آسام کے وزیر خزانہ ہمنتا بسوا شرما نے سنیچر کو جاری این آر سی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہ سپریم کورٹ کو سرحدی اضلاع میں کم سے کم 20 فیصد اور بقیہ آسام میں 10 فیصد ری ویر ی فکیشن کی اجازت دینی چاہیے۔وہیں بی جے پی ایم ایل اے شیلادتیہ دیو نے کہا کہ این آر سی ‘ہندوؤں کو باہر کرنے اور مسلمانوں کی مدد کرنے’ کی سازش ہے۔
این آر سی کو لے کر ایک مدعا یہ بھی رہا کہ این آر سی کے بہانے مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ایک بڑا طبقہ اس کے لئے ریاست کی بی جے پی حکومت کو ذمہ دار مانتا ہے، لیکن یہ سچ نہیں ہے۔
آسام میں ہندوستانیوں کی پہچان کرنے کے لئے سنیچر کو این آر سی کی آخری فہرست شائع کر دی گئی۔ 3.3 کروڑ درخواست گزاروں میں سے 19 لاکھ سے زیادہ لوگ آخری فہرست میں سے باہر کر دئے گئے ہیں۔
بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں مصدقہ ہندوستانی شہریوں کی تازہ فہرست جاری کر دی گئی۔ کئی دہائیوں سے آسام میں مقیم قریب بیس لاکھ افراد کو ’غیر قانونی تارکین وطن‘ قرار دے دیا گیا جن میں اکثریت مسلمان شہریوں کی ہے۔
خصوصی رپورٹ : این آر سی کا پہلا مسودہ جاری ہونے کے بعد سے امت شاہ سمیت کئی بی جے پی رہنما ‘گھس پیٹھیوں’ کو نکالنے کے لئے پورے ملک میں این آر سی لانے کی پیروی کر رہے تھے۔ اب آسام میں این آر سی کی اشاعت سے پہلے بی جے پی نے اس کے خلاف مورچہ کھول دیا ہے۔
ویڈیو: آسام میں چل رہے این آر سی کی وجہ سے بھلے ہی اس کی چرچہ اب پورے ملک میں ہو رہی ہے لیکن اس کی جڑیں بے حد پرانی ہیں۔ این آر سی سے جڑے مختلف پہلوؤں کے بارے میں بتا رہی ہیں میناکشی تیواری۔
آسام کے سلچر سے دو بار ایم ایل اے رہ چکے دلیپ کمار پال نے کہا کہ جدید سائنس دانوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ اگر بھگوان کرشن کی طرح بانسری بجائی جائے تو گائے کئی گنا زیادہ دودھ دےگی۔
اس سے پہلے فارین ٹریبونل کارگل جنگ میں حصہ لے چکے محمد ثناء اللہ اور سینٹرل انڈسٹریل سکیورٹی فورس کے جوان مامود علی کو بھی غیر ملکی قرار دے چکا ہے۔ ثناء اللہ کے واقعہ کے فوراً بعد، آرمی چیف جنرل بپن راوت نے کہا تھا کہ کسی بھی جوان کو کسی قسم کی پریشانی نہیں ہوگی۔
این آر سی کی اشاعت کو آگے بڑھانے کی مانگ کرتے ہوئے اے بی وی پی نے کہا کہ موجودہ فہرست میں بہت سے اصل باشندوں کے نام چھوٹے ہیں اور غیر قانونی مہاجروں کے نام جوڑے گئے ہیں۔ جب تک اس کو دوبارہ تصدیق کر کے سو فیصد خامیاں دور نہیں کی جاتی، اس کی اشاعت نہیں ہونی چاہیے۔
طالبہ کا کہنا ہے کہ انہوں نے یہ پوسٹ جون 2017 میں لکھی تھی اور اس کو فوراً ڈیلیٹ بھی کردیا تھا۔ اس کو لے کر آسام پولیس نے معاملہ درج کیا ہے۔
سپریم کورٹ نے کہا،’ہماراحکم اور ہماری کارروائی ہر لمحہ بحث اور تنقید کا موضوع ہوتی ہے۔ ہم اس سے بدحواس نہیں ہوتے۔ اگر ہم اس پر غور کریںگے تو ہم کبھی بھی اپنا کام پورا نہیں کر سکیںگے۔ ‘
آسام کے پارلیامنٹری افیئرس منسٹر چندرموہن پٹواری نے اسمبلی میں بتایا کہ اس سال اب تک ڈٹینشن سینٹروں میں غیر ملکی قرار دیے گئے سات لوگوں کی جان جا چکی ہے۔
لبرل دانشور جماعت کے لئے ہندوستان بھلےہی اب تک ہندو راشٹر نہ بنا ہو، لیکن گلیوں میں گھومنے والے ہندتووادیوں کے لئے یہ ایک ہندو راشٹر ہے۔ اس کی علامت بھلے چھپی ہوئی ہوں، لیکن اس کے حمایتی اور متاثرین، دونوں ہی بہت واضح طور پر اس کا تجربہ کر سکتے ہیں۔
