ہندوستان کے لیے گجرات کے انتخابی نتائج کے نظریاتی مضمرات بہت سنگین ہوں گے۔ مسلمان اور عیسائی مخالف نفرت اور تشدد گجرات کے باہر بھی شدت اختیار کریں گے۔ مزدوروں، کسانوں، طلبہ وغیرہ کے حقوق کو محدود کرنے کے لیے قانونی طریقے اپنائے جائیں گے۔ آئینی اداروں پر بھی دباؤ بڑھے گا۔
انتخابات کا ایک دور ختم ہو چکا ہے۔ نتائج یک طرفہ نہیں رہے۔ اگر بھارتیہ جنتا پارٹی نے گجرات میں ریکارڈ توڑ کامیابی حاصل کی ہے تو ہماچل پردیش میں وہ اقتدار سے باہر ہو گئی ہے اور دہلی کی میونسپلٹی میں بھی اسے شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اگر گجرات کانگریس پارٹی کے لیے مایوس کن رہا ہے تو ہماچل پردیش نے بھارتیہ جنتا پارٹی کو چیلنج کرنے کی اپنی صلاحیت پر یقین کو باقی رکھا ہے۔
عام آدمی پارٹی کو ان انتخابات کی اہم خبر کہنا چاہیے۔ کیونکہ اس نے گجرات میں اپنی طاقتور موجودگی درج کرائی ہے اور دہلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی بھاری اور چست الیکشن مشین کو ناکارہ ثابت کر دیا ہے۔ ودھان سبھا اور لوک سبھا کے جو ضمنی انتخابات ہوئے، ان کے نتائج نے بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کے ناقابل تسخیر ہونے کے بھرم کو توڑ دیا ہے۔
کیا ان ریاستوں سے باہر ہندوستان کے لوگ ان نتائج پر اس طرح غور کر سکیں گے؟ سچ تو یہ ہے کہ ٹی وی اور باقی میڈیا کی وجہ سے ہماچل پردیش اور دہلی کے نتائج سے زیادہ گجرات میں بی جے پی کی بے مثال جیت کا چرچہ ہوتا رہے گا۔ اسی کواصلی خبر بتایا جائے گا۔
دہلی کے بلدیاتی انتخابات میں اپنی شکست کے باوجود بی جے پی لیڈر ڈھٹائی سے کہہ رہے ہیں کہ بھلے ہی عام آدمی پارٹی کے پاس اکثریت ہو، میئر کے عہدہ پر ان کا قبضہ ہوگا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بی جے پی اپنے ووٹروں سے کہہ رہی ہے کہ نتیجہ کچھ بھی ہو، وہ جانتی ہے کہ کس طرح اقتدار پر قبضہ کرنا ہے۔
ہماچل پردیش کے بارے میں بھی کہا جا رہا ہے کہ بی جے پی فاتح کانگریس پارٹی کے ایم ایل اے کو خریدے گی اور اقتدار اسی کے پاس رہے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ بی جے پی اقتدار کی دعویدار ہوگی اور اقتدار حاصل کرنے کا اس کا ہر طریقہ جائز ہے۔ منی پور، مدھیہ پردیش، کرناٹک یا مہاراشٹر میں اقلیت میں ہونے کے باوجود اقتدار پر قبضہ کرنے کی ان کی چال کو عوامی قبولیت نے بھی اسے کہیں اور دہرانے کا حوصلہ دیا ہے۔
انتخابات کو جنگ میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ یہ مانتے ہوئے کہ جنگ میں سب کچھ جائز ہے، انتخابات کے نتائج کو الٹ دینے کی ہر چال کو جائز سمجھا جا رہا ہے۔ گویا اقتدار اب بی جے پی کا حق ہے اور اگر عوام نے کسی اور کو منتخب کرنے کی غلطی کر دی ہے تو اسے درست کرنے کا حق بی جے پی کو ہے۔ اسی لیے گجرات کے انتخابی نتائج کو ہماچل پردیش، دہلی اور دیگر جگہوں پر دوسری پارٹیوں کی حکومتیں گرانے یا نہ بننے دینے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
اگر گجرات جیسی ‘خوشحال’ ریاست کے لوگ بی جے پی کے حق میں ووٹ دے رہے ہیں تو باقی ریاستوں کے لوگوں کی جمہوری حماقتوں کا خمیازہ وہ غریب ریاستیں کیوں بھگتیں؟ ہر ریاست کو گجرات کی کسوٹی پر کھرا اترنا ہوگا۔
