ہر دو تین ماہ بعد سیکورٹی ایجنسیاں کشمیر میں کسی نہ کسی صحافی کےدروازے پر دستک دینے پہنچ جاتی ہیں،اور یہ منظر خود بخود دوسروں کےذہنوں میں خوف پیدا کر دیتا ہےکہ اگلی باری ان کی ہو سکتی ہے۔
مئی کے مہینے میں جب ہندوستانی دارالحکومت نئی دہلی کی ایک عدالت نے جموں وکشمیر لبریشن فرنٹ (جے کے ایل ایف) کے رہنما محمد یاسین ملک کو عمر قیدکی سزا سنائی تو اس کیس کی تفصیلات جاننے کے لیے میں نے سرینگر سے شائع ہونےوالے اخبارات سے رجوع کیا۔ مگر یہ کیا…؟ اکثر اخبارات نے بس مختصراً ایک یا دو کالم میں اس خبر کو شائع کیا تھا۔
اس سے بہتر کوریج تو دہلی کےاخبارات نے دی تھی اور ٹی وی چینلوں نے پرائم ٹائم پر اس پر خاصی بحث بھی کی تھی۔ میں نے سوچا، چلو اداریہ کے صفحات پر تو کچھ تفصیلات مل جائیں گی۔ ایک کثیر الاشاعت اردو روزنامہ کے ادارتی صفحات پر قارئین کو اس دن ٹکنالوجی کے اثرات اور پھل کھانے کے فوائد سے روشناس کروا ریا جا رہاتھا۔ یہ سب کچھ مجھے انتہائی عجیب سا لگا۔
میں نے پھر اخبارات کےآرکائیوز کو کھنگال کر تفصیلات نکالنے کی کوشش کی، تو اس پر بھی مایوسی ہاتھ لگی۔ ماضی میں اس موضوع پر شائع اسٹوریز بھی غائب تھیں۔
کشمیر میں پریس کی صورت حال کا اندازہ تو اسی دن لگ گیا تھا، جب پچھلےسال سرینگر کا پریس کلب بند کر دیا گیا تھا، مگر صور ت حال اس قدر خراب ہے، اس کا وہم و گمان تک نہ تھا۔
جب میں نے سرینگر میں کام کرنے والے ایک صحافی دوست کو فون کیا، تو اس نے دل کھول کر قہقہ لگا کر پوچھاکہ؛
دہلی کے ایک صحافی کو آخر آج اتنا وقت کیسے ملا کہ، کشمیر کے صحافی کی خبر و خیریت دریافت کرے؟
اس صحافی نے کہا کہ وہ صحافت کو دفنانے پرمجبور ہوچکے ہیں اور بس حکومت کی ہاں میں ہاں ملاکر اپنا پیٹ پال رہےہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سبھی اخبارات پر غیر اعلانیہ اور سخت سینسر شپ عائد ہے۔ اس حد تک کہ ان اخبارات نے یاسین ملک کی عمر قید جیسی اہم خبرکو چھاپنے اور اس کو معقول جگہ دینے سے حتیٰ الامکان گریز کیا۔
ان اخبارات کا سرسری مطالعہ کرنے سے ہی معلوم ہوتا ہے کہ یا توان صحافتی ادارو ں نے خود کو سیلف سینسر کر رکھا ہے یا پھر کوئی نادیدہ ہاتھ انہیں صحیح رپورٹنگ کرنے سے روک رہا ہے۔
جب میں نے ایک اردو اخبار کے ایڈیٹر سےبات کی تو انہوں بتایا کہ وہ صحافت کرنا نہیں بھولے ہیں، مگر وہ فی الوقت اپنے گھر کسی مصیبت کو دعوت نہیں دینا چاہتے ۔
کسی انڈسٹری وغیرہ کی عدم موجوگی کی وجہ سے کشمیر میں اخبارات اپنے اداروں کو چلانےکے لیے زیادہ تر سرکاری اشتہارات پر انحصار کرتے ہیں اورمعمولی سی بھول چوک سرکاری اشتہارو ں کا حصول ناممکن بنا دیتی ہے۔ سرکاری اشتہارات بندہو جانے سے اخبار کا گزارا مشکل ہوتا ہے اور پھر صحافیوں اور دیگر عملہ کی چھٹی کرنی پڑتی ہے۔
دباؤ کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جب گزشتہ سال ستمبر میں بزرگ حریت رہنما سید علی شاہ گیلانی کا انتقال ہوا تو سرینگر کے اکثراخبارات میں ان کی موت کی خبر ایک ہی کالم میں چھپی، جبکہ دہلی کے اخبارات اور بین الاقوامی میڈیا نے اسے تفصیل سے کور کیا۔
