کچھ معاملوں میں ای وی ایم ووٹوں کی گنتی ای وی ایم میں ڈالے گئے ووٹوں کی تعداد سے کم ہے۔ حالاں کہ، اس کے پیچھےکی وجوہات کو بیان کرنے کے لیے وضاحت پیش کی گئی ہے، لیکن بعض معاملوں میں شمار کیے گئے ووٹوں کی تعداد میں فرق متعلقہ سیٹ پر جیت کے مارجن کا تقریباً نصف ہے۔
جہاں بی جے پی ایس پی (اور کانگریس) کی جانب سے اتر پردیش میں دی گئی گہری چوٹ کو ٹھیک سے سہلا تک نہیں پا رہی، اس کے بہی خواہ دانشور اور تجزیہ کار مدعی سست گواہ چست کی طرز پر اس چوٹ کو معمولی قرار دینے کے لیے یکے بعد دیگرے ناقص اور بودی دلیل لا رہے ہیں۔
آزاد امیدوار اور خالصتان حامی کارکن امرت پال سنگھ نے کھڈور صاحب پارلیامانی حلقہ سے اور سربجیت سنگھ خالصہ نے فرید کوٹ (ریزرو) لوک سبھا سیٹ سے جیت درج کرکے پنجاب کی سیاست میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔
لوک سبھا میں اکثریت سے بہت دور کھڑی بی جے پی کے لیے تیلگو دیشم پارٹی کی حمایت انتہائی اہم ہے۔ این چندر بابو نائیڈو بی جے پی کے ساتھ بات چیت کے لیے پوری طرح تیار بتائے جا رہے ہیں اور انہوں نے مختلف وزارتوں مثلاً فنانس اور وزارت زراعت کے ساتھ لوک سبھا اسپیکر کے عہدے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔
ایگزٹ پول ایک فی الفور واقعہ ہوتا ہے، مثلاً آپ نے کس کو ووٹ دیا؟ کیوں ووٹ دیا؟ آپ کا تعلق کس برادری سے ہے؟ یہ سوال رفتہ رفتہ ہونے والی تبدیلیوں کا مشاہدہ نہیں کر پاتے۔ اتر پردیش میں ایسی ہی تبدیلیوں نے وزیر اعظم مودی کے ‘400 پار’ کے نعرے کی ہوا نکال دی۔
مودی نے اپنے ووٹروں سے مسلم مخالف مینڈیٹ مانگا تھا۔ انہوں نے یہ کہہ کر ڈرایا تھا کہ اپوزیشن پارٹی کانگریس ان کی جائیداد اور دیگر وسائل چھین کر مسلمانوں میں تقسیم کر دے گی۔ بی جے پی کو واضح اکثریت نہ ملنا اس بات کا اشارہ ہے کہ ہندوستان کو نفرت کی یہ سیاست قبول نہیں ہے۔
اس لوک سبھا الیکشن میں سنیما، ٹی وی اور کھیل کی دنیا کی کئی بڑی شخصیات نے بطور امیدوار حصہ لیا تھا۔ جہاں کچھ ستارے پہلی بار سیاسی میدان میں اترے تھے وہیں کئی ایسے بھی ہیں جنہوں نے دوسری یا تیسری بار انتخابات میں اپنی قسمت آزمائی۔
چونکہ مودی نے یہ الیکشن صرف اپنے نام پر لڑا تھا، صرف اپنے لیے ووٹ مانگے تھے، بی جے پی کے منشور کا نام بھی ‘مودی کی گارنٹی’ تھا۔ یہ ہار بھی صرف مودی کی ہے۔ ان کے پاس اگلی حکومت کی سربراہی کا کوئی حق نہیں بچا ہے۔
فیض آباد لوک سبھا سیٹ کے رائے دہندگان نے واضح طور پر جواب دیا ہے کہ وزیر اعظم کی پارٹی ایودھیا کی نمائندگی کرنے کی اہل نہیں ہے۔
جمعہ کو ہندوستان میں گرمی سے کم از کم 40 ممکنہ اموات ہوئی ہیں، جن میں سے 25 اتر پردیش اور بہار میں لوک سبھا انتخابات کے آخری مرحلے کے لیے تعینات انتخابی عملے کے اہلکار تھے۔
گزشتہ 20 مئی کو لوک سبھا انتخابات کے پانچویں مرحلے کے دوران پال گھر ضلع کے وسئی میں ایک وکیل نے وسئی بار ایسوسی ایشن کے ایک وہاٹس ایپ گروپ میں یوٹیوبر دھرو راٹھی کے ‘مائنڈ آف اے ڈکٹیٹر’ کے عنوان والے ایک ویڈیو کا لنک شیئر کیا تھا۔ اس سلسلے میں درج کرائی گئی شکایت میں ویڈیو کو ‘قابل اعتراض’ بتایا گیا ہے۔
