وفاتیہ: بزرگ صحافی شیتلا سنگھ نہیں رہے۔صحافت میں سات دہائیوں تک سرگرم رہتے ہوئے انہوں نے ملک اور بیرون ملک راست گفتارکی سی امیج اور شہرت حاصل کی اور اپنی صحافت کو اس قدرمعروضی بنائے رکھا کہ مخالفین بھی ان کے پیش کردہ حقائق پر شک و شبہ کی جرأت نہیں کرتے تھے۔
گزشتہ منگل کو معروضی اور مزاحمتی صحافت کے لیے معروف ملک کے واحد مؤقر ہندی روزنامہ ‘جن مورچہ’ کے 95 سالہ مدیرشیتلا سنگھ نے ایودھیا کے ایک اسپتال میں آخری سانس لی تو ہندی اخباروں کی وہ روایت کچھ اور مفلوک الحال ہوگئی ،جس کے تحت انہیں اور ان کو چلانے والے اداروں کو ان کے مالکان کے بجائے مدیران کے نام اور کام سے جانا جاتا تھا۔
سال 1962 میں جب ہندوستان اورچین کی جنگ کے دوران ‘جن مورچہ’ کے بانی مدیر مہاتما ہرگووند کو ایک اداریے کی پاداش میں جیل بھیج دیا گیا، تب شیتلا سنگھ نے اس کی ادارتی ذمہ داری سنبھالی اور آخری سانس تک اپنے صحافتی فریضہ کو بحسن وخوبی انجام دیتے رہے۔ اور جب رام جنم بھومی-بابری مسجد تنازعہ کے بہانے ملک کےامن وچین سے کھیلتا مذہبی اور فرقہ وارانہ جنون ان کی دہلیز تک آپہنچا، تو بھی انہوں نے جن مورچہ کو جن مورچہ ہی بنائے رکھا ،اوراس کوکسی کج روی یا بے راہ روی کا شکارنہیں ہونے دیا۔
یہی نہیں، وہ مذکورہ تنازعہ کو حل کرنے کی کوششوں سےبھی وابستہ رہے اور اس کی راہ میں آنے والے سنگھ پریوار اور کانگریسی لیڈروں کو بے نقاب کرنے کے لیے مشہور زمانہ کتاب بھی لکھی۔ تقریباً چار دہائیوں تک وہ ایودھیا میں رامائن میلوں کے منتظم اور چار بار پریس کونسل آف انڈیا کے ممبر بھی رہے۔
لیکن ان کا تعارف اتنا ہمہ جہت اور ہمہ گیر ہے کہ یہ سب کہنے کے بعدبھی وہ مکمل نہیں ہوتا۔ صحافت کی دنیا میں اپنی7 دہائیوں کی سرگرمی میں انہوں نے ملک اور بیرون ملک راست گفتار کی سی امیج اور شہرت حاصل کی،انہوں نے اپنی صحافت کو اس قدر معروضی بنائے رکھا کہ ان کے پیش کردہ حقائق کی پاکیزگی پرمخالفین بھی شک وشبہ کی جرأت نہیں کرتے تھے۔
انہیں رام جنم بھومی بابری مسجد تنازعہ کے تمام پیچ وخم کا ماہرتوسمجھا ہی جاتا تھا۔ اب جبکہ وہ اس دنیا کو الوداع کہہ چکے ہیں،یہاں پیش ہےان پرضعف قویٰ اور پیری کے غالب آنے سے پہلے ان کی شخصیت اور کارنامےکے مختلف پہلوؤں پر ان کے ساتھ کی گئی طویل بات چیت کے اہم اقتباسات، جو ان سے ہوئی اس نوع کی آخری بات چیت بھی ہے۔
آپ نے سات دہائیوں سے زیادہ صحافت کو دیے۔ آپ مستقبل میں کن باتوں کے لیے یادکیا جانا پسند کریں گے؟
اگر صحافت کوئی انٹرپرائز یا کاروبار ہے تو اس میں کہیں کچھ بھی ایسا نہیں جس کے لیے مجھے یاد کیا جائے۔ لیکن اگریہ عوام کے لیے ہے تو مجھے اس بات کے لیے یاد کیا جا سکتا ہے کہ میں نے ہر موقع پر واچ ڈاگ آف پیپل کے طور پر اس کا استعمال کیا اور جن مورچہ کو پبلک فورم آف گریوینس بنائے رکھا۔ حالاں کہ، اس دوران بحران بھی کم نہیں آئے۔ عمر کے اس مقام پر پہنچ کر مجھے اطمینان ہے کہ میں ساری زندگی عوام کے حقوق کی نگہبانی کرتا رہا۔
صحافتی زندگی کا سب سے کمزور لمحہ کون سا رہا، جب آپ نے محسوس کیا کہ آگے کا راستہ…
ہاں، 1990 میں 30 اکتوبرکو میں نے اپنے آپ کو بہت کمزوراور لاچارمحسوس کیا۔ اس دن ایودھیا میں تمام حفاظتی انتظامات کی دھجیاں اڑائی گئیں اور آئینی اصولوں کو خاک میں ملا دیا گیا۔ یہ سب میری آنکھوں کے سامنے ہوا ،اس وقت میں محسوس کر رہا تھا کہ جب فاشزم اس طرح سر چڑھ کر بول رہا ہے تو کچھ لکھنے پڑھنے کا کیا فائدہ؟ میں نے جن مورچہ میں اپنے نیوز ایڈیٹر چندر موہن سے کہا کہ آج کوئی اداریہ نہ لکھا جائے۔ لیکن انہوں نے کہا کہ ایسا کرنا ٹھیک نہیں ہوگا۔ تب میں نے جو اداریہ لکھا، وہ اس دن کا سب سے زیادہ زیر بحث اور سراہا جانے والا اداریہ ثابت ہوا۔ کچھ ایسا ہی 2 نومبر اور بعد میں 6 دسمبر 1992 کو بھی ہوا۔ وہ صحافی کے طور پر ہمارے امتحان کے اور مشکل ترین دن تھے، جس میں ہم کامیاب ہوئے۔
آپ سب سے زیادہ خوشی کب محسوس کرتے ہیں؟
اپنے نتائج کے درست ثابت ہونے پر۔ میں آپ کو بتاؤں کہ مجھے قانون اور فلسفے میں خاص دلچسپی ہے۔ ایودھیا معاملے میں صدرجمہوریہ کی جانب سے مانگے جانے پر سپریم کورٹ نے انہیں کیا رائے دی تھی، یاد ہے آپ کو؟وہ من و عن وہی تھا، جس کی میں نے پیش گوئی کی تھی، حالانکہ اس وقت بہت سے قانون کے واقف کار مجھ سے متفق نہیں تھے۔
کبھی صحافی ہونے پر افسوس بھی ہوا؟
ہاں یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ صحافت کی معرفت جتنی عوامی بیداری ہم لانا چاہتے تھے،نہیں لا پائے۔ لیکن پھر میں سوچتا ہوں کہ یہ ناکامی میرے اکیلے کی نہیں ہے، اجتماعی ہے۔ اس شعبے میں روز افزوں کمرشیل ازم اور منافع کےاہم ہوتے جانے پر مجھے افسوس ہوتا ہے۔ میرے دیکھتے ہی دیکھتے، قدروں پر مبنی (ویلیو بیسڈ) اور عوام کی صحافت کو جلا بخشنے والے مدیران کی نسل معدومیت کے دہانے پر پہنچ چکی ہے اور اپنی ذاتی کامیابیوں کےلیے فکرمند لوگ ہر جگہ سایہ فگن ہیں۔ وہ ذاتی مفادات کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں اور سب سے افسوسناک امر یہ ہے کہ اب مدیر نامی ادارہ ہی معدومیت کے دہانے پر ہے۔
اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو صحافت کا مستقبل کیا ہوگا؟
اس کی ترجیحات بدل جائیں گی۔ منافع بخش کاروبار بن کر یہ لوگوں کو آگاہ اوربیدار کرنے کا کام تو کیا ہی کرے گی، ان کی تفریح کا سامان بھی ٹھیک سےکر سکے گی، اس پرمجھے شک ہے ۔تب اخبارپروڈکٹ میں بدل جائیں گے اور عوامی مطالبات کو پورا کرنےلگیں گے۔ اس کے نام پر یہ انسان کی دبی ہوئی اور غیر مطمئن خواہشات کو مسخ شدہ انداز میں پورا کرنے کا ذریعہ تو ابھی سے بن چکے ہیں۔ اگر ایسا ہی رہا اور کچھ بھی نہ ہوا تو صحافت صحافت نہیں رہے گی۔
کیا اس صورت حال سے بچا جا سکتا ہے؟
کیوں نہیں؟ دیکھیے صحافت ایک ہتھیار ہے۔ جیسے چاقو ڈاکٹر کے ہاتھ میں ہو تو زندگی دیتا ہے، لیکن قاتل کے ہاتھ میں ہوتو جان لے لیتا ہے، اسی طرح صحافت کے حوالے سے بھی بہت کچھ اس بات پر منحصر ہے کہ وہ کن ہاتھوں میں ہے اور اس کے اختیارات کہاں مرتکز ہیں۔ آج کے حالات میں قلم کسی کے ہاتھ میں ہے اور کالم کسی اور کے ہاتھ میں۔پرائس وار میں ملوث اخبار اپنی خبروں کے معیار کو لے کر نہیں ، اشاعت بڑھانےکے لیےسنسنی پھیلانےاور بھنانےمیں زیادہ محتاط ہیں۔ وہ عوامی توقعات پر کیسے پورا اتریں گے؟
کم از کم ہندی کی صحافت کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ وہ مسلسل مزاحمت کرتی رہی ہے۔ وہ مزاحمت کی ایک طویل ثقافت کی وارث ہے۔ پھر وہ مزاحمت کرنے کے بجائے گلوبلائزیشن کے گلیمرمیں پناہ لیتی کیوں نظر آنے لگی ہے؟
مسئلہ یہ ہے کہ معاشرتی اقدار اور زندگی کی قدریں بدل چکی ہیں۔ آج اعزاز واکرام کے معیار کیا ہیں؟ قربانی،ریاضت، علم یا ایثار؟ نہیں، صرف اور صرف پیسہ یہ اخلاقی یا غیر اخلاقی طریقوں سے کیسے بھی حاصل کیا جاتا ہے اور جب پیسہ فیصلہ کن عنصر ہوگا تو پھر اسے حاصل کرنے کے لیےجائز یا ناجائز ہر طرح کے کام ہوں گے ہی۔ ہو ہی رہے ہیں۔ نتیجتاً تمام شعبے زوال پذیر ہیں۔ پھر صحافت اس سے اچھوت کیسے رہ سکتی تھی۔ وہاں بھی سرمائے کی چوری ہو رہی ہے اور وہ عالمگیریت کےقصیدے پڑھ رہی ہے۔
پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا کا موازنہ کریں تو کون زیادہ ذمہ دار لگتا ہے؟ کس کا زوال زیادہ ہوا ہے؟
دیکھیے جب ایک ساکن تصویر کا بھی اثر ہزار لفظوں کے برابربتایا جاتا ہے، تو الکٹرانک میڈیا تو لائیو نشریات کا میڈیم ہے۔ بصری میڈیاکا امپیکٹ بھی زیادہ ہوتا ہے، اور افیکٹ بھی۔ اس لیے اس کے غلط استعمال کا خطرہ بھی بڑھ گیا ہے۔ یہ کسی کو بھی مشتعل کر سکتا ہےیا بھڑکا سکتا ہے، جبکہ پرنٹ کا اثر مستقل ہوتا ہے۔ پرنٹ میڈیا آج بھی زندہ ہے، تواسی استحکام کی وجہ سے ۔
آپ آزاد صحافت کے حق میں ہیں یاپرعزم؟
ہر انسان کے اپنے خیالات ہوتے ہیں اور ان کا اثر اس کے اعمال پر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ججوں کے فیصلوں میں بھی یکسانیت نہیں ہوتی۔ اپیلوں میں وہ پلٹ بھی جاتے ہیں۔ میں صرف اتنا چاہتا ہوں کہ حقائق ویسے ہی پیش کیے جائیں جیسے وہ ہیں۔ ان میں ملاوٹ نہ کی جائے۔ ہاں، نظریےالگ ہو سکتے ہیں۔ تجزیہ کا اپنا انداز ہو سکتا ہے۔
اگر فرقہ پرستی کو ملک کے سامنے سب سے بڑا چیلنج مانیں، تو کیا ہندی صحافت نے اس کے خلاف ڈھنگ سے مقابلہ کیا؟
کم از کم جن مورچہ تو لڑا ہی۔ جو نہیں لڑے، ان کی اپنی مجبوریاں ہیں۔ وہ ایسے ہاتھوں میں ہیں، جنہیں فرقہ پرستی سے لڑنے میں نہیں اس کے پھیلاؤ میں معاون بننے میں اپنا مفاد نظر آتا ہے۔ پھر وہ فرقہ پرستی سے کیوں بھڑنے لگے؟
آپ غیر منقسم کمیونسٹ پارٹی کے رکن رہے ہیں۔اس کی طرف سے الیکشن بھی لڑ چکے ہیں۔ لوگ صحافت کی سیڑھی کا ستعمال کرکے سیاست میں آتے ہیں۔ آپ سیاست چھوڑ کر صحافت میں آئے؟
سچ کہوں، تو کمیونسٹ یا لیفٹسٹ ہونے پر مجھے فخر ہے۔ لیکن میں کسی سہولت یا فائدے کے لیے لیفٹسٹ نہیں ہوں۔ یہ میرا عقیدہ ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اسی راستے سے سماجی فلاح و بہبود کا کام ہو سکتا ہے اور ایک عادلانہ نظام آ سکتا ہے۔ دراصل ہوا یہ کہ کمیونسٹ پارٹی میں رہتے ہوئے 15 اپریل 1963 کو میں نے جن مورچہ میں کچھ ایسا لکھ دیا جو کمیونسٹ پارٹی کی پالیسیوں کے مطابق نہیں تھا۔ جب مجھ سے اس کی وضاحت طلب کی گئی تو میں نے کہا کہ یہ پارٹی کا اخبار نہیں ہے بلکہ پبلک فورم آف گریوینس ہے۔ اسی کے بعد پارٹی تقسیم ہوگئی، تو میں کسی کا ممبر نہیں بنا۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ادھر آپ اپنا ایک قابل قبول چہرہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں اوراپنے عزائم سے انحراف کر رہے ہیں؟
مجھے نہیں لگتا، لیکن جن کو لگتا ہے ان کو اپنے مفروضے قائم کرنے کا حق ہے۔
(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں اور تقریباً دو دہائیوں تک’ جن مورچہ’ کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔)
Categories: فکر و نظر