سرینگر کےایک انگریزی ہفتہ روزہ نے جرأت کرکے مرحوم لیڈر کی تصویر کے ساتھ پروفائل چھاپی، تو اگلے روز سے سزار کے طور پر اس کے اشتہارات بند کر دیے گئے اورابھی تک جاری نہیں کیے گئے ہیں۔
گیلانی کے دست راست محمد اشرف صحرائی اس سےقبل جیل میں انتقال کر گئے تھے۔ وادی کشمیر کے اکثر اخبارات میں اس کو رپورٹ تک نہیں کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: کیا کشمیر میں صحافت ’جرم‘ کا درجہ اختیار کر چکی ہے؟
گزشتہ ماہ ایک کشمیری صحافی شاہد تانترے جو کاروان میگزین کے لیے لکھتےہیں نے ایک خط میں انکشاف کیا کہ پولیس ان کو بار بار تھانے میں طلب کرتی ہے۔ اس کے والد کو بھی پولیس اسٹیشن میں بلا کر گھنٹوں انتظار کروایاگیا۔ تانترے کو پولیس افسران نے بتایا کہ کشمیر میں رہ کر ان کو حکومت کے خلاف لکھنا نہیں چاہیے، ورنہ ان کو گرفتاری کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔
ان کو بتایا گیا کہ ان کے پاس کشمیر چھوڑنے کا آپشن موجود ہے۔ تانترے کی خوش قسمتی ہے کہ ان کی تنظیم ان کے ساتھ کھڑی ہے۔
اگست 2019 میں جموں و کشمیر سے ہندوستانی آئین کی دفعہ 370 کی منسوخی کےبعد سے کشمیری صحافیوں کی زندگی ایک ڈراؤنے خواب سے کم نہیں ہے۔ حکومت پر تنقید برداشت نہیں کی جاتی ہے۔ جب ہلاکتوں کی خبریں آرہی ہوں، تواخبارات کو گل لالہ کے باغ کی تصویروں سے صفحات کو مزین کرنے پڑتے ہیں۔
بس یہ لگنا چاہیے کہ کشمیر میں سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ کشمیر کے وہ اخبارات جو برسوں سے دنیا کے لیے بطورایک ایسی کھڑکی کا کام کرتے آرہے ہیں جس کے اندر جھانک کر، کشمیر کو دیکھا جا تا تھا، اب ایک بند روشن دان کی مثال پیش کرتے ہیں۔
ہر دو تین ماہ بعد سیکورٹی ایجنسیاں کشمیر میں کسی نہ کسی صحافی کےدروازے پر دستک دینے پہنچ جاتی ہیں،اور یہ منظر خود بخود دوسروں کےذہنوں میں خوف پیدا کر دیتا ہے کیونکہ اگلی باری ان کی ہو سکتی ہے۔
خیرایک ایک کرکے سبھی کی باریا ں آرہی ہیں۔ نیویارک کی صحافتی تنظیم کمیٹی فار پروٹیکشن آف جرنلسٹس کے مطابق، اب کشمیری میڈیا ایک بریکنگ پوائنٹ پرپہنچ گیا ہے، جہاں صحافی سوچ رہے ہیں کہ اس پیشے کو زندہ اور جاری رکھناکب تک ممکن ہے اور اس مصنوعی زندگی کو جینا اور پھر دنیا کو دکھانا کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے کب تک جاری رہ سکتا ہے۔ اخبارات کے مالکان بھی اپنی سرکولیشن کے لگاتار گرنے سے پریشان ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب حقیقی صحافت کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، کشمیر کی چار بڑی یونیورسٹیاں نئی پود کو صحافت سکھانے کا کورس پڑھا رہی ہیں۔
کشمیر ی صحافت کی اس حالت زار کو دیکھتے ہوئے بالی ووڈ کی ایک پرانی فلم کا نغمہ یاد آرہا ہے؛
سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے
حال چال ٹھیک ٹھاک ہے
کام نہیں ورنہ یہاں، آپ کی دعا سے سب ٹھیک ٹھا ک ہے
ٓآب و ہوا دیش کی بہت صاف ہے
اللہ میاں جانے کوئی جیے یا مرے
آدمی کو خون وون سب معاف ہے
(روہنی سنگھ دہلی میں مقیم آزاد صحافی ہیں ، ان کاکا یہ بلاگ ڈی ڈبلیو اُرود پر شائع ہوا ہے۔)
Categories: فکر و نظر