عید مبارک کے جواب میں اکشے ترتیہ یا پرشورام جینتی کی مبارکباد دینا کلینڈر پرست مذہبیت کی علامت ہے۔ ہم ہر جگہ اپنا تسلط چاہتے ہیں۔ آواز کی سرزمین پر، آواز کی لہروں پر بھی، دوسروں کی عبادت گاہوں پر اور سماج کے نفسی وجودپر بھی۔
‘عید مبارک!’ جواب آیا، ‘اکشے ترتیہ کی شبھ کامنائیں’، ‘پرشورام جینتی کی بدھائی۔’ اس جواب سے افسردگی ہوئی۔
کسی ایک مسرت کے موقع پر مقابلہ کرکے اس موقع پر قبضہ کر لینےکی کوشش سے کون سا لطف حاصل ہوتا ہے؟ جن کی عمر 50 سال یا اس سے اوپر ہے وہ جانتے ہیں کہ نہ تو ‘پرشورم جینتی’ اور نہ ہی ‘اکشے ترتیہ’ ہندوؤں کے لیے ایسے تہوار ہیں جو پورے ہندوستان میں اسی پیمانے پر منائے جاتے ہوں جیسے درگا پوجا یا ہولی-دیوالی منائے جاتے ہیں۔
اکشے ترتیہ تو خالصتاً بازار سے مشتہر اور فروغ پانے والا تہوار ہے، جس میں زیورات خریدنے کے لیے خواتین کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اسی طرح ہندو خاندان اور سماج میں اور اس میں بھی ایسے برہمنوں کے بیچ جو خود کو باقی برہمنوں سے برتر مانتے ہیں، کبھی پرشورام جینتی کی کوئی یاد داشت نہیں ہے۔
تیشہ بردار (فرسا دھاری) پرشو رام کو تلسی داس نے یقینی طور پر مقبول بنایالکشمن پرشورام مکالمے کے ذریعے، جس میں نوعمر لکشمن شیو کے دھنش ٹوٹنے سے مشتعل ایک برہمن دیوتا کے ساتھ تفریحی مکالمہ کرتے ہیں اور ان کے بڑے بھائی رام اس سے بھرپور لطف اندوز ہوتے ہوئے کسی طرح ان کا غصہ ختم کرتے ہیں۔ کب سے وہ برہمنوں کے اور پھر ان کے مِس (بہانے) ہندوؤں کے متفقہ تہوار بن گئے، یہ بعد میں مذہب کے مؤرخین طےکریں گے۔
کوئی چاہے تو کہہ سکتا ہے کہ جو آپ کی نسل نہیں کرتی تھی، وہ ہم نہ کریں ایسا کہاں کا قانون ہے! ہم نئی مذہبی روایات کیوں متعارف نہیں کروا سکتے؟ اور یہ ٹھیک ہی ہو گا۔ لیکن ایسی دلیل دینے والا اپنے روایت کی تحقیق کر لے۔ کیونکہ وہ ہر چیز کی صداقت کو اس کی قدامت میں تلاش کرتا رہا ہے۔ پھر جو رواج قدیم نہیں، وہ مستند کیسے؟
اس سے قطع نظر صرف ایک سوال ہے اور وہ اپنے آپ سے ایمانداری سے پوچھنا چاہیے کہ کیا اس کے پیچھے کوئی روحانی ترغیب ہے یا محض پنچانگ یا کیلنڈر کو بھی ‘اپنے’ رنگ میں رنگ دینے کا کوئی توسیعی رجحان۔ یہ خالص دنیوی ذلالت ہے۔ میں نے آپ کی کوئی جگہ دیکھی اور چالاکی سے اس پر اپنا رومال رکھ دیا۔
پچھلے 7-8 سالوں میں اس رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ اس میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے بھی اپنا رول ادا کیا ہے۔ عیسائیوں کے اہم ترین دن کرسمس یعنی بڑے دن کو گڈ گورننس ڈے قرار دے کر اس پر پردہ ڈالنے کی قابل رحم کوشش کی گئی۔ نئے ہندو سنتوں میں سے ایک نے ‘ویلنٹائن ڈے’ کو ماتر پترپوجن دوس طور پر منانے کی تجویز پیش کی۔
چودہ فروری کا یہ دن محبت کرنے والوں کا عالمی دن ہے۔ لیکن احساس کمتری میں اس سےغیر ملکی نشان کو مٹانے کی مہم چلائی گئی۔ مار پیٹ کے باوجود ہندوستان کے ہندو نوجوان لڑکے لڑکیوں میں اس دن کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے ساتھ، امید ہے کہ شاید محبت یا پریم نفرت پر قابو پانے میں سب سے زیادہ کارگر ثابت ہو!