وزیر اعلیٰ کا آبائی ضلع ہونے کی وجہ سے چوراہوں، پارکوں، تالابوں اور ندی گھاٹوں کی تزئین کاری کی گئی ہے۔ تقریباً ہر سڑک فور لین ہو رہی ہے۔ پورے شہر کا منظر بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔ لیکن ان تعمیراتی کاموں کی وجہ سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی ہوئی ہے اور نقل مکانی کے شکار لوگوں کی حالت زار سننے والا کوئی نہیں ہے۔
بی جے پی جو اس ریاست کو بھگوا بنانا چاہتی ہے، یہ نہیں جانتی کہ دیودار کے جنگلات اپنی زندگی کی توانائی مقامی دیویوں سے حاصل کرتے ہیں اور برفانی پہاڑوں پر اس کرہ ارض کی چند بے مثال اور قدیم بدھ خانقاہیں سرد دھوپ میں چمکتی ہیں۔
گورکھپور کے جس سہسراؤں گراؤنڈ میں پسینہ بہانے کے بعد 3800 لڑکے اور 28 لڑکیوں کا انتخاب گزشتہ ڈھائی دہائیوں میں فوج اور نیم فوجی دستوں میں کیا گیا، وہاں آج ویرانہ آباد ہے۔ اگنی پتھ اسکیم کی وجہ سے نوجوانوں میں فوج کے لیے جوش و جذبہ ختم ہو گیا ہے۔
مہاراشٹر ملک کی سب سے بڑی معیشت والی ریاست ہے، لیکن برسوں سے سرکاری نوکری کی تیاری کرنے والے اس کے ہزاروں نوجوان شہری پیپر لیک یا کسی اور گھوٹالے کی وجہ سے امتحان رد ہونے کے بعد مایوس ہوکر خودکشی جیسے مہلک قدم اٹھا رہے ہیں۔
اتر پردیش میں نوجوانوں کے لیے بے روزگاری ایک بڑا مسئلہ بن گئی ہے۔ سرکاری نوکریوں کا خواب دیکھنے والے نوجوانوں کا کہنا ہے کہ بھرتی کے امتحانات کا لمبا انتظار، پھر پیپر لیک کا مسئلہ اور بعض اوقات بڑے پیمانے پر دھاندلی کی وجہ سے امتحانات کا رد ہوجانا بھی اب ریاست میں عام سا واقعہ ہے۔
پورے ہندوستان سےموصول ہونے والی خبریں بتا رہی ہیں کہ 2014 اور 2019 کا ‘مودی میجک’ اس بار ندارد ہے کیونکہ انتخابات لوک سبھا حلقہ اور ریاستی سطح پر لڑے گئے ہیں، جہاں بے روزگاری، مہنگائی اور دیہی بحران پورے ہندوستان میں یکساں اور بنیادی ایشو ہیں۔
چار جون کے بعد برسر اقتدار آنے والی پارٹی پر لازم ہے کہ مسلم آبادی کے لیے ایسے پروگرام تیار کرے، جس سے وہ بھی دیگر مذاہب کے پیروکاروں کی طرح اپنے پیروں پر کھڑے ہوں اور ملک کی اقتصادیات میں اپنا حصہ ڈالیں۔
گراؤنڈ رپورٹ: ہماچل پردیش کی منڈی سیٹ سے بی جے پی کی امیدوار کنگنا رناوت اپنی تقریروں میں یہ نہیں بتاتی ہیں کہ منڈی یا ہماچل کے لیے ان کا وژن کیا ہے۔ انہوں نے اسے ‘مودی جی’ پر چھوڑ رکھا ہے۔ ان کے سامنے کانگریس کے سابق وزیر اعلیٰ ویربھدر سنگھ کے بیٹے وکرم آدتیہ سنگھ کھڑے ہیں، جن کی یہ موروثی سیٹ ہے۔
اتر پردیش میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے کوئی سال ایسا نہیں گزرا جس میں مقابلہ جاتی امتحانات کے پیپر لیک نہ ہوئے ہوں۔ اس کی شروعات 2017 میں یوپی پولیس کانسٹبل اگزام کے پیپر لیک سے ہوئی تھی، جس میں 1.20 لاکھ درخواست دہندگان نے شرکت کی تھی۔
اے ڈی آر اور کامن کاز کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو ووٹروں کی تعداد سے متعلق فارم 17 سی کے ریکارڈ کو پبلک کرنے کی ہدایت دینے سے سپریم کورٹ کی جانب سے انکار اور کمیشن کے رویے کے حوالے سے پیدا ہونے والےشکوک و شبہات کے بارے میں سماجی کارکن انجلی بھاردواج اور دی وائر کے بانی مدیر ایم کے وینو سے تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔
گجرات کانگریس کے مطابق یہ بھرتی گھوٹالے سرکار کی سرپرستی کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔ بی جے پی لیڈر اور نریندر مودی کے قریبی اسیت وورا کو ایک بدنام زمانہ گھوٹالہ کے بعد سلیکشن بورڈ کے چیئرمین کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تھا۔ اسی طرح پیپر لیک معاملے میں جو پرنٹنگ پریس سرخیوں میں تھی، اس نے کبھی مودی کی کتاب بھی چھاپی تھی۔
لوک سبھا انتخابات 2024 کے کل 8337 امیدواروں میں سے صرف 797 خواتین ہیں، جو سات مرحلوں میں لڑنے والے کل امیدواروں کا محض 9.5 فیصد ہے۔
کیا سویم سیوک سماج میں اس شرف قبولیت کو نظر انداز کر پائیں گے جو انہیں مودی حکومت کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے؟ کیا ناراض سویم سیوک اپنے پرچارک وزیر اعظم سے دوری بنا پائیں گے؟ یا آخرکار وہ صلح کر لیں گے، یہ سوچتے ہوئے کہ 2025 کے اپنے صد سالہ سال میں اقتدار سے باہر رہنے کا خطرہ مول لینا دانشمندی کی بات نہیں ہوگی۔
جی بی روڈ کی زیادہ تر سیکس ورکرز کے لیے لوک سبھا انتخابات اور اس کے نتائج کوئی معنی مطلب نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے برسوں سے ان کے لیے کچھ نہیں کیا، اس لیے اب کوئی امید بھی نہیں ہے۔ یہ علاقہ چاندنی چوک پارلیامانی حلقہ کے تحت آتا ہے، جہاں اس بار ‘انڈیا’ الائنس سے کانگریس کے جے پی اگروال اور بی جے پی کے پروین کھنڈیلوال کے درمیان مقابلہ ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے ووٹنگ فیصد کے حتمی اعداد و شمار ریلیز کرنے میں تاخیر پر سپریم کورٹ میں جاری سماعت کے دوران ایک حلف نامہ پیش کرتے ہوئے الیکشن کمیشن آف انڈیا نے کہا ہے کہ ڈیٹا کو پبلک کرنے سے اس کا غلط استعمال ہوسکتا ہے، جس کی وجہ سے انتخابی عمل کے حوالے سے عوام کے درمیان عدم اعتماد کی صورتحال پیدا ہو سکتی ہے۔
گراؤنڈ رپورٹ: 2020 میں فسادات کی زد میں آنے والے پارلیامانی حلقہ شمال-مشرقی دہلی کے رائے دہندگان منقسم ہیں۔ جہاں ایک طبقہ بی جے پی کا روایتی ووٹر ہے، وہیں کئی لوگ فرقہ وارانہ سیاست سے قطع نظر مقامی ایشوز پر بات کر رہے ہیں۔ یہاں بی جے پی کے منوج تیواری اور ‘انڈیا’ الائنس کے کنہیا کمار کے درمیان سیدھا مقابلہ ہے۔
کئی انتخابات کے بعد ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ اپوزیشن اتحاد کے ایشوز عام لوگوں تک پہنچے ہیں اور ان کا اثر بھی پڑ رہا ہے۔
اگرچہ کانگریس اور عام آدمی پارٹی قومی راجدھانی میں ایک ساتھ ہیں، لیکن کئی پارلیامانی حلقوں کا دورہ کرنے کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ لوگ اروند کیجریوال اور ان کی پارٹی کو ہی بی جے پی کے لیے اہم چیلنج کے طور پر دیکھتے ہیں۔ دہلی میں 25 مئی کو ووٹنگ ہونی ہے۔
فرخ آباد لوک سبھا سیٹ کے لیے تیسرے مرحلے میں 13 مئی کو ووٹنگ ہوئی تھی۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے ویڈیو میں ایک نابالغ لڑکے کو کئی بار بی جے پی امیدوار اور موجودہ ایم پی مکیش راجپوت کے لیے ای وی ایم پر ووٹ ڈالتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
مظفر پور ضلع کے ایک سرکاری اسکول کے ٹیچر نے مبینہ طور پر اپنی کلاس میں بچوں سے کہا تھا کہ کسی کو بھی وزیر اعظم نریندر مودی کو ووٹ نہیں دینا چاہیے۔ ٹیچر کے خلاف انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کا معاملہ درج کیا گیا ہے۔
