ادبستان

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

کیا ستم ہے کہ ہم لوگ مر جائیں گے

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سے مقتبس؛ کچھ روز پہلے میرے ہاتھ مسو لینی کی آپ بیتی لگی تو اسے پڑھنے بیٹھ گیا۔ اُس نے بالکل آغاز کے صفحات میں لکھا تھا کہ اُس کے حافظے میں بچپن کی کوئی ایسی یاد باقی نہ تھی جس سے اُس کی کوئی ایسی خصوصیت واضح ہوتی جو اُس کے والدین کے لیے خوشی اور آسودگی کا باعث ہوئی ہو۔ میں یہ پڑھ کر بہت دیر اپنے بچپن کی گلیوں میں بھٹکتا رہا تھا۔ میرے پاس بھی کوئی ایسی یاد نہیں تھی۔

Gulzar_PTI

گلزار کا انٹرویو: زبان بچے گی تو اسکرپٹ بچے گا، زبان اگر زندہ ہے تو اسکرپٹ آپ سیکھ لیں گے…

انٹرویو: ‘ زبان بچے گی تو اسکرپٹ بچے گا، زبان اگر زندہ ہے تو اسکرپٹ آپ سیکھ لیں گے۔ مجھے بنگلہ زبا ن خوبصورت لگتی تھی میں بولنا چاہتا تھا تو میں نے سیکھ لی…’ آج نامور شاعر اور نغمہ نگار گلزار کا یوم پیدائش ہے۔ اس موقع پر پیش ہے ان کے ساتھ زمرد مغل کی بات چیت۔

شیخ امام بخش ناسخ

امام بخش ناسخ: جن کا کلام چٹان کی طرح ٹھوس سہی، لیکن خشک اور بے فیض نہیں

قند مکرر؛ ناسخ کا نام آتے ہی کچھ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حکومت کرنا اور لیڈری کرنا ناسخ کا پیدائشی حق تھا۔ ناسخ مفکر نہ سہی،حقیقی معنوں میں زبردست شاعر بھی نہ سہی اس کی تمام توجہ تمام کوشش اور تمام زندگی نذر فروعات سہی لیکن وہ کسی ماحول ،کسی ملک ،کسی طبقے اور کسی زمانے میں ہوتا تو بھی اس کی ہستی غیر معمولی ما نی جاتی اور اس کی شخصیت کو نظر انداز کرنا آسان نہ ہو تا۔

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

تعطل میں پڑا حاصل

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ تایا جی بہت دلچسپ شخصیت کے مالک تھے ہنستے مسکراتے بات کرتے اورباتوں میں ہنستے مسکراتے ہی گالیوں کے پیوند بھی لگاتے جاتے۔اپنازیادہ وقت شکارپور، خیرپور یا سکھر میں گزارتے تھے جہاں اُن کے ارادت مندوں کا حلقہ تھا۔ کئی سال بعد وہ مجھے اپنے مریدوں سے ملوانے وہاں لے گئے تھے ۔ مجھے تب یوں لگا تھا جیسے مردوں کے مقابلے میں عورتیں اُن کی زیادہ مرید تھیں۔ وہ اُن پر نذرانوں کی بارش کردیتیں اور اپنے لیے دم دُعا کرواتی تھیں۔

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

ماں بیٹی

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ مجھے لگتاہے جیسا رشتہ ایک ماں اپنی بیٹی کے ساتھ یا ایک بیٹی اپنی ماں کے ساتھ قائم کرتی ہے؛ ہم گداختی کا رشتہ، کچھ نہ کہہ کر سب کچھ کہہ لینے والا رشتہ، ایسا کوئی بیٹا چاہے بھی تو اپنے ماں باپ سے قائم نہیں کر سکتا۔ ایسا اس کے بس میں ہے ہی نہیں۔

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

تختی تختی دو دانڑیں

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ سلیٹ، قاعدہ، تختی، سکول کی پیتل کی گھنٹی، چھٹی کے وقت زور دے دے کر پہاڑے یاد کرنا، اونچے شملے والے ہیڈ ماسٹر صاحب اور بہت کچھ ایسا ہے جسے عمر بھر یاد رکھا جا سکتا ہے۔ میں ان یادوں سے ہمیشہ توانائی کشید کرتا رہا ہوں۔

Milan Kundera (1929-2023). Photo: Twitter/@Ian_Willoughby

’میلان کنڈیرا کی موت سے ناول کا عظیم الشان قلعہ مسمار ہوگیا‘

خالد جاوید لکھتے ہیں ؛ میلان کنڈیرا کو دائیں بازو یا بائیں بازو کے جھگڑے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ کنڈ یرا دنیا کے لیے جو سب سےبڑا خطرہ سمجھتا ہے، وہ آمری حکومت کا وجود ہے۔خمینی، ماؤ، اسٹالن یہ سب کون ہیں؟ یہاں دائیں بازو اور بائیں بازو کا فرق کیا معنی رکھتا ہے ؟

radio-Thumb

کس طرح ریڈیو کو برصغیر میں سیاسی آلے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے

ویڈیو: برصغیر پاک و ہند میں ریڈیو کی تاریخ کو مؤرخ اور کولمبیا یونیورسٹی کی اسسٹنٹ پروفیسر ایزابیل الونسو نے اپنی کتاب ‘ریڈیو فار دی ملینز: ہندی-اردو براڈکاسٹنگ اکراس بارڈر’ میں قلمبند کیا ہے۔ ان سے اس کتاب، آزادی سے پہلے اور بعد کی براڈ کاسٹنگ پالیسیوں اور ان پر سامعین کے ردعمل کے بارے میں بات چیت۔​

حسرت موہانی، فوٹو: وکی پیڈیا

’سیاست کوئلہ کا کاروبار ہے جس میں سبھی کا ہاتھ اور بہتوں کا منھ کالا ہوتا ہے سوائے حسرت کے‘

ایسا نڈر، سچا، محبت کرنے والا اور محبت کا گیت گانے والا اب کہاں سے آئے گا۔ کسی سے نہ دبنے والا، ہر شخص پر شفقت کرنے والا، زبان کا فیاض، شاعروں کا والی، غزل کا امام، ادب کاخدمت گزار۔ کیسی سچی بات ایک عزیز نے کہی کہ سیاست کوئلہ کا کاروبار ہے جس میں سبھی کا ہاتھ اور بہتوں کا منھ کالا ہوتا ہے سوائے حسرت کے۔

Illustration: Pariplab Chakraborty.

منٹو نے کیوں کہا؛ہندوستان کو لیڈروں سے بچاؤ…

یہ لیڈر جلسوں میں سرمائے اور سرمایہ داروں کے خلاف زہر اگلتے ہیں صرف ا س لئے کہ وہ خود سرمایہ اکٹھا کر سکیں۔ کیا یہ سرمایہ داروں سے بدترین نہیں؟ یہ چوروں کے چور ہیں، رہزنوں کے رہزن۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام ان پر اپنی بے اعتمادی ظاہر کر دیں۔

کیفی اعظمی، ٖفوٹو: ٹوئٹر/ @AzmiShabana

’ہیومنزم‘ کیفی اعظمی کا شعری شناس نامہ ہے

ایسی شاعری جس کی ہمہ وقت ضرورت محسوس ہو جس کی لذت، جس کا لطف کبھی کم نہ ہو جو ذہن کو مہمیز کرے۔ بہت معصوم، بہت پیاری ہوتی ہے جو شریانوں میں لہو کی طرح دوڑتی ہے، آنکھوں سے آنسو کی طرح ٹپکتی ہے۔ اکیلی رات میں چاند کا روپ دھار لیتی ہے۔ ایسی کیفیت کیفی اعظمی کی شاعری میں ہے جس کی ساحری میں، میں اب تک قید ہوں۔

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

لفظ جادو مثال ہوتے ہیں

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ اباجان کتاب پر نظریں جما کر پڑھتے ہوئے بیچ بیچ میں ہمیں دیکھے جاتے ۔ اُن کا کبھی کتاب کو اور کبھی ہمیں دیکھنا اگرچہ اچھا لگتا تھا مگر میں ہمیشہ اُن کی نفاست سے تراشیدہ مونچھوں اور داڑھی کے بیچ جنبش کرتے ہونٹوں کو دِیکھا کرتا تھا۔ مجھے اس میں لطف آتا کہ وہ کبھی پھیلتے کبھی سکڑتے ، کبھی کھلتے اور کبھی بند ہوتے تھے ۔ایک بچے کے لیے یہ کتنی عجیب بات تھی کہ اس کے باپ کے جنبش کرتے ہونٹ کتاب میں لکھے ہوئے کو آواز میں تبدیل کر رہے تھے۔ یہ آواز اس بچے کےتصور کے پردے پر تصویریں بناتی تھی ۔ بچہ جب تجسس میں کتاب کو جھانک کر دیکھتا تو وہاں محض لفظ ہوتے تھے ۔ کتاب کے صفحے پر تیرتے ہوئے لفظ

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

لالہ او لالہ: چٹے خمور غبارے

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ اباجان کے زمانے میں استاد اور شاگرد کا رشتہ کچھ ایسا تھا جیسے دونوں ایک گھر کے افراد تھے۔ استاد کی قدرو منزلت کبھی کبھی توماں باپ سے بھی بلند لگا کرتی تھی۔ اساتذہ کی خدمت کے حوالے سے بعد ازاں اگرچہ کئی ناگفتہ باتیں بھی مشہور ہو گئیں مگر بالعموم اس رشتے میں اخلاص تھا۔ ہماری نسل تک آتے آتے یہ رشتہ قدرے کمزور پڑا مگرمجھے یاد ہے یہ پوری طرح تلف نہیں ہوا تھا جیسا کہ آج کل ہو چکا ہے۔