اس پس منظر میں ان انتخابی نتائج کے قومی مضمرات پر غور کرنا ضروری ہے۔ یہ درست ہے کہ الیکشن میں کسی ایک نتیجے کی وجہ ایک ہی نہیں ہوتی۔ مختلف ووٹرز مختلف وجوہات کی بنا پر ایک ہی فیصلہ کر سکتے ہیں۔ ہر کسی کے فیصلے کے پیچھے ایک ہی وجہ نہیں ہوتی۔ لیکن ایک ‘مینڈیٹ’ جو ان مختلف وجوہات سے ابھرتا ہے اس کے بالکل مختلف نتائج ہو سکتے ہیں۔ یعنی وجہ اور اثر کے درمیان کوئی براہ راست تعلق نہیں ہوگا۔
مثال کے طور پر، 2014 اور 2019 میں، بہت سے ووٹروں نے یہ سوچ کر بی جے پی کو ووٹ دیا کہ ملک کی اقتصادی ترقی تیزی سے ہوگی۔ لیکن ان کے ووٹ سے جو نتیجہ آیا اس نے کچھ اور ہی کر دیا۔ مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت اور تشدد اور اکثریتی قوانین کی تشکیل، آزاد میڈیا کا خاتمہ، تعلیمی اداروں کی خود مختاری کا خاتمہ، سبھی بی جے پی کے ووٹروں نے اسے اس کے لیے منتخب نہیں کیا۔ لیکن یہ سب ان کے ووٹ کی وجہ سے ہوا۔
بی جے پی کے تمام ووٹر عمر خالد یا سدھا بھاردواج کی گرفتاری نہیں چاہتے ہوں گے اور شاید ان کا کریڈٹ نہ لینا چاہیں۔ لیکن انہوں نے جس طرح سے ووٹ دیا، اس کا یہی نتیجہ نکلا۔ اس بار کیا ہوگا؟
جیسا کہ ہم نے پہلے کہا کہ گجرات کا سایہ ہی سب سے دراز ہوگا، اس کے نتائج ہی ہندوستانی عوام کو زیادہ متاثر کریں گے۔ اس بار گجرات میں بی جے پی کے سرکردہ لیڈروں نے مسلم مخالف اور گجراتی شناخت کی بنیاد پر الیکشن لڑا۔ وزیر اعظم نے بار بار اپنے ووٹروں کو ‘اربن نکسلیوں’ کا خوف دکھایا۔ یہ کہ وہ انہیں ان نکسلیوں سے بچانا چاہتے ہیں۔ انہوں نے کانگریس پارٹی پر میدھا پاٹکر کے ساتھ ہونے کا الزام لگایا جو کہ گجرات مخالف ہیں۔ کون سوچ سکتا تھا کہ گجرات میں میدھا پاٹکر بھی انتخابی ایشو بن سکتی ہیں!
تمام حدیں توڑتے ہوئے ہندوستان کے وزیر داخلہ نے 2002 کے تشدد کو حق بہ جانب ٹھہرایا۔ یہ کہہ کر کہ وہ دراصل فسادیوں کو سبق سکھانے کی کارروائی تھی۔ یا واضح طور پر یہ ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف صف آراکرنے کا ایک آزمودہ نسخہ تھا۔ انتخابی مہم کے اختتام پر ایک اداکار اور بی جے پی لیڈر نے ہندوؤں کو یہ کہہ کر ڈرایا کہ وہ بنگالیوں سے گھرے ہوئے ہیں۔ آخر وہ سستی گیس کا کیا کریں گے؟ کیا آپ بنگالیوں کے لیے مچھلی پکائیں گے؟ اصل چیز مہنگائی ہے یا اپنی جان بچانا؟
اتنی بے شرم فرقہ وارانہ زبان میں گجرات میں بھی الیکشن اس سے پہلے بھی نہیں لڑے گئے ۔ اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بی جے پی کو جو بھاری اکثریت ملی ہے اس میں اس اپیل کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ بلکہ یہ وہ بنیادی اپیل رہی ہے جس کی وجہ سے ووٹروں نے بی جے پی کو منتخب کیا۔ اب تجزیہ کار اور بھی بہت سی وجوہات دیں گے لیکن یہ واضح ہے کہ یہ ایک اکثریتی مینڈیٹ ہے۔
یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بلقیس بانو کی عصمت دری اور اس کے خاندان کے افراد کے قاتلوں کی رہائی کی حمایت کرنے والے بی جے پی لیڈر کو بھاری ووٹوں سے جیت ملی ہے۔ اسی طرح انتخابی مہم کے درمیان موربی میں جھولتے پل کے گرنے اور اس کی وجہ سے 130 سے زیادہ اموات کے باوجود وہاں بی جے پی امیدوار کو بھاری اکثریت ملی۔ نرودا پاٹیااجتماعی تشدد اور قتل کیس میں سزا یافتہ کلیدی ملزم کی بیٹی بھی جیت گئی۔
اس کا مطلب سوائے اس کے اور کیا ہو سکتا ہے کہ ان ووٹرز کے لیے روزی روٹی، انتظامی کارکردگی، کرپشن وغیرہ ایشوز نہیں تھے۔ وہ ‘ثقافتی’ وجوہات کی بنا پر اپنا فیصلہ کر رہے تھے۔ پھر اس مینڈیٹ کی بنیاد پر منتخب ہونے والی سیاسی جماعت آگے کیا کرے گی؟ بی جے پی نے شک کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑی۔
انتخابی ضابطہ نافذ ہونے کے ساتھ ہی گجرات پولیس نے راجستھان میں ترنمول کانگریس کے ترجمان کو موربی پل حادثے کے بعد وزیر اعظم کے دورے کے بارے میں ٹوئٹ کرنے پر گرفتار کر لیا۔ اس میں جب اسے ضمانت ملی تو رہا ہوتے ہی اسے دوبارہ گرفتار کر لیا گیا۔ اس سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ گجرات میں حکومت کے خلاف کسی بھی قسم کی تنقید یا احتجاج کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوگی۔
یہ گرفتاری علامتی نہیں تھی۔ حکومت کی طرف سے واضح دھمکی ہے۔ مخالف سیاسی جماعتوں کو، تنقید کرنے والوں کو۔ آنے والے وقتوں میں گجرات میں انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کو ڈھٹائی سے دبایا جائے گا۔
انتخابات کے دوران ہی گجرات ودیا پیٹھ کے عین سامنے پل کے ستون پر ساورکر کی تصویر بنائے جانے سے یہ پیغام علامتی طور پر دیا گیا تھا کہ ریاست کا نظریہ اب گاندھی سے ساورکر کی طرف منتقل ہو چکا ہے،اور اب صاف صاف کہا جا رہا ہے۔ پہلے ہی گجرات ودیا پیٹھ کے وی سی کے عہدے پر گورنر دیوورت شاستری کی تقرری سےیہ واضح تھا۔ گاندھی کے اداروں کو اب ہندوتوا قوم پرستی کے لیے استعمال کیا جائے گا، یہ سابرمتی آشرم پر حکومت کے قبضے سے بھی واضح تھا۔
ہندوستان کے لیے گجرات کے انتخابی نتائج کے نظریاتی مضمرات بہت سنگین ہوں گے۔ مسلمان اور عیسائی مخالف نفرت اور تشدد گجرات کے باہر بھی شدت اختیار کریں گے۔ ایسے قوانین بنائے جائیں گے جن کے ذریعے انہیں مزید ہراساں کیا جائے اور کونے میں دھکیل دیا جائے۔ مزدوروں، کسانوں، طلبہ اور سماج کے دیگر طبقات کے حقوق کو محدود کرنے کے لیے انتظامی اور قانونی طریقے اپنائے جائیں گے۔
آئینی اداروں پر بھی دباؤ بڑھے گا اور وہ ہندوتوا قوم پرستی کے لیے کام کرنے پر مجبور ہوں گے۔ ہندوتوا قوم پرستی کا دباؤ دیگر سیاسی جماعتوں پر بھی بڑھے گا۔ عین ممکن ہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف ہونے والے مظالم کو اب موضوع بحث نہیں سمجھا جائے گا اور کوئی فریق اس پر بحث نہیں کرے گا۔
ایسے میں دانشوروں اور سول سوسائٹی کی ذمہ داری مزید بڑھ جاتی ہے۔ جمہوریت کے مفہوم کو عوامی تصورات میں زندہ رکھنے کے لیے، مسلمانوں اور عیسائیوں کو یہ احساس دلانے کے لیے کہ وہ اکیلے نہیں ہیں، ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا، یہ سب اوراس کے آگے بھی بہت کچھ ہمیں کرنا ہوگا۔ مزاحمت کا وقفہ ابھی اوراور طویل ہونے والا ہے۔
(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر