلسلے میں سب سے اچھی خبریں گزشتہ ہنومان جینتی پر ہوئے فرقہ وارانہ تشدد اور اس کے بعد سرکاری بلڈوزر کے دو پاٹوں کے بیچ پسنے کو مجبور کر دیے گئے دارالحکومت دہلی کے جہانگیر پوری سے آرہی ہیں۔
وہاں کے ہندوؤں اور مسلمانوں نے خیر سگالی میٹنگ کر کے نہ صرف اپنی شکایتیں دور کی ہیں بلکہ یہ تہیہ کر لیا ہے کہ جس طرح ہنومان جینتی کے فسادات سے پہلے ساتھ رہتے تھے، مستقبل میں بھی کندھے سے کندھا ملا کر رہیں گے۔ گزشتہ اتوار کو مشترکہ ترنگا یاترا میں بھی انہوں نےاپنےاسی عزم کو مضبوط کیا۔
دوسری طرف کرناٹک میں روایتی ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے مذہبی تنظیموں اور عام لوگوں کی کوششیں اس طرح رنگ لا رہی ہیں کہ مسلم طالبات کے حجاب پہننے اور مندروں کے میلوں میں مسلم کاروبار پر پابندی کی ‘اپیلوں ‘ کی ہواسی نکل گئی ہے۔
بیلور اور بنگلورو وغیرہ کے سینکڑوں سال پرانے مندروں کی رسومات،رواج اور میلوں میں ہندو اور مسلمان پہلے کی ہی طرح اپنی روایات کا جشن منا رہے ہیں۔
گزشتہ دنوں بیلور کے چنناکیشو مندر بھگوان وشنو کی رتھ یاترا نکلی تو ہاسن ضلع کی دودامیدور مسجد کے مولوی سید سجاد قاضی، سبز پگڑی پہنے، رتھ کے پہیوں کے پاس ایک ہی چوکی پر کھڑے قرآنی آیات پڑھتے رہے۔
کورونا کی وجہ سے دو سال کے التوا کے بعد ہوئے کرگا میلے میں اسی طرح کے گنگا جمنی نظارے ریاست میں دیکھے گئے۔ روایت کے مطابق اس بار بھی عقیدت مند حضرت توکل مستان بابا کی درگاہ پر رک کر کچھ دیر کے لیے وہاں اپنا کرگاہ رکھا۔ درگاہ کے علما کی دعوت پر پجاریوں کا ایک گروپ پہلے ہی وہاں پہنچ چکا تھا اور دونوں برادریوں کے لوگ ایک دوسرے کو نیک خواہشات اور دعائیں دے رہے تھے۔
ہندوتوا کارکنوں کی درگاہ کے پڑاؤ پر کرگا نہ رکھنے کی اپیل کو سننے والا توکوئی نہیں تھا۔ اس کی خوشی اس حقیقت سے مزید بڑھ جاتی ہے کہ مذہبی بنیاد پر نفرت کی شیطانی اپیلوں کی نافرمانی کا خطرہ عام لوگ ہی نہیں اٹھا رہے۔
گزشتہ دنوں بایوکان کی بانی کرن مجمدار شا نے یہ خطرہ مول لے کر حکمرانوں کو خبردار کیا تھا کہ ملک کا ٹکنالوجی سیکٹربھی اس ‘مذہبی بٹوارے’ کا شکار ہو ا، جسے وہ شہ دے رہے ہیں، تو اس سیکٹر میں ملک کی عالمی قیادت تباہ ہو جائے گی۔
اب اس سلسلے میں ایک اور کڑی کا اضافہ کرتے ہوئے فرنیچر ڈیزائنر کنال مرچنٹ نے وزیر اعظم نریندر مودی کے لیے ٹیبل ڈیزائن کرنے کی حکومت کی تجویز کو یہ کہتے ہوئے ٹھکرا دیا ہے کہ وہ مستقبل کی تاریخ میں اس طرح نظرنہیں آنا چاہتے جیسا آج ہٹلر کے دور میں اس کی حمایت اور نازی کے طور پر اس کے لیے کام کرنے والے نظر آتے ہیں۔
کنال نے اپنے جواب میں لکھا؛ آپ جس طرح کا متعصب، نفرت انگیز اور نسل پرست ہندوستان بنانے کی کوشش کر رہے ہیں، وہ ماضی میں کبھی وجود میں ہی نہیں تھا ….میرا ہندوستان سیکولر ہے، سب کو ساتھ لے کر چلنےوالا، جامع، روادار اور ایک تہذیبی قوت سے مالا مال، جس کا 7000 سالوں سے باہر سے آنے والے لوگوں کو قبول کرنے اور خود میں شامل کرنے کاریکارڈ رہا ہے ….میں ایسی حکومت کے سربراہ کے لیے ایسی میز تیار کرنے سے خود کوقاصر محسوس کرتا ہوں، جس پر اقلیتوں کو مزید الگ تھلگ کرنے اور ان کے حقوق سے محروم کرنے کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے قوانین اور پالیسیاں بنائی جائیں گی۔
انہوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ ایسی صورت میں پی ایم او کے لیے ٹیبل بنانا میری طرف سے اپنے دوستوں، خاندان اور ملازمین کو دھوکہ دینے اور توہین کرنے کے مترادف ہوگا، جو کمزور پس منظر سے آتے ہیں، اقلیت ہیں، ایل جی بی ٹی کیو کمیونٹی کا حصہ ہیں، یا دلت ہیں اور درج فہرست ذات سے آتے ہیں۔
یہ کہنا مشکل ہے کہ کنال کے اس جواب سے کسی بھی سطح پر کوئی سبق حاصل کیا جائے گا، لیکن کرناٹک سمیت ملک کے کئی حصوں میں ان کے اور کرن مجمدار شا جیسے کاروباریوں اور عام شہریوں کی نفرت کے کالے طوفان کے خلاف یہ مزاحمت یقین دلا رہی ہے کہ آخرکار وہ ہار جائے گی اور ہم آہنگی کی ہوائیں ملک کے مستقبل کا تعین کریں گی۔
فیض احمد فیض یوں ہی نہیں لکھ گئے کہ:
یوں ہی ہمیشہ الجھتی رہی ہے ظلم سے خلق
نہ ان کی رسم نئی ہے نہ اپنی ریت نئی
یوں ہی ہمیشہ کھلائے ہیں ہم نے آگ میں پھول
نہ ان کی ہار نئی ہے نہ اپنی جیت نئی
Categories: فکر و نظر