میراجی: زندگی قلندرانہ اور حرکتیں مجذوبانہ
میراجی پراسراریت اور حیرت کے قائل تھے۔ ان کی شخصیت بھی ان کی شاعری کی طرح پراسرار تھی۔ وضع قطع، لباس اور باتوں سے تو وہ پراسرار نظر ہی آتے تھے وہ حرکتیں بھی کچھ ایسی کرتے تھے کہ لوگ انہیں حیرت سے دیکھیں۔
میراجی پراسراریت اور حیرت کے قائل تھے۔ ان کی شخصیت بھی ان کی شاعری کی طرح پراسرار تھی۔ وضع قطع، لباس اور باتوں سے تو وہ پراسرار نظر ہی آتے تھے وہ حرکتیں بھی کچھ ایسی کرتے تھے کہ لوگ انہیں حیرت سے دیکھیں۔
ایسا نڈر، سچا، محبت کرنے والا اور محبت کا گیت گانے والا اب کہاں سے آئے گا۔ کسی سے نہ دبنے والا، ہر شخص پر شفقت کرنے والا، زبان کا فیاض، شاعروں کا والی، غزل کا امام، ادب کاخدمت گزار۔ کیسی سچی بات ایک عزیز نے کہی کہ سیاست کوئلہ کا کاروبار ہے جس میں سبھی کا ہاتھ اور بہتوں کا منھ کالا ہوتا ہے سوائے حسرت کے۔
یہ لیڈر جلسوں میں سرمائے اور سرمایہ داروں کے خلاف زہر اگلتے ہیں صرف ا س لئے کہ وہ خود سرمایہ اکٹھا کر سکیں۔ کیا یہ سرمایہ داروں سے بدترین نہیں؟ یہ چوروں کے چور ہیں، رہزنوں کے رہزن۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عوام ان پر اپنی بے اعتمادی ظاہر کر دیں۔
ایسی شاعری جس کی ہمہ وقت ضرورت محسوس ہو جس کی لذت، جس کا لطف کبھی کم نہ ہو جو ذہن کو مہمیز کرے۔ بہت معصوم، بہت پیاری ہوتی ہے جو شریانوں میں لہو کی طرح دوڑتی ہے، آنکھوں سے آنسو کی طرح ٹپکتی ہے۔ اکیلی رات میں چاند کا روپ دھار لیتی ہے۔ ایسی کیفیت کیفی اعظمی کی شاعری میں ہے جس کی ساحری میں، میں اب تک قید ہوں۔
حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ اباجان کتاب پر نظریں جما کر پڑھتے ہوئے بیچ بیچ میں ہمیں دیکھے جاتے ۔ اُن کا کبھی کتاب کو اور کبھی ہمیں دیکھنا اگرچہ اچھا لگتا تھا مگر میں ہمیشہ اُن کی نفاست سے تراشیدہ مونچھوں اور داڑھی کے بیچ جنبش کرتے ہونٹوں کو دِیکھا کرتا تھا۔ مجھے اس میں لطف آتا کہ وہ کبھی پھیلتے کبھی سکڑتے ، کبھی کھلتے اور کبھی بند ہوتے تھے ۔ایک بچے کے لیے یہ کتنی عجیب بات تھی کہ اس کے باپ کے جنبش کرتے ہونٹ کتاب میں لکھے ہوئے کو آواز میں تبدیل کر رہے تھے۔ یہ آواز اس بچے کےتصور کے پردے پر تصویریں بناتی تھی ۔ بچہ جب تجسس میں کتاب کو جھانک کر دیکھتا تو وہاں محض لفظ ہوتے تھے ۔ کتاب کے صفحے پر تیرتے ہوئے لفظ
شعر کہنے کے شوق میں نئے لڑکے اور لڑکیوں نے اردو سیکھنا شروع کیا۔ بلکہ نئی اردو شاعری میں کئی اہم اور نمایاں نام توایسے ہیں جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔
حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ اباجان کے زمانے میں استاد اور شاگرد کا رشتہ کچھ ایسا تھا جیسے دونوں ایک گھر کے افراد تھے۔ استاد کی قدرو منزلت کبھی کبھی توماں باپ سے بھی بلند لگا کرتی تھی۔ اساتذہ کی خدمت کے حوالے سے بعد ازاں اگرچہ کئی ناگفتہ باتیں بھی مشہور ہو گئیں مگر بالعموم اس رشتے میں اخلاص تھا۔ ہماری نسل تک آتے آتے یہ رشتہ قدرے کمزور پڑا مگرمجھے یاد ہے یہ پوری طرح تلف نہیں ہوا تھا جیسا کہ آج کل ہو چکا ہے۔
حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ سائنسدانوں نے ہمیں محبت کے ہارمون کی خبر دی ہے۔ اس ہارمون کا نام ‘آکسی ٹوسین’ہے۔ جسے ہم ماں کی ممتا سمجھتے رہے اب پتہ چلا کہ یہ تو وہ ہارمون ہے جو ماؤں کے اندر زچگی اور بچوں کو دودھ پلانے کےعمل کے دوران خارج ہوتا ہے۔ ایک اور تحقیق بھی سامنے آئی ہے جس کے مطابق محبت کا یہ ہارمون اگر کسی کو سونگھایا جائے تو اس کے اندر جھوٹ بولنے کا رجحان بڑھ جاتا ہے؛ ہت تیرے کی۔
ویڈیو: کووڈ،اچانک ملک میں نافذکیے گئے لاک ڈاؤن اور اس دوران حاشیے کے لوگوں کودرپیش مشکلات انوبھو سنہا کی نئی فلم ‘بھیڑ’ کا موضوع ہیں۔ اس بارے میں ان سے اور فلم کی ٹیم سے بات چیت۔
ویڈیو: آنکھوں دیکھی، دم لگا کے ہیشہ اور لال سنگھ چڈھا جیسی فلموں کے ساتھ–ساتھ پنچایت، مرزا پور اور برید: ان ٹو دی شیڈو زجیسی ویب سیریز میں اپنی اداکاری کا جوہر دکھا چکےاداکار شری کانت ورماسے ان کی زندگی، تھیٹر، ریڈیو، سنیما اوراوٹی ٹی پر ان کے تجربات اور سفر کے بارے میں بات چیت۔
حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ رشتے اور تعلقات دوپیڑھیوں تک تو کسی حد تک نبھ جاتے ہیں، اس سے اگلی پیڑھی کو عادتاً یا مجبوری میں رسم نبھانا ہوتی ہے اور بس۔
حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ ایک بات سمجھنے کی ہے کہ معاشرے میں مسائل کی اصل جڑ ثقافتی رنگارنگی کو تسلیم نہ کرنا ہے ۔ دنیا کے یک رنگ ہونے سے یہ رہنے کے قابل کہاں رہے گی، اس کا حسن ہی اس تنوع میں ہے ۔
فلمی تاریخ دان نریش تنیجا کا ماننا ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیشہ ورانہ تربیت یافتہ خواتین بالی ووڈ کے ایسے شعبوں میں کارنامے دکھا رہی ہیں، جو ابھی تک صرف مردوں کے ہی کنٹرول میں ہوتے تھے۔ ان میں کیمروں کو سنبھالنا، ایڈیٹنگ جیسا مشکل اور صبر آزما کام اور حتیٰ کہ لائٹنگ میں بھی خواتین نے قدم جمائے ہیں۔
اردو چینل اور ممبئی یونیورسٹی کے اشتراک سے پہلی بار ممبئی میں منعقد یک روزہ جشن اردو میں مقررین نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ،نفرت کے ماحول کو ختم کرنے کے لیے ہمیں زبانوں کو فروغ دینا ہوگا۔
حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ جن چیزوں سے منع کیا جاتا ہے وہی کرنے کو جی کیوں چاہتا ہے ؟ شایداس لیے کہ یہی اِنسانی فطرت ہے ۔ یہ مناعی اور روک ٹوک ہی انسانی تجسس اور ترغیب کی بنیاد ہے۔ یہی سبب رہا ہو گا کہ ہمارے ایمان کی بنیاد ی اینٹ’لا’ ہے۔ اقرار اور تصدیق کی منزل بعد میں کہیں آتی ہے؛نفی پہلے اثبات بعد میں۔ یہیں سے تجسس اور تشویق کو تحریک ملتی ہے۔
نثری ادب کو باقاعدہ خطابت کی شکل دینا ضیا صاحب کا ہی کارنامہ ہے۔ انہوں نے اپنے مغربی اسٹیج اور فلم کی اداکاری کےتجربے کو بروئے کار لاتے ہوئے اردو تحاریر کے جسم میں گویا روح پھونک دی۔ کردار کاغذ سے اٹھ کر حاضرین سےہم کلام ہوگئے اور سامعین چشمِ تصور سے ان کرداروں کی جزئیات میں کھو گئے۔
حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ میں نہیں جانتا تھا کہ جس چھوٹے بھائی کا نام میں نے اپنے نام کا حصہ بنایا تھا ، ایسے وقت نے آنا تھا کہ وہ نہیں رہے گا۔مجھے اس کے بدن کے لوتھڑے اپنی آنکھوں سے دیکھنے تھے ۔ اس کا جنازہ پڑھنا تھا مگر اس کی تدفین میں شرکت سے معذور رہنا تھا ۔مجھے نہیں معلوم اس کی قبر کہاں ہے مگر یوں لگتا ہے وہ میرے وجود کے اندر ہی کہیں ہے۔ میں جب جب اسے یاد کرتا ہوں بے اختیار میرے آنسو بہہ نکلتے ہیں ۔ یہی سبب ہے کہ مجھے اپنے نام کے اس حصے سے بھی محبت ہو گئی ہے۔
ویڈیو: اپنے ناول ‘نعمت خانہ’ کے انگریزی ترجمہ ‘دی پیراڈائز آف فوڈ’ کے لیے 2022 کا جے سی بی پرائز جیتنے والےممتاز فکشن نویس خالد جاوید سے ان کے تعلیمی سفراور تخلیقی رویوں پر فیاض احمد وجیہہ کی بات چیت۔
حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سے ایک باب؛ تویوں ہے کہ میں صاحبِ سبت ہوں مگر ایک آزمائش میں ہوں اور آزمائش یہ ہے کہ یوم سبت کو رنگ رنگ کی فربہ مچھلیاں اُچھلتے سامنے دیکھوں مگراُن کو کسی اور روز پکڑنے کے لیے نالیوں کے پھندے نہ لگاؤں۔
جب اس وقت کشمیری ثقافت، انفرادیت اور تہذیب انتہائی نازک دور سے گزر رہی ہے اور ایک طرح سے بقا کی جنگ لڑ رہی ہے، ایسے وقت میں راہی کا منظر سے غائب ہونا کشمیری ادب کے لیے ایک بڑا نقصان ہے
خود نوشت: میں شاید ژاں پال سارتر کی طرح موت کو عظمت کا کفن نہ دے سکوں مگر میں اُس کی طرح یہ جان گیا ہوں کہ میرے پاس کچھ زیادہ برس باقی نہیں ہیں۔ بڑھاپا میرے وجود کے اندر نقب لگا کر داخل ہو چکا اور الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ اس کے باوجود میں موت سے خوف زدہ نہیں ہوں۔ جب وہ مجھے لینے آئے گی تو یہ ایک فطری عمل ہو گا جس کے سامنے مجھے سرِتسلیم خم کرنا ہو گا۔
’غالب کی شاعری میں زندگی کے بہت سارے رنگ ہیں جن میں ایک رنگ وہ بھی ہے جنہیں عام طور پر ناقدین نظر انداز کرتے رہے ہیں اور وہ ہے عوامی دردوکرب کا رنگ جسے غالب نے اپنی شخصی زندگی کے تجربوں کے حوالے سے شاعری میں ڈھالا ہے۔‘
’’حضرت، روپے کی ادائیگی، شاعری نہیں آپ تکلّف کو برطرف رکھیے۔ میں آپ کا مداح ہوں مجھے آج موقع دیجیے کہ آپ کی کوئی خدمت کرسکوں۔‘‘ غالبؔ بہت خفیف ہوئے؛’’لاحول ولا…آپ میرے بزرگ ہیں…مجھے کوئی سزا دے دیجیے کہ آپ صدرالصدور ہیں۔‘‘
جو ش نے خود کو ”شاعر آخر الزماں کہلوانا پسند کیا تھا مگرحیف کہ وہ نہیں جانتے تھے اُن کے ساتھ ہی اُن کا زمانہ بھی ختم ہو جائے گا۔
گھر پر بہار کے ایک مولوی صاحب نے اردو، فارسی اور قرآن کی تعلیم دی۔ وہ رات کو قصص الانبیاء سناتے تھے۔ ایک ہڑتال میں حصہ لینے کی وجہ سے مسلم یونیورسٹی کو خیر باد کہنا پڑا۔
پروین کے یہاں شاید وہی بری عورت ہے جو اپنی چوڑیوں سے نیزے بناتی رہی اور بدن پر بھونکنے والے اعلیٰ نسل کے کتوں کے خلاف لکھتی رہی۔
یوم پیدائش پر خاص: وقت پڑنے پر کانگریسیوں کا ساتھ بھی دیا ہے، سوشلسٹوں کا بھی، کمیونسٹوں کا بھی۔ وہ ہر ترقی پسند اور انقلابی پارٹی کے ساتھ ہے۔ مگر کسی پارٹی میں نہیں ہے۔ وہ دھرم، مذہب، ذات پات کے بندھنوں سے آزاد ہے۔ سامراج اور فرقہ پرستی کا دشمن ہے، عوام اور اشتراکیت کا ساتھی ہے۔ وہ یہ سب کچھ ہے۔ اسی لیے میرا دوست ہے۔ ایسا دوست جسے سچ مچ ہم دم کہا جا سکتا ہے۔ ورنہ ’دوست‘ تو بازار میں ٹکے سیر ملتے ہیں۔
آج اگر فیض کی قرٲت ہورہی ہے توکچھ توہے جوکلامِ فیض کو تعصبات سے پرے قبولیت عطاکررہی ہے۔
’بچوں کا باغ‘ اور ’چہکاریں‘ کے بعد’حوصلوں کی اڑان‘ ادب اطفال میں ایک اضافہ ہی نہیں بلکہ ایک صحیح سمت کا سفر اور ایک نئی تخلیقی اڑان ہے۔
کلام اکبر سے یہ مترشح ہوتا ہے کہ اکبرمغربی تعلیم وتہذیب سے زیادہ مغربی مادیت اور صارفیت کے خلاف تھے۔ وہ ایک مہذب مشرقی معاشرہ کو مشینی اور میکانیکی معاشرہ میں بدلتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ مادی اشیاء سے زیادہ انہیں روحانی اقدار عزیز تھی۔ وہ قوم کو مغلوبیت اور مرعوبیت کے احساس سے باہر نکالنا چاہتے تھے ۔
اکبر کی شاعری اور ان کی شعری زبان آج بھی سیاسی ڈسکورس کا حصہ بنتی نظر آتی ہے ،تو ہمیں غور کرنا چاہیے کہ ان کی شاعری میں طلوع ہونے والی آنکھ کتنی دور دیکھ رہی تھی ۔
سپر اسٹار کرشنا نے پانچ دہائیوں پر محیط اپنے کیریئر میں 350 سے زیادہ فلموں میں کام کیاتھا۔ 1974 میں انہوں نے تیلگو زبان کی پہلی سنیما اسکوپ فلم ‘الوری سیتارام راجو’ میں مرکزی رول ادا کیا تھا۔ انہوں نے تیلگو میں پہلی 70 ایم ایم فلم ‘سمہاسنم’ بھی پروڈیوس اور ڈائریکٹ کی تھی۔ انہیں 2009 میں پدم بھوشن سے سرفراز کیا گیا تھا۔
یہ فلم ایک ایسے شخص کی کہانی پر مبنی ہے، جو ایک خواجہ سرا سے محبت کرتا ہے۔ پہلے سینسر بورڈ نے اس کی ریلیز کی اجازت دے دی تھی، تاہم اب سینما گھروں میں اس کی نمائش پر پابندی لگا دی گئی ہے۔
دھومل اتنے’سادہ مزاج‘تھے کہ اہل خانہ تک کو ان کے بڑے شاعر ہونے کا ’علم ‘تب ہوا، جب ریڈیو پر موت کی خبر آئی!
آنکھیں پرنم ہوگئیں اور بے اختیار لوح مزار کو بوسہ دے کر اس حسرت کدے سےرخصت ہوا۔یہ سماں اب تک ذہن میں ہے اور جب کبھی یاد آتا ہے تو دل کو تڑپاتا ہے۔
پانڈے جی کو اس دیش کے ایک وچارک کے روپ میں دیکھاجاتاتھا۔انہیں سننے کے لیے جتنی بڑی تعداد میں لوگ جمع ہوجاتے تھے وہ بھی ایک واقعہ ہے۔ان کی تنقید میں جو شفافیت ہے وہی ا ن کی شخصیت کابھی حصہ ہے۔ وہ ہزاری پرساد دویدی اور نامور سنگھ کے بعد تیسرے ایسے نقاد ہیں جنہوں نے ہندی تنقید کو نظریاتی طورپر مستحکم کرنے میں اہم کردار اداکیا۔اور ہمیشہ تنقید کی بھاشا کاخیال رکھا۔
صلاح بھائی نے شوق گل بوسی میں کانٹوں پہ زباں رکھ دی ہے اورجتنی بھی اذیتیں اورعذاب ہیں،سب اسی وجہ سے ہیں۔فن کارجب دکھ اذیت،عذاب سے گزرتاہے تو اس کی چیخ وکراہ کو کوئی کیوں نہیں سنتا؟
خصوصی تحریر: ندا فاضلی نے شاعری بھی محبت کی زبان میں کی اور نثر بھی لکھی تو عشق کی زبان میں اور شاید اسی عشق کی زبان نے ندا فاضلی کے نصیب میں وہ شہرت اور مقبولیت لکھ دی جو بہت کم لوگوں کو ملتی ہے۔
امتیابھ بچن کی 80 ویں سالگرہ پر خواجہ احمد عباس کی ایک یادگار تحریر: امتیابھ کو بہاری مسلمان شاعر کی حیثیت سے اُردو اشعارترنم کے انداز میں ادا کرنے پڑے(بالکل میرے مرحوم دوست مجازؔ لکھنوی کے انداز میں) دو دن کے بعد میں نے دیکھا کہ امیتابھ کو ایک بات ایک بار بتادی وہ امیت کے لیے پتھر کی لکیر بن گئی ۔ وہ ہمارے ‘اسکول’ کا بہترین طالب علم تھا۔
رضوان اللہ کے اوراق مصور میں کلکتہ بھی ہے اور دلی بھی— اس سے ہمیں کلکتہ کے کل، آج اور کل کے بارے میں بہت سی معلومات ملتی ہیں اور دلی کے دل کا حال معلوم ہوتا ہے۔’اوراق مصور‘ کلکتہ کا کولاژ ہے اور اس میں شبدوں سے جو چترکاری کی گئی ہے، وہ تصویریں انتہائی حسین ہیں … اس میں فکر، معانی اور لفظیات کا حسن سمٹ آیا ہے۔