انہیں آزادی بہت عزیز تھی۔ وہ آج کے ہندوستانیوں (جو ان کی اولاد ہیں)کی طرح نہیں تھے، جنہیں آزادی کی اہمیت کا احساس کافی دیر سے ہوتا ہے۔ آریائی لوگوں کو موت منظور تھی، مگر بے عزتی اور غلامی کسی بھی صورت میں قبول نہیں تھی۔
جواہر لعل نہر و نے کہا تھا کہ -اگر کوئی شخص مذہب کی بنیاد پر دوسروں کو نشانہ بنانے کے لیے کھڑا ہوتا ہے تو میں ملک کا سربراہ ہونے کے ناطے یا عام آدمی کی حیثیت سے اپنی آخری سانس تک اس سے لڑوں گا۔
میں مکمل جمہوریت کو مانتا ہوں یعنی سیاسی اور اقتصادی دونوں طرح کی آزادی حاصل ہو۔ فی الحال میں سیاسی جمہوریت کے لیے کام کر رہا ہوں۔ لیکن سمجھتا ہوں کہ یہی چیزبڑھ کر اور پھیل کر معاشی جمہوریت بھی بن جائے گی۔
ویڈیو: کورونا وائرس سے جڑے بلیک اور وہائٹ فنگس کے معاملے ملک میں سامنے آنے کے بعد یلو فنگس کے بھی کچھ معاملے درج کیے گئے ہیں۔ صفائی بنائے رکھنے میں ناکام رہنا ان فنگس کے پھیلاؤ کی سب سے اہم وجہ ہو سکتی ہیں۔
ٹائمز آف اسرائیل کے کالم نگار ڈیوڈ ہوروز کے مطابق اسرائیل لڑائی تو جیت گیا، مگر جنگ ہار گہا ہے۔ان کے مطابق اسرائیل کو بڑی طاقتوں کی طرف سے جو سفارتی امداد ایسے اوقات میں مہیا ہوتی تھی، و ہ اس بار اس سے محروم تھا اور دنیا بھر میں اس کے خلاف ایک ماحول بن گیا تھا، جو اب کسی وقت یہودی مخالف رویہ اختیار کر سکتا ہے۔
گنگا میں بہتی لاشوں کو دیکھ کر افسردہ گجراتی شاعرہ پارل کھکر نے اپنی افسردگی کو چودہ مصرعوں کی ایک نظم میں ڈھال دیا ہے، جسے ادیبوں کے علاوہ عام لوگوں نے بھی پسند کیا۔ حالانکہ اس کے بعد بنیادی طور پرغیرسیاسی پارُل مقتدرہ بی جے پی کی ٹرول آرمی کے نشانے پر آ گئیں۔
ویڈیو:گزشتہ17اپریل کو ملک میں جب کووڈ 19 کے ایک دن میں234692 معاملے آئے تھے اور 1341 لوگوں کی موت ہوئی تھی، تب اتراکھنڈ میں کمبھ میلہ جاری تھا اور دوسری طرف وزیر اعظم نریندر مودی بنگال انتخاب میں اپنی ریلیوں میں جمع ہونے والی بھیڑ کی تعریف کر رہے تھے۔ اب وہ ملک کےحالات پر آنسو بہا رہے ہیں۔
صرف اپریل کے مہینے میں ملک بھر میں 98 صحافی اپنے فرض کی ادائیگی کے دوران کورونا وائرس کا شکار ہوکر ہلاک ہوگئے۔ مئی میں ابھی تک یہ تعداد 54تک پہنچ گئی ہے۔ یعنی ہر روز اوسطاً تین صحافیوں کی موت ہو رہی ہے۔ کسی جنگ کو کور کرتے ہوئے بھی کبھی اتنی بڑی تعداد میں صحافی مار ے نہیں گئے ہیں۔
اس شہر میں سرکاری طور پر مسلمانوں کو بے دخل کرنے اور یہودیوں کو آباد کرنے کا سلسلہ تیز تر ہوگیا ہے۔ اس وقت شہر کی61فیصد آبادی اب یہودیوں پر مشتمل ہے اور مسلمان، جو ایک وقت اکثریت میں ہوتے تھے، اب محض 36فیصد رہ گئے ہیں۔
مرکز نے سپریم کورٹ کو کہا ہے کہ اسےصحیح ویکسین پالیسی نافذ کرنے کو لےکرایگزیکٹوکی دانشمندی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان میں کوئی بھی واضح طور پر اعلانیہ قومی ٹیکہ کاری پالیسی ہے ہی نہیں۔