لیکن اس گھٹیا پن کا کیا کیا جائے جسے کیلنڈر پرست مذہبیت کہہ سکتے ہیں؟
کچھ عرصہ قبل بھارتیہ جنتا پارٹی نے کیرالہ کے لوگوں کو کیرالہ کے سب سے مقبول تہوار اونم کو وامن جینتی کے طور پر منانے کی تجویز پیش کی تھی۔ وہاں کےناراض لوگوں نے بی جے پی کی خوب سرزنش کی۔ لیکن اس کی وجہ سےیہ کوشش بند نہیں کی گئی ۔ بلکہ بی جے پی سے تحریک لے کر عام آدمی پارٹی نے بھی دہلی میں وامن جینتی کے پوسٹر لگوائے۔
اس بات پر غور نہیں کیا گیا کہ دہلی میں رہنے والے کیرل کے لوگوں پر اس کا کیا اثر پڑے گا۔ وامن جینتی کیا شمالی ہندوستان کے برہمنی ہندوتوا کے منصوبے کا ایک حصہ ہے؟ کیا ہم ہندو اس میں بنا سوچے سمجھے شامل ہو رہے ہیں؟
آخر ایک ایسے کردار کی پرستش کیسے کی جا سکتی ہے جو کسی کی سخاوت کا فائدہ اٹھا کر اسے دھوکہ دے اور اسے کنگال کر دے؟ وامن کے اوتار کا مطلب کیاہے؟
پرشورام ہوں یا وامن، یہ اساطیری داستانوں کے کردار ہیں۔ سب کے سب قابل تقلید ہوں، قابل پرستش ہوں، ایسا نہیں۔ ان سب میں ایک انسانی سچ ضرور مضمرہے۔ آخر کیوں کرشن اور رام کے کرداروں میں پیچیدگی ہے، خامی ہے؟
ٹھیک ہی گاندھی نے گیتا کو تاریخی کتاب ماننے کی جگہ رزمیہ مانا تھا جیسے رامائن یا مہابھارت۔ شعری کردار زیادہ دلچسپ ہوتےہیں۔ جیسے ہی آپ انہیں قابل پرستش بنا دیتے ہیں، ان کرداروں سے آپ کا مکالمہ ناممکن ہو جاتا ہے۔ کوئی تعجب نہیں کہ اب کوئی نئی رام کتھا ممکن نہیں۔
آج جو مذہبی کردار نئے بھگوان کے طور پرنشان زد کیے جارہے ہیں، ان کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہ ایک تشدد پسند ہندو کے دیوتا ہیں۔ ان کا استعمال ایک سیاسی اکثریتی ہندو کے ذریعےاپنی پرتشدد کارروائی کے پردے کےلیے کیا جا رہا ہے۔
مثال کے طور پر ہنومان چالیسہ ہی کو لیجیے۔ کس نے سوچا تھاکہ ہنومان چالیسہ کو ایک شور یا نعرے کے طور پر استعمال کیا جائے گا؟ وہ بھی مسلمانوں کی مقدس اذان کی آواز کو غرق کرنے کے لیے؟ اس سے بڑا گناہ کوئی ہو سکتا ہے؟ کسی کی عبادت میں خلل ڈالنا، اس کو روکنا، اس پر اعتراض کرنا؟
آپ کی اذان ہے تو ہمارے پاس ہنومان چالیسہ ہے! گایتری منتر بھی ہو سکتا تھا جس کے لاؤڈ اسپیکر سے نشر کرنے کا رواج کوئی 40 سال پہلے شروع ہوتے سیوان میں دیکھا تھا۔ ہنومان چالیسہ ہندوتوا کی نئی مذہبی رسم ہے۔
بچے کبھی اندھیرے میں،کسی آسیب زدہ درخت کے نیچے سے گزرتے ہوئے اپنا ڈر مٹانے کے لیے اسے پڑھاکرتے تھے، جس کی متعدد کہانیاں ہیں۔ اب دن کے اجالے میں اس کا استعمال اپنی منھ زوری اور تعداد کے سہارےاپنا دبدبہ قائم کرنے، دوسروں کو ڈرانے، دبانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ یہ کیسی تعلیم ہے اور کس انجام کو پہنچ گئے ہیں ہم؟