ویڈیو: نظم کا ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈالے جانے کے بعد ’میں میاں ہوں‘نظم کے تخلیق کار حافظ احمد سمیت 10 لوگوں پر ایف آئی آر درج کی گئی۔ ان لوگوں پر اپنی نظموں کے ذریعے آسام کے این آر سی اور آسام کے لوگوں کے تئیں نفرت اور تعصب رکھنے کا الزام لگایا گیا ہے۔آج کی ماسٹر کلاس میں اس مدعے پر پروفیسر اپوروانند کا نظریہ۔
مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے راجیہ سبھا میں کہا کہ ملک کی ایک ایک انچ زمین پر جو غیر قانونی مہاجر رہتے ہیں، ہم ان کی پہچان کریںگے اور عالمی قوانین کے تحت ان کو ملک سے باہر کریںگے۔
آسام شہریت مدعے پر جن لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے، ان میں سے زیادہ تر بنگالی نژاد مسلم شاعر اور کارکن ہیں۔ ان پر دنیا بھر میں آسام کے لوگوں کی امیج خراب کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔
وزارت داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق، سب سے زیادہ تقریباً 1.29 لاکھ عہدے اتر پردیش میں، بہار میں 50000 عہدے اور مغربی بنگال میں 49000 عہدے خالی ہیں۔ وہیں، ناگالینڈ پولیس ملک کی واحد ایسی فورس ہے، جہاں طے شدہ تعداد سے 941 زیادہ ملازمین کو بھرتی کیا گیا ہے۔
پولیس نے بتایا کہ شیوساگر ضلع کے گنیاندیپ گگوئی کو ممنوعہ تنظیم یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ (انڈی پینڈنٹ) کی حمایت میں پوسٹ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے۔
آسام کے دورے پر گئی 4 ممبروں کی مرکزی ٹیم میں شامل ایک افسر نے کہا کہ جولائی اور اگست آنے والے دو مہینے اہم ہیں۔ یہ چیلنج ہوگا کہ ان دو مہینوں میں اس کا قہر کم ہو۔
ساہتیہ اکادمی ایوارڈ یافتہ درگا کھاٹی واڑہ اور آسام تحریک کی پہلی خاتون شہیدبجینتی دیوی کی فیملی کے ممبروں کو آسام این آر سی کے مکمل مسودہ سے باہر کر دیا گیا ہے۔
آسام حکومت میں ہیلتھ اینڈ فیملی ویلفیئر ڈپارٹمنٹ کے چیف سکریٹری سمیر سنہا نے بتایا کہ اس سال جن لوگوں کی موت اے ای ایس کی وجہ سے ہوئی ہے ان میں 10 بالغ جبکہ 2 بچے شامل ہیں۔
فارنرز ٹریبونل کے سامنے پولیس نے یہ قبول کیا کہ انہوں نے 2016 میں ٹریبونل کے ذریعے غیر ملکی قرار دی گئی مدھومالا داس کی جگہ مدھو بالا منڈل کو حراست میں بھیج دیا تھا۔
باہر کیے گئے لوگوں کی نئی فہرست میں جن لوگوں کے نام شامل ہیں یہ وہ لوگ ہیں جن کے نام گزشتہ سال 30 جولائی کو جاری این آر سی کے مسودہ میں شامل تھے، لیکن بعد میں وہ اس کے اہل نہیں پائے گئے۔
یہ معاملہ آسام کے بارپیٹا کا ہے۔ 18 جون کورائٹ ونگ کے کچھ گروپ کے لوگوں نے آٹورکشہ روککر اس میں سوار مسلم کمیونٹی کے کچھ لوگوں کی مبینہ طور پر پٹائی کی۔ اس معاملے میں دو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔
موری گاؤں بی جے پی آئی ٹی سیل کے سکریٹری نیتو بورا نے سوشل میڈیا پر لکھا تھا کہ ریاست کی بی جے پی حکومت مہاجر مسلموں سے مقامی آسامیوں کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی ہے۔
این آر سی سے باہر رہ جانے والوں کی اکثریت مسلمان ہے۔ ہندو بھی اچھی خاصی تعداد میں ہیں۔ چنانچہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے ان ہندوؤں کو بچانے کا ایک حل تلاش کر لیا۔ جو مسلمان ہیں انھیں بی جے پی “گھس پیٹھیا” کہتی ہے اور جو ہندو ہیں انہیں “شررنارتھی” یعنی رفیوجی۔ گھس پیٹھیوں کو پارٹی ملک بدر کرنا چاہتی ہے جبکہ شررنارتھیوں کو شہریت سے نوازنا چاہتی ہے۔ اس کام کے لئے مرکزی حکومت نے 2016 میں ایک بل پیش کیا اور 2018 میں اسے لوک سبھا سے پاس کرانے میں کامیاب ہو گئی۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ آسام میں این آر سی کو آخری شکل دینے کی 31 جولائی کی تایخ آگے نہیں بڑھائی جائےگی۔ یہ یقینی بنایاجانا چاہیے کہ این آر سی سے متاثر ہونے والے ہر شخص کو غیر جانبدارانہ سماعت کا موقع ملے۔
