خبریں

آر ایس ایس کے سابق کارکن کا دعویٰ – ناندیڑ بم بلاسٹ میں تھا رائٹ ونگ کے بڑے لیڈروں کا رول

پچیس سال تک راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے کارکن  رہے یشونت شندے نے سی بی آئی کی ایک خصوصی عدالت میں داخل کیے گئے ایک حلف نامے میں دعویٰ کیا ہے کہ 2006 کے ناندیڑ دھماکے  سے تین سال قبل وی ایچ پی کے ایک سینئر لیڈر نے انہیں دہشت گردی کے تربیتی کیمپ کے بارے میں بتایا تھا، جو ‘ ملک بھر میں بم بلاسٹ کرنے کی نیت سے چلا یا گیا تھا۔’

(فوٹوبہ شکریہ: Flickr/don’t panic CC BY NC ND 2.0)

(فوٹوبہ شکریہ: Flickr/don’t panic CC BY NC ND 2.0)

سال 2006 میں ناندیڑ میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے ایک کارکن کی رہائش گاہ پر ہونے والے بم لاسٹ کے سولہ سال بعد تنظیم کے ایک سابق سینئر کارکن نے سی بی آئی کی خصوصی عدالت کے سامنے عرضی  دائر کی ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ رائٹ ونگ کے کئی سینئر رہنما براہ راست حملے میں ملوث تھے۔

رپورٹ کے مطابق عرضی گزار یشونت شندے تقریباً 25 سال سے آر ایس ایس کے کارکن تھے اور وہ وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور بجرنگ دل جیسے دیگر رائٹ ونگ گروپوں سے بھی وابستہ تھے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ بلاسٹ سے تین سال قبل وی ایچ پی کے ایک سینئر کارکن نے انہیں ‘ملک بھر میں دھماکوں کو انجام دینے’ کے لیے چل رہے دہشت گردی کے ایک تربیتی کیمپ کے بارے میں بتایا تھا۔

چار اورپانچ اپریل 2006 کی درمیانی شب کو ہوئے ناندیڑ بم بلاسٹ چند سالوں کے دوران مہاراشٹر کے مراٹھواڑہ علاقے میں ہونے والے تین بم دھماکوں میں سے ایک تھا۔ دیگر دو دھماکے–پربھنی (2003) اور پورنا (2004) میں ہوئے تھے۔ عدالتیں پہلے ہی ان تمام افراد کو بری کر چکی ہیں جن پر مساجد میں بم پھینکنے کا الزام تھا۔

مہاراشٹرا کے انسداد دہشت گردی دستہ (اے ٹی ایس) کے بعد کیس کو سنبھالنے والی سی بی آئی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دھماکہ لکشمن راجکونڈوار نامی شخص کے گھر پر حادثاتی طور پر ہوا تھا، جو مبینہ طور پر آر ایس ایس کا کارکن تھا۔ بم اسیمبل  کرتے ہوئے راجکونڈوار کے بیٹے نریش اور وی ایچ پی کارکن ہمانشو پانسے مارے گئے تھے۔ جانچ  ایجنسیوں کا ماننا ہے کہ بم اورنگ آباد کی ایک مسجد کو نشانہ بنانے کے لیے استعمال کیا جانا تھا۔

یشونت شندے کا کہنا ہے کہ وہ پانسے کو 1999 سے جانتے تھے، جب وہ گوا میں وی ایچ پی کے کارکن کے طور پر کام کر رہے تھے۔ شندے کا دعویٰ ہے کہ 1999 میں ہوئی ایک میٹنگ میں پانسے اور ان کے سات دوستوں نے جموں میں ہتھیاروں کی تربیت لینے پر رضامندی ظاہر کی تھی۔ شندے کا الزام ہے کہ یہ ٹریننگ ‘ہندوستانی فوج کے جوانوں’ نے دی تھی۔

شندے اس مقدمے میں استغاثہ کے گواہ نہیں ہیں، لیکن دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ آخر کار سامنے آگئے ہیں کیونکہ وہ ‘اب مزید خاموش نہیں رہ سکتے’۔

انہوں نے دی وائر کو بتایا،میں نے گزشتہ 16 سال موہن بھاگوت سمیت آر ایس ایس کے ہر لیڈر کو دہشت گردانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرنے کے لیے منانے کی کوشش میں گزارے ہیں۔میری فریاد پر کسی نے دھیان نہیں دیا۔ اس لیے میں عدالت کے سامنے وہ سب کچھ پیش کرنے کو تیار ہوں جو مجھے اتنے عرصے سے معلوم ہے۔

