پاکستان کے برعکس ہندوستان میں سویلین حکومتیں اور سیاستدان لاکھ اختلافات کے باوجود ملک کے وسیع تر مفادات کی حفاظت کرتی ہیں۔پاکستان کے لبرل مدبرین اس سوال پر بس یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں کہ ان کے ملک میں ملٹری سویلین حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مگر جب سویلین حکمران بھی اقتدار میں آتے ہیں، تو کیا وہ توازن برقرار رکھ پاتے ہیں؟ جمہوی نظام کو چلانے کے لیے توازن برقرار رکھنا ایک لازمی امر ہے اورایک کامیاب جمہوریت کے لیے آئین کو چلانے کے لیے امبیڈ کر کی نصیحت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی موجودہ سیاسی صورت حال اور اس کے لیڈران کی پینترہ بازیاں دیکھ کر ہندوستان کے معروف دلت لیڈر اور دستور ساز کمیٹی کے سربراہ ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کا وہ بیان یاد آتا ہے، جو انہوں نے نومبر 1948 کوآ ئین ساز اسمبلی میں دستور کا مسودہ پیش کرتے ہوئے دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا؛
دنیا کا کوئی بھی آئین کامل نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کو مؤثر اور قابل استعداد بنانا، روبہ عمل لانے والے افراد اور اداروں کی نیت اور ہیئت پر منحصر ہے۔ اگر اچھے سے اچھا آئین بھی نااہل اور بے ایمان افراد کے ہتھے چڑ ھ جائے تو بد سے بد تر ثابت ہوسکتا ہے۔اس کو چلانے والے اداروں کے ذمہ داران اگر ذہین، فراخ دل اور بامروت ہوں تو خراب سے خراب تر آئین بھی اچھا ثابت ہوسکتا ہے۔
ایک تو پاکستان کی مٹی میں ایسا کچھ ہے کہ وہاں کے ادارے، چاہے وہ سویلین سیاسی لیڈروں پر مبنی حکومت ہو، یا صدر، عدلیہ و ملٹری ہو، طاقت ملنے پر بے قابو ہو جاتے ہیں۔
ویسے ہندوستان بھی اب پچھلے کئی برسوں سے اسی روش پر چل نکلا ہے، مگر پھر بھی اس نے ایک پختہ‘ ٹھوس اورمستحکم سیاسی نظام قائم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور اقتدار کی منتقلی کا عمل نہایت ہی پر امن طریقے سے انجام دیا جاتا ہے۔
اس مستحکم نظام کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان میں ادراوں کو ایک دوسرے کے اوپر بھروسہ ہے۔ فیصلہ سازی، سیاسی لیڈران ہی کرتے ہیں، مگر ان کو لیتے ہوئے وہ فوج، سیکورٹی، انٹلی جنس، عدلیہ کی رائے کو خاصی اہمیت دیتے ہیں۔
سیکورٹی سے متعلق اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس کابینہ کی سلامتی سے متعلق امور کمیٹی میں فوج کی تینوں شاخوں اور خفیہ تنظیموں کے سربراہان کا خا صا عمل دخل ہوتا ہے۔
پاکستان میں یہ بھروسہ ہو تو کیسے ہو؟ دسمبر 1988 کو جب محترمہ بے نظیر بھٹو نے پہلی بار وزارت اعظمیٰ کا عہدہ سنبھالا تو ان کو شکایت تھی کہ فوج ان کو جوہری پروگرام پر بریفینگ اور اس کی اصل صورت حال سے آگاہ نہیں کروا رہی تھی۔جو بطور سربراہ مملکت ان کا حق تھا۔