صدر جمہوریہ ایوارڈ یافتہ ثناء اللہ کو آسام فارنرس ٹریبونل نے غیر ملکی قرار دیا ہے۔ان کو گولپاڑا کے حراستی سینٹر میں بھیجا گیا۔ثناء اللہ کے اہل خانہ نے بتایا کہ وہ ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف گوہاٹی ہائی کورٹ میں اپیل کریں گے ۔
بی جے پی ایم ایل اے نے اپنے بیان پر وضاحت دی ہے کہ ، میری مسلم کمیونٹی کو گائے کہنے کی کوئی منشا نہیں تھی ۔ میں نے کہا تھا کہ ان سے ووٹ مانگنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔
صحافیوں پر حملے کے یہ واقعات آسام کے نلباڑی اور تنسکیا ضلعوں میں ہوئے۔ وزیراعلیٰ سربانند سونووال نے ڈی جی پی سے تفتیش میں تیزی لانے اور مجرموں پر مقدمہ درج کرنے کو کہا ہے۔
ویڈیو: آسام میں مبینہ طور پر گائے کا گوشت بیچنے کے شک میں بھیڑ کے ذریعے ایک مسلم بزرگ کے ساتھ مار پیٹ کیے جانے کے معاملے پر عارفہ خانم شیروانی کا نظریہ۔
سوشل میڈیا پر سامنے آئے اس معاملے کے ویڈیو میں مسلم بزرگ کو کیچڑ میں گھٹنوں کے بل بیٹھے دیکھا جاسکتا ہے اور بھیڑ پوچھتی نظر آرہی ہے کہ کیا اس کے پاس گائے کا گوشت بیچنے کا لائسنس ہے؟
آسام میں غیر ملکی لوگوں کی حراست سے جڑے ایک معاملے کی سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے پوچھا کہ غیر ملکی شہری کیسے مقامی آبادی کے ساتھ گھل-مل گئے اور ان کا پتا لگانے کے لئے ریاستی حکومت کیا کر رہی ہے۔ عدالت نے آسام کے چیف سکریٹری کو طلب کیا۔
آسام میں این آر سی کا دوسرا اور آخری مسودہ 30 جولائی، 2018 کو شائع کیا گیا تھا جس میں 3.29 کروڑ لوگوں میں سے 2.89 کروڑ لوگوں کے نام شامل کئے گئے تھے۔ اس مسودہ میں 4070707 لوگوں کے نام نہیں تھے۔
نارتھ ایسٹ نیوزپیپر سوسائٹی نے ایک پریس ریلیز جاری کرکے آسام کی سربانند سونووال حکومت کے ذریعے اسپانسر کسی بھی اشتہار، خبر یا تصویر کا استعمال نہیں کرنے کا اعلان کیا۔ آسام کے زیادہ تر اخبار اسی سوسائٹی کا حصہ ہیں۔
آسام کے وزیر ہمنتا بسوا شرما نے کہا کہ پلواما دہشت گردانہ حملے کے بعد سوشل میڈیا پر پاکستان کی تعریف کرنے کے لیے آسام میں 130 لوگوں کو گرفتار کیا گیا۔
چیف جسٹس آف انڈیا رنجن گگوئی نے کہا کہ مرکزی حکومت این آر سی پروسیس کو لے کر تعاون نہیں کر رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ وزارت داخلہ کی پوری کوشش این آر سی پروسیس کو برباد کرنے کی ہے۔
آر ٹی آئی کارکن اور کسان رہنما اکھل گگوئی، ساہتیہ اکادمی ایورڈیافتہ ہیرین گگوئی اور صحافی منجیت مہنت کے خلاف بھی شہریت (ترمیم) بل کو لےکر دئے گئے بیان کے لئے حکومت کے خلاف بغاوت کا معاملہ درج کیا گیا ہے۔
3 اکتوبر2008 کو آسام کے 4 ضلعوں میں 11 سلسلہ وار دھماکے میں 87 لوگ مارے گئے تھے ۔ اس معاملے میں کلیدی ملزم دیمری کو بنگلہ دیش میں گرفتار کیا گیا تھا اور 2010 میں ہندوستان کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
بی جے پی ترجمان سوپنل بروآ نے کہا کہ اقتصادی وجوہات سے بنگلہ دیشی ہندوستان نہیں آ رہے ہیں۔ یورپ اور سرحدی ملکوں میں ان کو کم سے کم 3000 روپے روز ملتے ہیں جبکہ ہندوستان میں وہ زیادہ سے زیادہ ہزار روپے ہی کما سکتے ہیں۔ ایسے میں وہ یہاں کیوں آئیںگے۔