اس مشکل وقت میں سرکاروں کی کاہلی تو اپنی جگہ پر ہے ہی، لوگوں کا آدمیت سے بالاترہوتے جانا بھی متاثرین کی پریشانیوں میں کئی گنا اضافہ کر رہا ہے۔اس کی وجہ سے ایک اور بڑا سوال سنگین ہوکر سامنے آ گیا ہے کہ کیا اس مہاماری کے جاتے جاتے ہم انسان بھی رہ جا ئیں گے؟
جہاں ملک ایک طرف‘گجرات ماڈل’کی شکل میں پیش کیے گئے چھلا وے کو لےکر آج سچائی سے واقف ہورہا ہے، وہیں گجرات کے کیوڑیا گاؤں کے آدی واسیوں نے بہت پہلے ہی اس کے کھوکھلے پن کو سمجھ کر اس کے خلاف کامیابی کے ساتھ ایک مزاحمتی تحریک شروع کی تھی۔
انٹرویو: سابق مرکزی وزیر ارون شوری نے دی وائر سے بات کرتے ہوئے ملک کے کووڈ بحران کے لیے نریندر مودی سرکار کو ذمہ دار ٹھہرایا اور کہا کہ سرکارعوام کو ان کے حال پر چھوڑ چکی ہے، ایسے میں اپنی حفاظت کریں اور ایک دوسرے کا خیال رکھیں۔
کوروناانفیکشن مودی حکومت کی اسکرپٹ کے حساب سے نہیں آیا اس لیے اس کا کوئی تسلی بخش جواب ان کے پاس نہیں ہے۔
کیا تاریخ اب پھرسے دہرا ئی جائےگی؟ کیا واقعی نریندر مودی کے آخری دن قریب آرہے ہیں؟ کیا ان کو ان کے نئے تعمیر کردہ عالیشان وزیر اعظم ہاؤ س میں رہنا نصیب ہوگا؟ یہ وقت ہی بتائے گا۔
ویڈیو: سوشل میڈیا پر رام دیو کا ایک ویڈیو وائرل ہوا ہے۔ اس میں وہ ایک نیوزچینل پر کورونا مریضوں کا مذاق اڑاتے نظر آ رہے ہیں۔ رام دیو آکسیجن کی کمی سے جوجھ رہے لوگوں کو یوگ کرنے کی صلاح دے رہے ہیں اور دعویٰ کر رہے ہیں کہ اس سے آکسیجن کا لیول بڑھ جائےگا۔
ٹرائل میں تاخیر کی وجہ سے ہینی بابو کو ان کی زندگی کی مختلف سرگرمیوں سے محروم ہونا پڑرہا ہے۔
ہندی والوں سے آپ شمیم حنفی کے تعلق سے کچھ پوچھیے تو وہ انھیں ہندی کا ادیب نہ سہی مگر وہ اپنا پاٹھک ضرور مانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ نقاد سے زیادہ قاری کو پسند کرتے ہیں۔
کووڈ19کی دوسری لہر نے جس طرح کی قومی تباہی کوجنم دیا ہے، ویسی تباہی ہندوستان نے آزادی کے بعد سے اب تک نہیں دیکھی تھی۔ اس بات کے تمام ثبوت ہیں کہ اس کو ٹالا جا سکتا تھا اور اس کےمہلک اور جان لیوا اثرات کو کم کرنے […]
ویڈیو: بی جے پی رہنماؤں اور ان کے سیلبرٹی حامیوں کے ذریعےمغربی بنگال میں انتخاب کے بعد کےتشدد کو ‘فرقہ وارانہ’ تشددکے طور پرپیش کرنےکی کوشش کی جا رہی ہے، جس کا مقصد بقیہ ہندوستان کے ہندوؤں کو ڈرانا اور فرقہ وارانہ بنانا ہے۔ دی وائر کےبانی مدیر سدھارتھ وردراجن اور پروفیسر اپوروانند کی بات چیت۔
ویڈیو: ہندوستان میں کورونا وائرس غیرمعمولی نقصان کی وجہ بن رہا ہے۔ملک میں حالت اتنی خراب ہوتی جا رہی ہے کہ لوگ طبی وسائل کی کمی کی وجہ سےبھی مر رہے ہیں۔
کئی سالوں سے مودی شاہ کی جوڑی نے انتخاب جیتنے کی مشین ہونے کی جو امیج بنائی تھی، وہ کئی شکست کی وجہ سے کمزور پڑ رہی تھی، مگر اس بار کی چوٹ بھرنے لائق نہیں ہے۔ وہ ایک ایسے صوبے میں لڑکھڑا کر گرے ہیں، جو کسی ہندی بولنے والےکی زبان سے یہ سننا پسند نہیں کرتا کہ وہ ان کے صوبے کو کیسے بدلنے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔
کورونا وبا کے پھیلنے یا پھیلانے کا ذمہ دار اگر ہم ہندو مذہبی ٹھیکیداروں کو ٹھہراتے ہیں تو اس سے کوئی سادھو، سنت، سوامی یا سنیاسی مراد نہیں لے سکتے بلکہ وہ حکمران طبقہ ہی ہے جو بیک وقت صاحب اقتدار بھی ہے اور مذہبی دکاندار بھی۔ پورا آوے کا آوا بہروپ و ہم رنگ ہے، حالت یہ ہے کہ ان کی سیاسی ٹھیکیداری اور مذہبی دکانداری کے درمیان خط امتیاز نہیں کھینچا جا سکتا۔
مولانا وحیدالدیں خان جس میانہ روی کی و ہ تلقین کرتے تھے وہ خود ان کے پاس موجود نہیں تھی ۔ کبھی لگتا تھا کہ وہ اپنے مفادات کے حصول کے لیے بی جے پی کے آلہ کار بنے ہوئے تھے اور اپنے دعووں کو اسی سانچے میں ڈھالنے کی کوششیں کرتے تھے ۔
کئی گھنٹوں کی تگ و دو کے بعد گھر سے16 کیلومیٹر صفدرجنگ اسپتال میں ایک ڈاکٹر میری ساس کا معائنہ کرنے پر راضی ہوگیا۔ مگر تب تک بہت دیر ہوچکی تھی۔ شاید میری ساس کو ہماری بھاگ دوڑ، کسمپرسی اور لاچاری دیکھی نہیں گئی۔ کب اس نے گاڑی میں ہی دم توڑ دیا تھا، ہمیں پتہ ہی نہیں چل سکا۔ ڈاکٹر نے بس نبض دیکھ کر بتا یا کہ ان کو اب کسی علاج اور آکسیجن کی ضرورت نہیں ہے۔
کووڈ مہاماری کے اس شدید بحرانی دورمیں وزیر اعظم نریندر مودی جوابدہی کا یہی ایک کام کر سکتے ہیں کہ وہ اپنی کرسی چھوڑ دیں۔
ویڈیو: اتر پردیش کے امیٹھی شہر کے ایک نوجوان کے ذریعے اپنے نانا کے لیے آکسیجن کی مانگ کی گئی تو اس کے خلاف کیس درج کرا دیا ہے۔ اس معاملے انتطامیہ کے کام کرنے کے طریقے پر کئی سوال کھڑے کیے ہیں۔
ٹیکہ کاری کواگر کامیاب ہونا ہے تو اسے مفت ہونا ہی ہوگا، یہ ہر ٹیکہ کاری مہم کا تجربہ ہے، توہندوستان میں ہی کیوں لوگوں کو ٹیکے کے لیے پیسہ دینا پڑےگا؟ مہاماری کی روک تھام کے لیے ٹیکہ لائف سپورٹ ہے، پھر حکومت ہند کے لیے ایک ٹیکس دہندہ کی زندگی کی اہمیت اتنی کم کیوں ہے کہ وہ اس کے لیے خرچ نہیں کرنا چاہتی؟
دو تین سال کے تھے جب کسی بیماری میں ان کی آنکھیں چلی گئیں۔پی ایچ ڈی میں انھوں نے ہندوستان اور افریقی مملک میں نابینا افراد کے حالات، مسائل اور حکومتی سہولیات اور قانونی تحفظات وغیرہ کا تقابلی مطالعہ کیا تھا۔ اس تحقیق نے انھیں ہندوستان میں نابینا افراد کی محرومیوں اور مسائل کا ماہر محقق بنا دیا اور بعد میں اپنی زندگی کا ایک حصہ انھوں نے نابینا افراد کو حقوق دلوانے اور قانون بنوانے کی جدوجہد میں صرف کیا۔
اگر بی جے پی حکومت کو کووڈ کی دوسری لہر کے بارے میں پتہ نہیں تھا، تب یہ لاکھوں کو اکٹھا کر ریلی کر رہی تھی،یا انفیکشن کے قہرکو جانتے ہوئے بھی یہ ریلی کر رہی تھی، دونوں ہی صورتیں بڑی سرکاری ناکامی کی مثال ہیں۔ پتہ نہیں تھا تو یہ اس لائق نہیں کہ اقتدار میں رہیں اور اگر معلوم تھا تو یہ ان ہلاکتوں کے لیےبراہ راست ذمہ دار ہیں۔