پچھلی کرسمس میں ایسی خبریں آئی تھیں کہ ہندوتوا گروپ گرجا گھروں میں گھس گئے، عبادت گاہوں پر چڑھ گئے اور عیسیٰ کی عبادت کو روکنے کے لیے جئے شری رام کا نعرہ لگایا۔ اذان کے مقابلے ہنومان چالیسہ کے پہلے جمعہ کی نماز کے مقابلے بھجن کا حملہ ہم نے کیا۔
دراصل ہم ہر جگہ اپنا تسلط چاہتے ہیں۔ آواز کی سرزمین پر، آواز کی لہروں پر بھی، دوسروں کی عبادت گاہوں پر اور سماج کے نفسی وجود پر بھی۔ اس سے ہم سمجھ سکتے ہیں کہ کیوں ادھر 10-20 سالوں میں ہم اپنے نئے نئے مذہبی ایام یا کردار ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکال رہے ہیں۔ کیونکہ ہم وہاں بھی آبادی کی اس بے چینی کے شکار ہیں جو ملک میں دوسرے مذاہب کی تعداد کے حوالے سے ہمارے اندر پیدا ہوتی ہے۔
کیا یہی وجہ ہے کہ ہم کلینڈر میں اپنے مذہبی ایام کی تعداد بڑھانا چاہتے ہیں؟ کیا ہم ان تمام دنوں پر اپنا نشان لگانا چاہتے ہیں؟ کیا یہ کسی طرح کی احساس کمتری ہے جسے چھپانے کے لیے ہم ایسا کر رہے ہیں؟
وہ کیسا آدمی ہے جو کسی دوسرے کی مذہبیت سے لطف اندوز نہیں ہو سکتا؟ جو کسی کی پاکیزگی سے اپنے لیے ناپاک احساس کا فائدہ نہ اٹھا سکے، کیا وہ صحت مند انسان ہے؟ جو شخص یہ کہتا ہے کہ میں اس لیے اس کا ساجھی دار نہیں بننا چاہتا کہ یہ غیر ملکی ہے تو اسے ایک جین مصنف جینندر کمار کو سننا چاہیے؛
اسلام کے ہندوستانی پیروکارعرب سے اپنی توانائی حاصل کرتے ہیں، تو برا کیا کرتے ہیں؟ توانائی تو ایک مفید چیز ہے۔ زندگی اس سے مالا مال ہوتی ہے… مسلمان کا ملک ہندوستان تھا، تیرتھ عرب تھا۔ اس سے ہندوستان کو نقصان کیا تھا؟
مذہبی جذبات انسان کہیں سے بھی حاصل کرے، اس کا فائدہ اس کے اردگرد کی کمیونٹی کو جاتا ہے۔ آپ کیا برہم پترا کا منبع تبت (اور آج چین میں)ہے تو، اس کے پانی کو ناپاک اور غیر ملکی تصور کریں گے؟ سچی بات یہ ہے کہ شعور جہاں سے بھی اپنے لیے توانائی حاصل کرے، وہ نیک شگون ہی ہے۔
چنانچہ اگر کوئی مسلمان حج کر کے عرب سے واپس آتا ہے تو وہ ہمارے لیے بھی پاکیزگی کا احساس لاتا ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ روزہ رکھنے والے کو نہ صرف اس کا بدلہ ملتا ہے بلکہ اس کے گھر والوں کو بھی اس کا پھل ملتا ہے۔ جینندر کے ان خیالات کو ان کی کتاب کی چھٹی جلد کے تیسرے حصے ‘بھارت’ میں تفصیل سے پڑھا جا سکتا ہے۔
اصل سوال یہ ہے کہ کیا آپ ہندو ہوتے ہوئے اسلام یا عیسائیت یا بدھ مت یا یہودیت سے اپنے لیے توانائی حاصل کر پاتے ہیں یا نہیں؟ یا ان سے آپ کے اندر حسد اور تشدد کا جذبہ پیدا ہوتا ہے؟ اگر ہم اس سوال پر غور کریں گے تو عید مبارک کہتے ہی اکشے ترتیہ یا پرشورام جینتی کی مبارکباد نہیں دینے لگیں گے۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر