ونود دوا نے دی وائر کو کیا دیا …
ونود دوا کےچالیس سالہ ٹی وی نیوز کا تجربہ اور ناظرین سے ان کاغیر معمولی رشتہ ان کی پہلی ڈیجیٹل کوشش میں اتنی آسانی سے آ گیا کہ جلد ہی انہوں نے بڑے پیمانے پر ناظرین کومتوجہ کرلیا۔
ونود دوا کےچالیس سالہ ٹی وی نیوز کا تجربہ اور ناظرین سے ان کاغیر معمولی رشتہ ان کی پہلی ڈیجیٹل کوشش میں اتنی آسانی سے آ گیا کہ جلد ہی انہوں نے بڑے پیمانے پر ناظرین کومتوجہ کرلیا۔
مرادآباد کےعیدگاہ علاقے کےرہائشی ہر رات اپنے مسائل پر گفت و شنیدکے لیے اکٹھا ہوتے ہیں۔اس دوران سیاسی اور اقتصادی مسائل پر تبادلہ خیال ہوتا ہے۔
ویڈیو: اتر پردیش کے متھرا واقع شاہی عیدگاہ مسجد میں اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا نے انتظامیہ سے بھگوان کرشن کی مورتی نصب کرنے کی اجازت مانگی تھی، جس کے بعد اس علاقے کی سیکیورٹی بڑھا دی گئی۔ حالانکہ انتظامیہ نےاجازت دینے سےانکار کر دیا ہے۔اس مسئلہ پر بات کر رہے ہیں سینئر صحافی شرت پردھان۔
امریکہ میں مسلسل بڑھتی ہوئی افراط زر ہندوستان جیسے ترقی پذیر ممالک کےاقتصادی نظام میں بڑے پیمانے پر اثر انداز ہو سکتی ہے ۔
ایودھیاتنازعہ پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدجن کو لگتا تھا کہ اس کے نام پرفرقہ وارانہ تعصب کی بلا اب ان کےسر سے ہمیشہ کے لیے ٹل جائےگی،اور سیاسی طور پراس کا غلط استعمال بند ہو جائےگا، ملک کی سیاسی قیادت ان کی معصوم امیدوں پر پانی پھیرنے کو تیار ہے۔
ہندوستان کےسابق چیف شماریات دان اورسینئر ماہراقتصادیات پرنب سین نے کہا کہ ملک کی معیشت سے جڑے مسائل کو حل کرنے کا واحد راستہ عوامی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے، لیکن اس کے لیے مرکز اور ریاستوں کےدرمیان سیاسی اختلافات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
نشہ شراب میں ہوتا تو ناچتی بوتل۔بہار میں الٹا ہو رہا ہے۔ بوتل ناچ نہیں رہی ہے، بوتل کے پیچھے بہار ناچ رہا ہے۔ بہار میں بوتل مل رہی ہے لیکن اسمبلی میں بوتل کا مل جانا تمام تخیلات کی انتہا ہے۔
امریکہ کو خدشہ ہے کہ ہندوستان کے خلاف نرم رویہ اختیار کرنے سے اس کے دیگر حلیف سعودی عر ب اور متحدہ عرب امارات بھی روس سے جدید ترین اسلحہ حاصل کرنے کی لائن میں لگ جائیں گے۔
بی جے پی اور آر ایس ایس نہیں مانتے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو اپنے طریقے سے روزی کمانے اور اپنی طرح سے مذہب پرعمل کرنے کا حق ہے۔لیکن اس بنیادی آئینی حق کو نہ ماننے اور اس کی من مانی تشریح کی چھوٹ پولیس اور انتظامیہ کو نہیں ہے۔ اگر وہ ایسا کر رہے ہیں تو وہ وردی یا کرسی کے لائق نہیں ہیں۔
کوئی نہیں کہہ سکتا کہ لیڈر کےطور پرمنیش تیواری یا سلمان خورشید کےعزائم نہیں ہیں یا اس کو پورا کرنے کے لیے وہ کتاب لکھنے اور اس کے سوا جو کرتے ہیں، اس کی نکتہ چینی نہیں کی جانی چاہیے ۔ لیکن اس سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس کےرہنماؤں کےطور پر انہیں اپنےخیالات کوپیش کرنے کی اتنی بھی آزادی نہیں ہے کہ وہ رائٹر کےطورپر پارٹی لائن سے ذرا سا بھی الگ جا سکیں؟
وہاٹس ایپ یا فیس بک کے برعکس ایپل متنازعہ نہیں ہے اور مودی حکومت اس کو اعلیٰ پائیدان پر رکھتی ہے۔ اس پس منظر میں اب تک پیگاسس کے استعمال سےانکار کرتی آئی حکومت ہند کے لیے ایپل کے آپریٹنگ سسٹم میں ہوئی دراندازی کے سلسلے میں کمپنی کے نتائج کو مسترد کرنا بہت مشکل ہوگا۔
پچھلے تین سالوں میں کشمیر میں حکومتی اور میڈیا سے لیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 837 افراد ہلاک ہوئے ہیں، جب میں 172 سیکورٹی فورسز کے اہلکار تھے۔ ان میں سے اکثر افراد کو لائن آف کنٹرول کے پاس ورثاکی موجودگی اور آخری رسومات کے بغیر ہی پولیس نے خود ہی نامعلوم قبروں میں دفن کر دیا ہے۔
زرعی قوانین کو اس لیے واپس نہیں لیا گیاکہ وزیر اعظم‘کچھ کسانوں کو یقین دلانے میں ناکام’رہے، بلکہ اس لیے واپس لیا گیا کہ کئی کسان مضبوطی سے کھڑے رہے، جبکہ بزدل میڈیا ان کے خلاف ماحول بناکر ان کی جدوجہد اور طاقت کو کمتربتاتا رہا۔
پارلیامنٹ کے ذریعےزرعی قانون کو رد کرنے سے کسانوں کی کوئی مانگ پوری نہیں ہوگی وہ بس وہیں پہنچ جا ئیں گے، جہاں وہ اس قانون کےبنائے جانے سے پہلے تھے۔
کاس گنج میں سال 2018 میں مارے گئے چندن گپتا کے والدکہہ رہے ہیں کہ نوجوانوں کو اس راستےپر نہیں جانا چاہیے جس پر ہندوتوایاقوم پرستی کے جوش وجنون میں ان کا بیٹا چل پڑا تھا۔ کیا ان کی ناراضگی کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس موت کے بعد یا اس کے بدلے جو چاہتے تھے، وہ نہیں ملا؟ یا وہ اس کے خطرے کو سمجھ پائے ہیں؟
کہتے ہیں کہ آر ایس ایس کےہزار ہزاربازو اور ہزار ہزار منہ ہیں۔ان ‘ہزار ہزار منہ’میں بی جے پی ایم پی ورون گاندھی کو چھوڑ دیں تو کنگنا کے معاملے پر خاموشی اختیار کرنےکو لےکرزبردست اتفاق رائے ہے۔ پھر اس نتیجہ تک کیوں نہیں پہنچا جا سکتا کہ کنگنا کا منہ بھی ان ہزاروں منہ میں ہی شامل ہے؟
مرکزی حکومت کسانوں کی مانگوں کے سامنے جھکنےکو تیار نہیں تھی، خود وزیر اعظم نے پارلیامنٹ میں مظاہرین کو توہین آمیز طریقے سے‘آندولن جیوی’ کہا تھا۔ بی جے پی کی مشینری نے ہر قدم پر تحریک کو بدنام کرنے اور کچلنے کی کوشش کی،لیکن کسان تحریک کو جاری رکھنے کے عزم پر قائم رہے۔
پیپلزیونین فار سول لبرٹیزکرناٹک، آل انڈیا لائرزایسوسی ایشن فار جسٹس، آل انڈیا پیپلزفورم اور گوری لنکیش نیوز ڈاٹ کام نے حال ہی میں ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں انہوں نے فرقہ وارانہ کشیدگی کے 71 معاملوں کی پہچان کی ہے۔ یہ تمام معاملے جنوری 2021 سے اگست تک کے ہیں۔
سینٹر فار میڈیا اسٹڈیز کی ایک رپورٹ کے مطابق 2019کے انتخابات میں ہندوستان میں سیاسی پارٹیوں اور الیکشن کمیشن نے کل ملا کر 600بلین روپے خرچ کیے۔ جس میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 270بلین روپے خرچ کیے۔
جب سے کسانوں نے زرعی قوانین کےخلاف دہلی کی سرحدوں پر احتجاجی مظاہرہ شروع کیا تھا، تب ہی سے بی جے پی لیڈروں سے لےکرمرکزی وزیروں تک نے کسانوں کو دھمکانے اور انہیں دہشت گرد، خالصتانی، نکسلی، آندولن جیوی،شرپسندجیسےنام دےکر انہیں بدنام کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی تھی۔
کسانوں کی تحریک اس کاجیتا جاگتا ثبوت ہے کہ اگرمقصد واضح ہو تو اختلاف رائےکے باوجودمشترکہ جد وجہد کی جا سکتی ہے۔ سنیکت کسان مورچہ نے ایک لمبے عرصے بعد مشترکہ جدجہدکی پالیسی کو عملی جامہ پہنایا ہے۔
سرحدوں میں تبدیلی اور لوگوں کے درمیان رابطے کے کمزور ہونے کے ساتھ، ترک زبانوں نے مختلف لہجے اور بولیاں جمع کیں اور آہستہ آہستہ وہ اصل زبان سے الگ ہوگئے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ یہ تنظیم اس زبان کا ایک معیار تیار کرکے اس کو سبھی ممالک میں نافذ بھی کروائے۔
گزشتہ ہفتے نریندر مودی حکومت کےدو ذمہ دارافرادقومی سلامتی مشیر اجیت ڈوبھال اور چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت نے وسیع تر قومی مفاد کے نام پر قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزی کو جائز ٹھہرانے کے لیے نئی تھیوری کی تشکیل کی کوشش کی ہے۔
ویڈیو: کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے بیان دیا ہے کہ جب آپ کے پاس ہندو دھرم ہے تو ہندوتوا کی کیا ضرورت ہے۔اس بیان نے ہندوتوا بنام ہندو دھرم کے پرانے مدعے کو ایک بار پھر بحث میں واپس لا دیا ہے۔ دی وائر کی سینئر ایڈیٹرعارفہ خانم شیروانی نے اس ویڈیو میں اس موضوع پرتفصیل سے بات کی ہے۔
ویڈیو: گزشتہ دنوں اداکارہ کنگنا رناوت نے ایک انٹرویو میں دعویٰ کیا کہ ہندوستان کو ‘1947 میں آزادی نہیں، بلکہ بھیک ملی تھی’ اور ‘آزادی 2014 میں ملی ہے’، جب نریندر مودی حکومت اقتدار میں آئی۔ پہلے بھی متنازعہ بیان دیتی رہیں کنگنا کے اس بیان سے ایک بار پھر نیاتنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔
ویڈیو: اتر پردیش کے کاس گنج ضلع میں ایک‘گمشدہ’لڑکی کےمعاملے میں حراست میں لیے گئے 22 سالہ نوجوان الطاف کی پولیس تھانے میں گزشتہ 8 نومبر کو موت ہو گئی تھی۔اس کو لےکر ایک ایس ایچ او سمیت پانچ پولیس اہلکاروں کو سسپنڈ کر دیا گیا ہے۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ الطاف نے ٹوائلٹ کے نل کی ٹوٹی سے پھانسی لگاکر خودکشی کی ہے۔
1898 میں چھوٹا ناگپور علاقے میں تیر اور کمان سے لیس منڈا باغیوں کے سامنے انگریزی فوج کو ہار کا منھ دیکھنا پڑا۔ اس کے بعد باغیوں کی بڑے پیمانے پر گرفتاری ہوئی۔ لیکن برسا نے انگریزوں سے صاف کہہ دیا کہ چھوٹاناگپور پر آدیواسیوں کا حق ہے۔
تناؤبھرےماحول میں ہمیشہ تشددکاامکان رہتاہے۔ سمجھداری اس سے بچنے میں ہے۔ہر تشدد معاشرے میں برادریوں کے درمیان خلیج کو وسیع کرتا ہے۔ بی جے پی کی سیاست کے لیے یہی مفید ہے۔
نوٹ بندی کے غیرمتوقع فیصلے کے ذریعے بات چاہے کالے دھن پر روک لگانے کی ہو، معاشی نظام سے سے نقد کو کم کرنے یا ٹیکس جی ڈی پی تناسب بڑھانے کی،اعدادوشمار مودی حکومت کے حق میں نہیں جاتے۔
اگرجناح، جو کم از کم 1937 تک ملک کی مشترکہ جدوجہد آزادی کا حصہ تھے، کی تعریف کرنا جرم ہے تو ہمارے ماضی قریب میں بی جے پی کے کئی بڑے لیڈر یہ جرم کر چکے ہیں۔
مودی حکومت کے پاس داسو ایوی ایشن کے ساتھ سودے پر سوال اٹھانے کے لیےخاطرخواہ ثبوت تھے۔ ایسے میں یہ سودا کیوں ہوا؟ اگر پچھلی یو پی اےحکومت میں رشوت ملی تھی، تو داسو کو بلیک لسٹ میں کیوں نہیں ڈالا گیا؟