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

برباد ہوا، آباد ہوا

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ سائنسدانوں نے ہمیں محبت کے ہارمون کی خبر دی ہے۔ اس ہارمون کا نام ‘آکسی ٹوسین’ہے۔ جسے ہم ماں کی ممتا سمجھتے رہے اب پتہ چلا کہ یہ تو وہ ہارمون ہے جو ماؤں کے اندر زچگی اور بچوں کو دودھ پلانے کےعمل کے دوران خارج ہوتا ہے۔ ایک اور تحقیق بھی سامنے آئی ہے جس کے مطابق محبت کا یہ ہارمون اگر کسی کو سونگھایا جائے تو اس کے اندر جھوٹ بولنے کا رجحان بڑھ جاتا ہے؛ ہت تیرے کی۔

Shrikant-Verma-24-Feb-2023-Thumb

او ٹی ٹی اب پوری فیملی کا ہوگیا ہے، اسی سے مجھے پہچان ملی – شری کانت ورما

ویڈیو: آنکھوں دیکھی، دم لگا کے ہیشہ اور لال سنگھ چڈھا جیسی فلموں کے ساتھ–ساتھ پنچایت، مرزا پور اور برید: ان ٹو دی شیڈو زجیسی ویب سیریز میں اپنی اداکاری کا جوہر دکھا چکےاداکار شری کانت ورماسے ان کی زندگی، تھیٹر، ریڈیو، سنیما اوراوٹی ٹی پر ان کے تجربات اور سفر کے بارے میں بات چیت۔

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

عشق اولڑا جی جنجال

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ رشتے اور تعلقات دوپیڑھیوں تک تو کسی حد تک نبھ جاتے ہیں، اس سے اگلی پیڑھی کو عادتاً یا مجبوری میں رسم نبھانا ہوتی ہے اور بس۔

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

قبروں پر اُگی گھاس اور انسانی زندگی

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ ایک بات سمجھنے کی ہے کہ معاشرے میں مسائل کی اصل جڑ ثقافتی رنگارنگی کو تسلیم نہ کرنا ہے ۔ دنیا کے یک رنگ ہونے سے یہ رہنے کے قابل کہاں رہے گی، اس کا حسن ہی اس تنوع میں ہے ۔

اشونی ایر تیواری، گنیت مونگا، کارتیکی گونسالویس، امی پٹیل، شانو شرما، پونم دھامانیہ اورنیہا ویاس، فوٹو: سوشل میڈیا

  بالی وڈ کی آف اسکرین خواتین

فلمی تاریخ دان نریش تنیجا کا ماننا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیشہ ورانہ تربیت یافتہ خواتین بالی ووڈ کے ایسے شعبوں میں کارنامے دکھا رہی ہیں، جو ابھی تک صرف مردوں کے ہی کنٹرول میں ہوتے تھے۔ ان میں کیمروں کو سنبھالنا، ایڈیٹنگ جیسا مشکل اور صبر آزما کام اور حتیٰ کہ لائٹنگ میں بھی خواتین نے قدم جمائے ہیں۔

تصویر بہ شکریہ: بک کارنر جہلم/فیس بک

یوں مری قبر بنا

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ جن چیزوں سے منع کیا جاتا ہے وہی کرنے کو جی کیوں چاہتا ہے ؟ شایداس لیے کہ یہی اِنسانی فطرت ہے ۔ یہ مناعی اور روک ٹوک ہی انسانی تجسس اور ترغیب کی بنیاد ہے۔ یہی سبب رہا ہو گا کہ ہمارے ایمان کی بنیاد ی اینٹ’لا’ ہے۔ اقرار اور تصدیق کی منزل بعد میں کہیں آتی ہے؛نفی پہلے اثبات بعد میں۔ یہیں سے تجسس اور تشویق کو تحریک ملتی ہے۔

ضیا محی الدین، فوٹو فیس بک/ Zia Mohyeddin

ضیا محی الدین: جدید اردو نثر خوانی کے بانی و خاتم

نثری ادب کو باقاعدہ خطابت کی شکل دینا ضیا صاحب کا ہی کارنامہ ہے۔ انہوں نے اپنے مغربی اسٹیج اور فلم کی اداکاری کےتجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے اردو تحاریر کے جسم میں گویا روح پھونک دی۔ کردار کاغذ سے اٹھ کر حاضرین سےہم کلام ہوگئے اور سامعین چشمِ تصور سے ان کرداروں کی جزئیات میں کھو گئے۔

FotoJet (2)