فروری میں مہاراشٹر صوبہ کے ایک ڈاکٹر نے خبردار کیا تھا کہ کورونا وائرس کی تغیر یافتہ صورت ہندوستان میں نمودار ہو رہی ہے ۔ مگر اس کو خاموش کرا دیا گیا ۔اب نفسانفسی کا عالم ہے۔
وفاتیہ: دنیا کے کسی بھی مہذب میڈیاادارے میں مرلی جیسے لوگ ہوتے ہیں۔ یہ آزاد پریس کے گمنام ہیرو ہوتے ہیں، جن کی محنت و مشقت کے طفیل صحافی وہ کر پاتے ہیں، جو وہ کرتے ہیں۔ ان کے لیےکوئی ایوارڈنہیں ہوتا، کوئی تحسین نہیں ہوتی۔لیکن رپورٹر کےذریعہ ادارے کو ملنےوالےاعزازکو وہ اپنا سمجھ کر اس کی قدرکرتے ہیں۔
ویڈیو:ملک میں کورونا وائرس کا قہر لگاتار بڑھنےکے باعث آکسیجن کی کمی کی وجہ سےمتعدد صوبوں میں موت کے معاملے سامنے آ رہے ہیں۔
ویڈیو: یوگا پرانایام کرنا ایک بات ہے لیکن یوگا سے کورونا کا علاج ہونے کا دعویٰ کرنا سراسر گمراہی پھیلانا ہے۔ کچھ ایسا ہی کام کھلے عام ٹی وی اسکرین پر رام دیو کے ذریعے کیا جا رہا ہے۔ وہ بھی اس وقت سے جب سے کورونا وائرس نے ہندستان میں دستک دی تھی۔ رام دیو کبھی کورونل کے نام پر لگاتار بھرم پھیلا رہے ہیں تو کبھی یوگا پرانایام سے بدن میں اینٹی باڈی تیاری کرنے کے دعوے کر رہے ہیں۔
ویڈیو: امریکہ کے میری لینڈ یونیورسٹی میں متعدی بیماریوں کے شعبے کے سربراہ ڈاکٹر فہیم یونس سے ہندوستان میں کو رونا وائرس کی موجودہ صورتحال اور اس کے میوٹیشن پر دی وائر کی سینئر ایڈیٹر عارفہ خانم شیروانی کی بات چیت۔
ہندوستان اس وقت کورونا وبا کی بدترین گرفت میں ہے۔ اس سال تو شایدہی کسی افطار پارٹی میں جانے کی سعادت نصیب ہوگی۔ امید ہے کہ یہ رمضان ہم سب کے لیےسلامتی لےکر آئے اور زندگی دوبارہ معمول پر آئے۔ اسی کے ساتھ دہلی میں حکمرانوں کو بھی اتنی سمجھ عطا کرکے کہ ہندوستان کا مستقبل تنوع میں اتحاداور مختلف مذاہب اور فرقوں کے مابین ہم آہنگی میں مضمر ہے، نہ کہ پوری آبادی کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکنے اور ایک ہی کلچر کو تھوپنے سے۔
بڑا سوال ہے کہ کیا امریکی فوجوں کے انخلاء سے افغانستان میں امن کا قیام ممکن ہوپائے گایا یہ بدنصیب ملک مزید گردآب میں گر جائےگا ۔
ویڈیو: سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر کہا ہے کہ ہمیں یہ دیکھنے میں دلچسپی نہیں رکھنی چاہیے کہ کتنے لوگوں کو کووڈ 19 ٹیکہ لگ چکا ہے، بلکہ آبادی کے کتنے فیصد کی ٹیکہ کاری ہو چکی ہے یہ اہم ہے۔وزیر صحت ہرش وردھن نے منموہن سنگھ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ذات پات ایک ایسی رخنہ اندازی ہے جو معاشرےکی تعمیر وتشکیل نہیں ہونے دیتی۔ ملک بن کر بھی نہیں بن پاتا کیونکہ ہم ایک دوسرے کے لیے جوابدہ نہیں ہوتے۔ اتحادیااخوت کی عدم موجود گی میں سماجی ورثےکی تعمیر بھی نہیں ہو پاتی۔
سوچو! جو رسول تمہیں معمولی آندھی اور بارش میں مسجد آنے سے منع فرمائے اور گھر میں نماز ادا کرنے کا حکم دے وہ کس طرح وباؤں کے زمانے میں تراویح، جمعہ اور عیدین کی جماعتوں کے قیام پر تمہیں مجبور کرے گا اور خوش ہوگا؟