خیر میں نے سنا اور کہیں پڑھا ہے کہ جب ایک روزراولپنڈی میں جی ایچ کیو کے آپریشن روم میں ان کو جوہری پروگرام کی پوری تفصیلات سے آگا ہ کروانے کے لیے بریفنگ کا اہتمام کیا گیا، اور وہ اپنی لیموزین میں جی ایچ کیو پہنچیں تو اس کے دوسرے دروازے سے پاکستان میں اس وقت کے امریکی سفیر رابرٹ اوکلے بھی برآمد ہوئے، جن کو وہ اپنے ساتھ لے آئیں تھیں۔
فوج کے آپریشن روم کا اپنا ایک تقدس ہوتا ہے۔ جہاں تک مجھے یاد ہے کہ ہندوستانی وزراء اعظم اٹل بہاری واجپائی نے بس کرگل اور پارلیامنٹ پر حملہ کے موقع پر یعنی دو بار، منموہن سنگھ نے ممبئی حملہ کے موقع پر یعنی ایک بار اور 2016میں سرجیکل اسٹرئیک کے موقع پر موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے آرمی ہاوس کے آپریشن روم کا دورہ کرکے بریفنگ لی ہے۔ ورنہ اس کو سویلین لیڈران کی پہنچ سے دور ہی رکھا جاتا ہے۔
یہ تو مجھے معلوم نہیں کہ آخر بے نظیر بھٹو اتنی زیرک سیاستدان ہوتے ہوئے بھی اتنے حساس کمرے میں امریکی سفیر کو لےکر کیوں وارد ہوئی؟ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فوج نے پوری بریفنگ ہی بدل دی، اور بس عمومی اور ان ہی نکتو ں کو پیش کیا جو پہلے سے ہی عوامی فورم میں موجود تھے۔
اسی طرح 2001میں پارلیامنٹ اور پھر 2008میں ممبئی دہشت گروانہ واقعات کے بعد واجپائی اور پھر منموہن سنگھ نے فوجی سربراہان کو پوچھا تھا کہ کیا وہ پاکستان کے ساتھ جنگ کے لیےتیار ہیں۔ ذرائع کے مطابق ان کو بتایا گیا کہ ایمونیشن اور اسٹریٹجک فیول ریزرو وغیر ہ کے کم ذخائر کی وجہ سے وہ دو ہفتوں سے زیادہ طویل جنگ کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔
مگر طے ہوا کہ فوجی افسران سارا ملبہ سیاسی قیادت کے سر منڈھیں گے اور بتائیں گے وہ بالکل تیاری کی حالت میں ہیں۔ اور جنگ کرنے اور بقول ان کے پاکستان کو سبق سکھانے کا فیصلہ کرنے کا اختیار سیاسی قیادت کے پاس ہے۔ جبکہ حقیقیت یہ تھی کہ فوج نے ہی اس طرح کی کسی کارروائی سے معذرت ظاہر کی تھی۔
بانی پاکستان محمد علی جناح کے بعد شاید ہی اس ملک کو کوئی ایسا سیاسی رہنما نصیب ہوا، جو اسٹیٹس مین تو نہیں، کم از کم اپنے ملک کے لیے ہی قابل بھروسہ ہونے کا اعزاز حاصل کرسکے۔ گو کہ ذولفقار علی بھٹو اس زمرے میں آتے ہیں، مگر ان کی منتقمانہ سیاست نے ان کی شبیہ کو داغدار کرکے ان کی بہت سے خوبیوں پر پردہ ڈال دیا ہے۔
