میرے پاس اس وقت ہندوستانی توشہ خانہ کی 2013سے اپریل 2022 تک کی 4660 تحائف کی لسٹ ہے۔ اس کو دیکھ کر ہندوستانی سیاستدانوں اور افسران کی کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے۔ان کو غیر ملکی حکمراں اونے پونے تحائف دے کر ہی ٹرخا دیتے ہیں۔اس لسٹ میں بس درجن بھر ہی ایسے تحائف ہیں، جن کی مالیت لاکھوں میں یا اس سے اوپر ہوگی۔ اکثر تحفے معمولی پیپرویٹ، وال پینٹنگ، پین، کم قیمت والے کارپیٹ وغیر ایسی چیزوں پر مشتمل ہیں۔
چونکہ پاکستان میں اس وقت توشہ خانہ یعنی غیر ملکی معززین کی طرف سے سیاستدانوں، افسران و صحافیوں کو موصول ہونے والے تحائف کا ایشو خاصا گرم ہے اور اس حمام میں سبھی ننگے ہوچکے ہیں، مجھے یاد آتا ہے کہ 90 کی دہائی کے اوائل میں متحدہ عرب امارات کے سربراہ شیخ زائد بن سلطان النہیان ہندوستان کے دورہ پر آئے تھے۔
ان دنوں غیر ملکی سربراہان کسی ہوٹل کے بجائے، انگریزوں کے تعمیر کردہ وائسراے ہاؤس جو اب راشٹرپتی بھون کہلاتا ہے اور ہندوستانی صدر کی رہائش گاہ بھی ہے، کے وسیع عریض مہمان خانے میں ہی قیام پذیر ہوتے تھے۔ دورہ کے آخری دن شیخ صاحب نے اپنے عملہ کے ذریعے راشٹرپتی بھون کے اسٹاف، حتیٰ کہ وہاں موجود بحریہ کے بینڈ اور دیگر عملہ میں ڈالر تقسیم کرائے۔ اس قدر فیاضی سے کام لیا گیاکہ وہاں کا م کرنے والے مالیوں کے حصہ میں بھی سو سو ڈالر آگئے۔
متحدہ امارات کے سربراہ کے دورہ کے کئی ماہ بعد برونئی کے بادشاہ حسن ال بولکیا ہ ہندوستان آئے اور اسی مہمان خانہ میں قیام پذیر ہوگئے۔ جب دورہ کے آخری د ن تک راشٹرپتی بھون کے عملہ کو، جن کو تحائف اور بخشش کی لت لگ گئی تھی، کو کوئی سن گن سنائی نہیں دی، تو مشورہ کرکے انہوں نے ایک ڈپٹی سکریٹری کے ذریعے بادشاہ کے پروٹوکول افسر تک اطلاع پہنچائی کہ جاتے وقت سربراہان مملکت کا یہاں تحائف دینے کی روایت ہے۔
اس افسر نے بادشاہ تک گزارش پہنچائی اور وہاں سے حکم آیا کہ جن لوگوں میں تحائف بانٹنے ہیں ان کی ایک فہرست بنائی جائے۔ برونئی کے سربراہ ان دنوں دنیا کے امیر ترین شخص تھے اور 20بلین ڈالر کی دولت کے مالک تھے۔ راشٹرپتی بھون کے عملہ کی رال ٹپک رہی تھی کہ جب امارات کے شیخ چند ماہ قبل مالی تک کو سو سو ڈالر بانٹ کر گئے ہیں، دنیا کا یہ امیر ترین شخص تو ان کا مالا مال کردے گا۔ نہ صرف لسٹ بن گئی، بلکہ اس میں سینارٹی اور خدمت کے حساب سے کس کو کتنا ملنا چاہیے وہ بھی درج کیا گیا۔
پروٹوکول کے مطابق دورہ پر آئے صدر یا بادشاہ کی ایر پورٹ کی طرف روانگی سے قبل وزیر اعظم ان سے الوداعی ملاقات کرنے آجاتا ہے۔ لہذا جب وزیر اعظم نرسمہا راو، جو خود ہی وزارت خارجہ کا قلمدان بھی سنبھالے ہوئے تھے، راشٹرپتی بھون کے مہمان خانہ میں پہنچے، تو بادشاہ سلامت نے ان کی خدمت میں یہ لسٹ پیش کی اور کہا کہ ان افراد نے تحائف مانگے ہیں۔ حیران و پریشان نرسمہا راؤکو یہ قضیہ سمجھنے میں کئی لمحے لگ گئے۔ اپنے دفتر واپس آتے ہی انہوں نے سبھی افراد کو معطل کرنے او ر مختلف سزائیں دینے کے احکامات صادر کردیے۔
کہتے ہیں کہ بحریہ کے بینڈ کو ڈس بینڈ کرکے سائچن گلیشر، انڈمان نکوبار دوردراز اور دشوار گذار علاقوں میں ڈیوٹیوں پر بھیجا گیا۔ یہی حال دیگر عملہ کا بھی ہوگیا۔ اس پر ہمارے ایک سینیر شاستری راما چندرن نے کہا کہ اس ناکارہ عملہ کو معلوم ہونا چاہیے تھا کہ برونئی کا بادشاہ اسی لیے دنیا کا امیر ترین شخص ہے کیونکہ وہ عرب شیخوں کے برعکس خرچ ہی نہیں کرتا ہے۔
نئی دہلی میں اپنے صحافتی کیریر کے دوران مجھے بھی کئی بار صدر، وزیراعظم اور وزیر خارجہ کے ساتھ غیر ملکی دورہ پر جانے کا موقع ملا ہے۔ مجھے اس پر حیرانگی ہوئی کہ پاکستان کے توشہ خانہ کی لسٹ میں صحافیوں نے بھی ڈبکی لگائی ہے۔ ہندوستانی حکمرانوں کے وفدکو بھی تحفے ملتے ہیں، مگر اس میں شامل کسی صحافی پر یہ مہربانی نہیں ہوتی ہے۔ واپسی پر ایر انڈیا بس ایک مومنٹو تھما دیتا تھا۔
وزیر اعظم یا صدر جس ایر انڈیا ون جہاز میں سفر کرتے ہیں، اس کے چار حصے ہوتے ہیں۔ پائلٹ سے متصل یا دوسری منزل پر صدر یا وزیر اعظم کا کیبن ہوتا ہے۔ اگر فیملی ساتھ نہ ہوتو یہی دفتر بھی بنا ہوتا ہے۔ ورنہ دوسرا حصہ جس میں وزیر اور افسران کی ٹولی ہوتی ہے، دفتر کا کام کرتا ہے۔ تیسرا حصہ صحافیوں کے لیے مخصوص ہوتا ہے، جس کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ صرف اسی حصہ میں بار ہوتا ہے۔ اس لیے صدر یا وزیر اعظم کے کیبن میں جانے اور سونے کے بعد افسران اور وزراء شغل کرنے کے لیےاسی کیبن میں آکر گپ شپ کرتے ہیں۔
بوتل منہ سے لگتے ہی، فرفر بولنے بھی لگتے ہیں اور بسا اوقات زمین سے ہزاروں فٹ اوپر پرواز کرتے ہوئے کئی سربستہ راز بھی کھل جاتے ہیں۔ جہاز کا آخری حصہ سیکورٹی کے عملہ کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ 2014میں برسراقتدار میں آنے کے بعد وزیر اعظم نریندر مودی نے صحافیوں کو اپنے ساتھ لینے کا سلسلہ بند کردیا۔
ویسے تو میڈیا آرگنائزیشن کو قیام و طعام کا خرچ خود ہی برداشت کرنا پڑتا تھا، بس صرف جہاز کا کرایہ ادا نہیں کرنا پڑتا تھا، کیونکہ ایر انڈیا ون خاصا دیوہیکل بوئینگ747-400جہاز ہے، جو دراصل 660مسافروں کو لیجانے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس لیے اس میں 20یا 30صحافی ایڈجسٹ ہوتے ہی تھے۔