میں یقیناً یہ کہتا رہا ہوں کہ ہمارے فرض کے سامنے دو ہی راہیں ہیں؛ گورنمنٹ نا انصافی اور حق تلفی سے باز آ جائے، اگر باز نہیں آ سکتی تو مٹا دی جائے گی۔ میں نہیں جانتا کہ اس کے سوا اور کیا کہا جا سکتا ہے ؟ یہ تو انسانی عقائد کی اتنی پرانی سچائی ہے کہ صرف پہاڑ اور سمندر ہی اس سے کم عمر کہے جا سکتے ہیں۔
اللہ کے نزدیک معزز وہی ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار و متقی ہے۔ بتاؤ تم نے اپنی فضیلت و تفوق کا جواز کہاں سے نکالا۔ گروہ بندی، جتھہ بندی، براداری کی تقسیم اور پھر اس تقسیم میں کم معزز اور زیادہ معزز کے مفروضہ مدارج تم نے بنائے ہیں ایک بھی صحیح نہیں ہے۔
ویڈیو: دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروانند بتا رہے ہیں کہ کس طرح ہندو تہواروں کا استعمال فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے اور اقلیتوں کو الگ تھلگ کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔
افغانستان میں امریکی انخلا کےبعد یہ امید بندھ گئی ہے کہ امریکی صدر بائیڈن گوانٹنامو بے کا تلخ باب بند کردیں گے اور 9/11کی ٹرائل بھی مکمل کرنے کے احکامات صادر کریں گے۔
سول سوسائٹی گروپوں نے مارچ 2017 اور مارچ 2018 کے بیچ میں اتر پردیش میں پولیس انکاؤنٹر کے 17معاملوں کا مطالعہ کیا،جن میں18 لوگوں کی موت ہوئی تھی۔ ان میں سے کسی میں بھی کسی پولیس اہلکار پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ان معاملوں کی جانچ نیشنل ہیو من رائٹس کمیشن نے بھی کی تھی۔ ان میں سے 12 معاملوں میں کمیشن نے پولیس کو کلین چٹ دے دی ہے۔
تریپورہ میں مسلمانوں کے خلاف تشدد بی جے پی کی سیاسی ضرورت ہے۔ ایک تو انتخاب ہونے والے ہیں اور جانکاروں کا کہنا ہے کہ ہر انتخاب میں ایسےتشدد سے بی جے پی کو فائدہ ہوتا ہے۔اس کے علاوہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہندو سماج کا مزاج بنانے کے لیے ایسے تشددکی تنظیم ضروری ہے۔
ویڈیو: اتر پردیش کے انتخاب نزدیک آتے ہی سیاسی سرگرمیاں بڑھنے لگی ہیں۔ جہاں ایک طرف بی جے پی عوام کو بتا رہی ہے کہ اگر اکھلیش یادو واپس آئے تو غنڈہ راج واپس آ جائےگا تو وہیں اکھلیش یادو نے سہیل دیو بھارتیہ سماج پارٹی(ایس بی ایس پی)کے او پی راج بھر سے ہاتھ ملاکر ایک نیا پانسہ پھینکا ہے۔ اتر پردیش کے انتخابی صورتحال پر سینئر صحافی شرت پردھان کا نظریہ۔
دہشت گردی یا فوجی کشیدگی یا سرحدی تنازعات، قومی سلامتی کے لیےخطرات تو ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیاں، خاص طور پر جب وہ جان بوجھ کر عمل میں لائی جاتی ہوں سے، اس سے بھی شدید خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔اس سے جنگوں سے بھی زیادہ افراد کی ہلاکت کا اندیشہ ہے۔ویسے دونوں ممالک کو چاہیے کہ کم از کم اس معاملے میں ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک کرکے خطے کو ماحولیاتی تبدیلی کے طوفان سے بچائیں۔دوسرا طریقہ ہے کہ سارک تنظیم کے ذریعے کوئی میکانزم ترتیب دیا جائے۔
پیگاسس جاسوسی کا معاملہ ایک طرح سے میڈیا، سول سوسائٹی،عدلیہ،حزب اختلاف اور الیکشن کمیشن جیسے جمہوری اداروں پر آخری حملے جیسا تھا۔ ایسے میں کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے کہ سپریم کورٹ کے عبوری فیصلے نے کئی لوگوں کو راحت پہنچائی، جو حال کے سالوں میں ایک ان دیکھی بات ہو چکی ہے۔