اسی طرح 1996میں جب ہندوستانی وزیر اعظم اندر کمار گجرال نے اپنے پاکستانی ہم منصب نواز شریف سے نیو یارک میں ملاقات کی تو کشمیر یا دیگر امور کے بجائے، جو اہم مطالبہ پاکستان وزیر اعظم نے نہایت ہی زور و شور سے رکھا، وہ یہ تھا کہ ہندوستانی حکومت دبئی کے راستے ان کی شوگر مل کے لیے رعایتی نرخوں پر مشینری فراہم کروائے اور ان مشینوں پر میڈان انڈیا کا لیبل نہ لگا ہو۔
گجرا ل جب یہ احوال واپسی پر طیارہ میں آف ریکارڈ گفتگو کے دوران شیئر کر رہے تھے، تو اس کے بعد کسی نے بھی ہندوستانی وزیر اعظم سے کشمیر یا دیگر امور پر سوال پوچھنے کی زحمت نہیں کہ، جبکہ اس سے قبل کئی صحافی ان امور سے متعلق سوالات پوچھنے کی تیاریاں کر رہے تھے۔
ہندوستان میں کوئی سیاستدان یہ سوچ بھی نہیں سکتا ہے کہ اگر اس پر پاکستانی خفیہ ایجنسی یا کسی اور ملک کے ادارے کی مہمان نوازی یا اس کے ساتھ ساز باز کا کوئی صحیح یا غلط الزام لگائے اور وہ اس کے بعد بھی سیاست میں کوئی فعال کردار ادا کرے۔ ایک تو پوری عمر وہ سیاسی طور پر اچھوت بن جائےگا، اور پھر اس کا مستقل ٹھکانہ ہی جیل بن جائےگی۔
مگر پاکستان میں تہمینہ درانی نے اپنی کتاب مائی فیوڈل لارڈمیں جب یہ انکشاف کیا کہ وہ اور ان کے سابق شوہر غلام مصطفےٰ کھر کوہندوستانی خفیہ ایجنسی راء نے مہمان بنا کے رکھا اور اجمیر درگاہ پر ان کی حاضری میں معاونت کی، اس کے بعد بھی معتوب ہوئے نہ ہی ان کا سیاسی سفر ختم ہوگیا۔
تہمینہ درانی شاید اس وقت پاکستان کی خاتون اول ہے۔ شاید ہی اس انکشاف کے بعد کھر اور درانی کے خلاف تفتیش کی گئی ہو۔ کسی بھی عام آدمی کو تو ایسے الزامات کی صورت میں پھانسی پر چڑھادیا گیا ہوتا۔
اسی طرح ہندوستان میں صدر کا عہدہ سیاست کی معراج سمجھا جا تا ہے۔ اس عہدہ پر منتخب شخص پارٹی سیاست سے اوپر اٹھ جاتا ہے،کیونکہ ہندوستان میں پارلیامنٹ کی تعریف میں لوک سبھا، راجیہ سبھا کے علاوہ صدر کا دفتر بھی شامل ہے۔ ان تینوں کو ملاکر ہی پارلیامنٹ بنتی ہے، جس کا ایک جز اپوزیشن ہوتی ہے۔
اس عہدے سے فارغ ہونے کے بعد وہ ایکٹو سیاست سے فارغ ہوکر مراعات پر زندگی گزارتا ہے۔ اس عہدے پر فائز شخص اس کے بعد کسی اور عہدے کی تمنا کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا ہے۔
مگر یہ شاید پاکستان ہی ہے جہاں کا باوا آدم ہی نرالا ہے اور صدردو کشتیوں پر سوار ہوکر ملک کی صدارت اور ایک سیاسی پارٹی کی صدارت بھی کر رہا ہوتا ہے۔ اب اس طرح کا صدر کیسے عوام اور ادراوں میں بھروسہ قائم کروا سکتا ہے، جوصدر مملکت کی کرسی کے بعد ممبر پارلیامنٹ کے اسٹول پر بیٹھ کر دوبارہ انتخابی سیاست،جوڑ توڑ اور پینترہ بازی کی سیاست کی صدرات کرتے ہوئے فخر بھی محسوس کر تا ہو۔
ہندوستان میں وزیر اعظم کو عدالتی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ مگر اس کے باوجود ملک کی کوئی بھی عدالت کسی بھی وزیر اعظم کے خلاف کوئی بھی ریفرنس یا پٹیشن سماعت کے لیے منظور نہیں کرتی۔
مختلف اداروں جن میں عدالت یعنی چیف جسٹس، وزیراعظم، اسپیکر لوک سبھا، دفاعی سروسز یعنی فوجی سربراہ کے دفاتر کے درمیان ایک غیر تحریری معاہدہ ہے، جس کے تحت وہ ایک دوسرے کے عہدے کے وقار کا خیال رکھتے ہیں۔
اس میں اب الیکشن کمیشن کا دفتر بھی شامل ہے۔ اسی طرح میڈیا بھی سیلف سنسر شپ کا عادی ہے۔ اب اگر عدالت میں کوئی سیریس ریفرنس کسی متوقع وزیر اعظم کے خلاف دائر ہو، تو اس کو پارٹی خود ہی اس دوڑ سے الگ کرتی ہے۔
ہندوستان کے نویں وزیر اعظم کے طور پر نرسمہا راؤ کی مدت حکومت میں یعنی 1991ء سے 1996ء تک ایگزیکٹو کے اس اعلیٰ عہدہ کے وقار پر کئی سوالیہ نشان لگ گئے۔ مگر جب تک وہ آفس میں تھے، عدالتیں ان کے خلاف دائر رٹ پٹیشن خارج کرتی رہیں۔
وزیر اعظم ہاؤس میں کسی تقریب کے بعد ڈنر کے موقع پر ایک سابق چیف جسٹس صاحب، جو راؤ کی مدت وزیر اعظم کے دوران آفس میں تھے سے میں نے پوچھا تھا کہ اگر وہ ایکٹو ہوتے تو شاید بابری مسجد بچ سکتی تھی، تو ان کا کہنا تھا کہ، وزیرا عظم جمہوری نظام کا ایک اہم ستون ہوتا ہے۔ حکومت دھونس، دباؤسے زیادہ وزیرا عظم کے اعتماد و اقبال پر چلتی ہے۔ اب اگر آئے دن اس کو کورٹ میں گھسیٹ کر قانونی تقاضوں کے نام پر اس کی بے عزتی کرانی مقصود ہو تو وہ حکومت کب کرےگا؟ اور کیا کوئی افسر، سکریٹری یا دیگر ادارے، اس کو قابل اعتنا سمجھیں گے؟ کیا وہ اس کے احکامات بجا لائیں گے؟ کیا وہ اس انتخابی منشور کو، جس کی وجہ سے عوام نے اس کو مینڈیٹ دیا ہے، عملی جامہ پہناپائے گا؟
ایک دوسرے سابق چیف جسٹس نے بحث میں شامل ہوتے ہوئے کہا کہ اداروں کا احتساب لازمی امر ہے مگر استحکام کو اس کے لیے قربان نہیں کیا جاسکتا۔دونوں میں ایک طرح کا توازن رکھنا لازمی ہوتا ہے۔ انہوں نے یا د دلایا کہ وزارت عظمیٰ سے ہٹتے ہی نرسمہا راؤ کو اراکین پارلیامان کی خرید و فروخت کے الزام پر عدالت کا سامنا کرنا پڑااور انہیں سزا بھی سنائی گئی۔
پاکستان کے برعکس ہندوستان میں سویلین حکومتیں اور سیاستدان لاکھ اختلافات کے باوجود ملک کے وسیع تر مفادات کی حفاظت کرتی ہیں۔
پاکستان کے لبرل مدبرین اس سوال پر بس یہ کہہ کر جان چھڑاتے ہیں کہ ان کے ملک میں ملٹری سویلین حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہے۔ مگر جب سویلین حکمران بھی اقتدار میں آتے ہیں، تو کیا وہ توازن برقرار رکھ پاتے ہیں؟ جمہوی نظام کو چلانے کے لیے توازن برقرار رکھنا ایک لازمی امر ہے اورایک کامیاب جمہوریت کے لیے آئین کو چلانے کے لیے امبیڈ کر کی نصیحت پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔
Categories: فکر و نظر