دیگر رپورٹس بھی بتاتی ہیں کہ اگنی پتھ اسکیم کے تحت منتخب ہونے والے بہت سے نوجوانوں نے ٹریننگ کے درمیان ہی نوکری چھوڑ دی تھی۔ یہ نوجوان فوج کی نوکری میں جانا تو چاہتے ہیں، لیکن اگنی پتھ نے ان کے جذبے پر پانی پھیر دیا ہے۔
جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت اور آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد پہلی بار صوبے میں ہونے والی ووٹنگ اور اور دہلی لوک سبھا انتخابات میں ‘انڈیا’ اتحاد کی پوزیشن کے موضوع پر کشمیر کے صحافی آکاش حسن اور دی وائر کے بانی مدیر سدھارتھ وردراجن کے ساتھ تبادلہ خیال کر رہی ہیں میناکشی تیواری۔
لوک سبھا انتخابات کے دوران قومی اور ریاستی سطح کی جماعتوں کو آکاش وانی اور دوردرشن کے ذریعے عوام تک اپنا پیغام پہنچانے کے لیے وقت دیا جاتا ہے۔ اپوزیشن کے دو لیڈران – سی پی آئی (ایم) کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری اور آل انڈیا فارورڈ بلاک کے جی دیوراجن نے کہا کہ ان کی تقریروں میں ترمیم کی گئی۔
گزشتہ 13 مئی کو نیوز 18 کو دیے ایک انٹرویو میں نریندر مودی سے پوچھا گیا تھاکہ انہوں نے کیوں کہا کہ اگر کانگریس اقتدار میں آتی ہے تو وہ رام مندر کے فیصلے کو پلٹ دے گی، تو انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ان کا بیان نہیں ہے۔ تاہم، 7 مئی کو مدھیہ پردیش کے دھار میں ہوئے ایک انتخابی اجلاس کے ویڈیو میں وہ صاف طور پر یہ کہتے ہوئے نظر آرہے ہیں کہ مودی کو چار سو سیٹیں اس لیے چاہیےکہ کانگریس ایودھیا کے رام مندر پر بابری تالہ نہ لگا دے۔
کہا جاتا ہے کہ کانگریس میں امیدوار الیکشن لڑتا ہے، بی جے پی میں یہ ذمہ داری تنظیم سنبھالتی ہے۔ اس بار بی جے پی اور سنگھ کے کارکنوں میں زیادہ جوش نظر نہیں آ رہا ہے۔
الیکشن کمیشن نے 15 مئی کو تکنیکی بنیادوں پر وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف وارانسی انتخابی حلقہ سے کامیڈین شیام رنگیلا کا پر چہ نامزدگی خارج کر دیا۔ رنگیلا نے کہا ہے کہ ‘جمہوریت میں صرف (الیکشن) کمیشن کے منتخب کردہ افراد کو ہی الیکشن لڑنے کا حق حاصل ہے۔’
گزشتہ اپریل میں راجستھان کے بانس واڑہ سے شروع ہونے والی تقریروں کی ایک سیریز میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کھلے عام مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے جھوٹے دعوے کیے ہیں کہ کانگریس ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی سے ریزرویشن چھین کر مسلمانوں کو دینا چاہتی ہے۔ بی جے پی نے اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے سوشل میڈیا پر مسلم مخالف ویڈیو بھی ڈالے ہیں۔
گزشتہ دنوں کانگریس، سی پی آئی اور سی پی آئی (ایم ایل) نے اپنی شکایت میں الزام لگایا تھا کہ راجستھان کے بانس واڑہ میں مودی کی تقریر، انتخابی ریلیوں میں ان کا بار بار رام مندر کا ذکر کرنا اور کانگریس کے منشور کو مسلم لیگ کا بتانا ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے، جس پر الیکشن کمیشن نے بی جے پی صدر جے پی نڈا کو نوٹس جاری کیا تھا۔
لوک سبھا انتخابات میں حصہ لینے والے بی جے پی کے 435 امیدواروں میں سے 106 ایسے لیڈر ہیں جو پچھلے دس سالوں میں پارٹی میں شامل ہوئے ہیں۔ ان میں سے 90 پچھلے پانچ سالوں میں بی جے پی میں شامل ہوئے ہیں۔