ناندیڑ کی عدالت میں شندے کے وکیل سنگمیشور دیلماڑے نے دی وائر کو بتایا کہ انہیں بھی شروع میں شک تھا کہ شندے اب کیوں سامنے آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، دراصل میں نے بھی ان سے یہ سوال کیا تھا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کی زندگی ہر وقت خطرے میں رہتی تھی۔ اور اب وہ اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں  ان کا ضمیر انہیں مزید خاموش  رہنے کی اجازت نہیں دیتا۔

حلف نامے کے مطابق، شندے نے 18 سال کی عمر میں آر ایس ایس میں شمولیت اختیار کی تھی۔ ان کی عمر اب 49 سال ہے۔ انہوں نے کہا، مجھے اب ان تمام ہندو تنظیموں سے دوری بنانی پڑی ہے۔ وہ اب ‘ہندو مقاصد’ کے لیے کام نہیں کر رہے ہیں۔ وہ حکمران جماعت کے ہاتھوں کی کٹھ پتلیاں ہیں۔

شندے کے حلف نامہ میں ان ‘حصولیابیوں’ کو بتانے کے مقصد سے ان واقعات کی فہرست دی گئی ہے جن میں انہوں نے اپنی جوانی میں حصہ لیا تھا۔ بتایا گیا ہے کہ 1995 میں شندے کو جموں کے راجوری کے دورے کے دوران فاروق عبداللہ پرمبینہ طور پر حملہ کرنے کے الزام میں پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ عدالت نے بعد میں شندے کوبری کر دیا تھا، حالانکہ انہوں نے ناندیڑ کی سی بی آئی عدالت کے سامنے اب دی  گئی عرضی  میں حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس کام کے بعد شندے نے ایک ‘پرچارک’ بننے کی تربیت حاصل کی اور بالآخر 1999 میں انہیں بجرنگ دل کی ممبئی یونٹ کا سربراہ بنایا گیا۔

اپنے حلف نامے میں شندے نے تین لوگوں کا نام لیا ہے،  جس میں 2008 کے مالیگاؤں بلاسٹ معاملے  کے ایک ملزم بھی شامل ہیں، جنہوں نے پونے کے سنگھ گڑھ میں ہتھیارچلا نے اور بم بنانے کی تربیت حاصل کی تھی۔ شندے کا دعویٰ ہےکہ ،  دہشت گردانہ سرگرمیوں سے میں متفق نہیں تھا۔ پھر بھی میں نے سازش میں صرف یہ جاننے کے لیے حصہ لیا کہ دہشت گردی کی تربیت میں کون کون شامل ہیں۔

سن 2000 کی دہائی کے اوائل میں مہاراشٹر میں دھماکوں کے کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے تھے، جہاں ہندو برادری کے لوگ دہشت گردانہ سرگرمیوں سے جڑے تھے۔ بعدمیں حیدرآباد کی مکہ مسجد (2007)، اجمیر شریف درگاہ (2007) اور مالیگاؤں (2008) میں ہونے والے دھماکے بھی مبینہ طور پر رائٹ ونگ کے انتہا پسند گروپوں کے کارکنوں نے کیے تھے۔ 2010 میں اس وقت کے وزیر داخلہ پی چدمبرم نےشدت پسند  ہندوتوا گروپوں کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو ‘بھگوا آتنک واد‘ کا نام  بھی دیا تھا۔

یشونت شندے کا دعویٰ ہے کہ پربھنی دھماکے اور 2004 کے جالنا مسجد دھماکے دونوں میں ناندیڑ والے طریقے کا ہی استعمال کیا گیا تھا، لیکن انہیوں جان بوجھ کر صرف ناندیڑ کیس پر توجہ مرکوز کی ہے۔ ان مقدمات میں عدالتیں ملزم کو پہلے ہی بری کر چکی ہیں۔ میں صرف عدالت میں چل رہے کیس پر توجہ مرکوز کرنا چاہتا ہوں۔

ان کے وکیل دیلماڑے کا کہنا ہے کہ عدالت نے سی بی آئی کے وکیل (پبلک پراسیکیوٹر) اور ملزم دونوں کو سمن بھیج کر 22 ستمبر تک ان کاجواب طلب کیا ہے۔