خیر مجھے پاکستانی سیاستدانوں پر خاصا رشک آتا ہے کہ ان کو غیر ملکی حکمرانوں کی طرف سے کروڑوں کے قیمتی تحائف ملتے ہیں۔ میرے پاس اس وقت ہندوستانی توشہ خانہ کی 2013سے اپریل 2022تک کی 4660 تحائف کی لسٹ ہے۔ اس کو دیکھ کر ہندوستانی سیاستدانوں اور افسران کی کم مائیگی کا احساس ہوتا ہے۔ان کو غیر ملکی حکمراں اونے پونے تحائف دے کر ہی ٹرخا دیتے ہیں۔ اس لسٹ میں بس درجن بھر ہی ایسے تحائف ہیں، جن کی مالیت لاکھوں میں یا اس سے اوپر ہوگی۔ اکثر تحفے معمولی پیپرویٹ، وال پینٹنگ، پین، کم قیمت والے کارپیٹ وغیر ایسی چیزوں پرمشتمل ہیں۔
آخر پاکستانی سیاستدانوں میں کون سے سرخاب کے پر لگے ہیں کہ ان کو اتنے مہنگے گفٹ ملتے ہیں۔ ظاہر سی بات ہے، جو اتنے مہنگے گفٹ دیتا ہوگا، و ہ اس کے بدلے میں ضرور کچھ نہ کچھ لیتا ہی ہوگا۔ 1978 کے گزٹ کے مطابق ہندوستان میں وزیروں اور افسران کو ملنے والے تحفے کی قیمت اگر پانچ ہزار روپیہ سے کم ہے، تو اس کا وصول کنندہ اس کو ڈیکلئیر کرنے کے بعد اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔ اگر زیادہ ہے تو اضافی قیمت دےکر اس کو وصول کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس لسٹ کے مطابق جو تحائف بغیر قیمت کے وصول کنندہ اپنے گھر قانونی طور پر لے جاسکتا ہے، وہ بھی اکثر توشہ خانہ کو ہی دیے گئے ہیں۔
توشہ خانہ کو ملنے والی سب سے مہنگی چیز چاندی کے ہیرے اور زمرد کے زیورات کا سیٹ تھا۔جو سابق وزیر خارجہ سشما سوراج کو موصول ہوئی۔ اس کی قیمت 6.70 کروڑ روپے تھی۔ اس کے بعد 2018میں سکریٹری خارجہ وجے گوکھلے کو ایک بکس ملا ہے، جس میں کڑے، پین، گھڑیاں اور دیگرسامان تھا۔ اس کی مالیت چار کروڑ روپے تھی۔اسی طرح وزارت خارجہ کے ایک ڈپٹی سکریٹری مانہار سن یادو کو سوا دو کروڑ کی ڈائمنڈ واچ ملی ہے۔ وزیراعظم مودی کے سکریٹری سنجیو سنگلا کو اسی سال ایک کروڑ 25لاکھ کی گھڑی ملی ہے۔
سری لنکا میں ہائی کمشنر گوپال بھاگلے کو بھی 50لاکھ کی گھڑی اور کف لنکس ملی ہیں۔وزیر اعظم مودی کو ملنے والے مہنگے تحفے میں ایک چھوٹی انگوٹھی ہے جس میں بھگوان گنیش کی مورتی ہے۔ اس کی قیمت 80ہزار روپے ہے۔ وزیر اعظم کو ملنے والے تحائف اب حال ہی میں بنائے گئے وزیر اعظم میوزیم میں رکھے جاتے ہیں۔ یہ میوزیم اس سے قبل صرف ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کی چیزوں کی نمائش کے لیے وقف تھا۔
سال 2013میں کانگریس کی صدر سونیا گاندھی کو دورہ پر آئے کسی سربراہ مملکت نے سات لاکھ روپے کا ایک گولڈ نیکلس اور چھ لاکھ روپے کی ریسٹ واچ دی۔ گو کہ وہ کسی سرکاری عہدہ پر نہیں تھی، مگر اس کے باوجود انہوں نے یہ تحفہ توشہ خانہ کوبھیج دیا۔ اسی سال من موہن سنگھ کی اہلیہ کو نو لاکھ روپے کی ایک گھڑی اور ایک لاکھ بیس ہزا کا نیکلس ملا، مگر یہ سبھی چیزیں توشہ خانہ کی ملکیت ہیں۔
Categories: فکر و نظر