نام محض وجود کا خول نہیں ہے

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ میں نہیں جانتا تھا کہ جس چھوٹے بھائی کا نام میں نے اپنے نام کا حصہ بنایا تھا ، ایسے وقت نے آنا تھا کہ وہ نہیں رہے گا۔مجھے اس کے بدن کے لوتھڑے اپنی آنکھوں سے دیکھنے تھے ۔ اس کا جنازہ پڑھنا تھا مگر اس کی تدفین میں شرکت سے معذور رہنا تھا ۔مجھے نہیں معلوم اس کی قبر کہاں ہے مگر یوں لگتا ہے وہ میرے وجود کے اندر ہی کہیں ہے۔ میں جب جب اسے یاد کرتا ہوں بے اختیار میرے آنسو بہہ نکلتے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ مجھے اپنے نام کے اس حصے سے بھی محبت ہو گئی ہے۔

خوشبو کی دیوار کے پیچھے

سبت کا دِن

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سے ایک باب؛ تویوں ہے کہ میں صاحبِ سبت ہوں مگر ایک آزمائش میں ہوں اور آزمائش یہ ہے کہ یوم سبت کو رنگ رنگ کی فربہ مچھلیاں اُچھلتے سامنے دیکھوں مگراُن کو کسی اور روز پکڑنے کے لیے نالیوں کے پھندے نہ لگاؤں۔

خوشبو کی دیوار کے پیچھے

محمد حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘ کا ابتدائیہ

خود نوشت: میں شاید ژاں پال سارتر کی طرح موت کو عظمت کا کفن نہ دے سکوں مگر میں اُس کی طرح یہ جان گیا ہوں کہ میرے پاس کچھ زیادہ برس باقی نہیں ہیں۔ بڑھاپا میرے وجود کے اندر نقب لگا کر داخل ہو چکا اور الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ اس کے باوجود میں موت سے خوف زدہ نہیں ہوں۔ جب وہ مجھے لینے آئے گی تو یہ ایک فطری عمل ہو گا جس کے سامنے مجھے سرِتسلیم خم کرنا ہو گا۔

GhalibTomb_DawnNews

غالب اور غم روزگار: غم عشق اگر نہ ہوتا، غم روزگار ہوتا

’غالب کی شاعری میں زندگی کے بہت سارے رنگ ہیں جن میں ایک رنگ وہ بھی ہے جنہیں عام طور پر ناقدین نظر انداز کرتے رہے ہیں اور وہ ہے عوامی دردوکرب کا رنگ جسے غالب نے اپنی شخصی زندگی کے تجربوں کے حوالے سے شاعری میں ڈھالا ہے۔‘

FotoJet (5)

غالب پر منٹو کی ایک خاص تحریر : قرض کی پیتے تھے…

’’حضرت، روپے کی ادائیگی، شاعری نہیں آپ تکلّف کو برطرف رکھیے۔ میں آپ کا مداح ہوں مجھے آج موقع دیجیے کہ آپ کی کوئی خدمت کرسکوں۔‘‘ غالبؔ بہت خفیف ہوئے؛’’لاحول ولا…آپ میرے بزرگ ہیں…مجھے کوئی سزا دے دیجیے کہ آپ صدرالصدور ہیں۔‘‘

خواجہ احمد عباس اور کرشن چندر

کرشن چندر کی کہانی خواجہ احمد عباس کی زبانی

یوم پیدائش پر خاص: وقت پڑنے پر کانگریسیوں کا ساتھ بھی دیا ہے، سوشلسٹوں کا بھی، کمیونسٹوں کا بھی۔ وہ ہر ترقی پسند اور انقلابی پارٹی کے ساتھ ہے۔ مگر کسی پارٹی میں نہیں ہے۔ وہ دھرم، مذہب، ذات پات کے بندھنوں سے آزاد ہے۔ سامراج اور فرقہ پرستی کا دشمن ہے، عوام اور اشتراکیت کا ساتھی ہے۔ وہ یہ سب کچھ ہے۔ اسی لیے میرا دوست ہے۔ ایسا دوست جسے سچ مچ ہم دم کہا جا سکتا ہے۔ ورنہ ’دوست‘ تو بازار میں ٹکے سیر ملتے ہیں۔

Allahabadi-1200x600

اکبر الہ آبادی کے ذہنی فکری تضادات اور لسانی اجتہادات

کلام اکبر سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ اکبرمغربی تعلیم وتہذیب سے زیادہ مغربی مادیت اور صارفیت کے خلاف تھے۔ وہ ایک مہذب مشرقی معاشرہ کو مشینی اور میکانیکی معاشرہ میں بدلتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ مادی اشیاء سے زیادہ انہیں روحانی اقدار عزیز تھی۔ وہ قوم کو مغلوبیت اور مرعوبیت کے احساس سے باہر نکالنا چاہتے تھے ۔