شکیل رشید لکھتے ہیں: گلزار اعظمی کی موت سے جو ‘خلا’پیدا ہو گیا ہے، بھرنے کا کام شروع ہوگیا، یا شروع کر دیا گیا، ذرا انتظار نہیں کیا گیا۔ لیکن ایک سوال یہ تو اٹھتا ہی ہے کہ کیا فوری طور پر تبدیلیاں ضروری تھیں ؟ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ گلزار صاحب نے جن افراد کو مامور کر رکھا تھا مرکز کو اُن پر اعتبار نہیں تھا، یا مرکز انہیں کام کا نہیں سمجھ رہا تھا ؟ یہ اہم سوال ہیں۔ ابھی مزید سوال سامنے آئیں گے جب جمعیتہ علماء مہاراشٹر کے صدر کا انتخاب ہوگا۔ایک بات یہ بھی کہ؛ مولانا محمود مدنی کا کوئی تعزیتی بیان یا مراسلہ میری نظر سے نہیں گزرا، کیوں؟
سوشلسٹ ذہنیت کے گلزار اعظمی نے نوے سال کی عمر پائی جس میں سے انہوں نے پینسٹھ سال جمعیۃ علماء میں گزارے اور ان ایام میں ان کا شیوہ صرف مظلوموں اور بے قصوروں کی داد رسی کرنا ہی تھا۔
اعظمی کی نگرانی میں جمعیۃ علماء ہند ایک سماجی اور مذہبی تنظیم سے قانونی امداد فراہم کرنے والی تنظیم میں بدل گئی۔
شاہد اعظمی کی طرح احتشام بھی کورٹ روم کے اندر اور باہرانصاف کی لڑائی کے لیے پرعزم تھے۔مظلوموں کے لیے لڑنے کی خواہش، ہندوتوا عناصر کا مقابلہ کرنے کی ہمت اور مسلمانوں کے ساتھ ہی دیگرکمزور طبقات کے خلاف ہونے والے مظالم کے سامنے سینہ سپر ہونے کی جرأت نے انھیں اقتدار میں بیٹھے لوگوں اور ان کے اتحادیوں کی آنکھ کا کانٹا بنا دیا تھا۔
اگر دیکھا جائے تو پولیس سربراہ کا یہ دعویٰ کہ انہوں نے کشمیر میں نسبتاً امن و امان قائم کروانے میں کامیابی حاصل کی ہے کچھ غلط نہیں ہے۔ مگر یہ قبرستان کی پر اسرار خاموشی جیسی ہے۔خود ہندوستان کے سیکورٹی اور دیگر اداروں میں بھی اس پر حیرت ہے کہ کشمیریوں کی اس خاموشی کے پیچھے مجموعی سمجھداری یا ناامیدی ہے یا یہ کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔
ممنوعہ اسلامی تنظیم پاپولر فرنٹ آف انڈیا کے ٹھکانوں پر چھاپے ماری کی کارروائی جمعرات کی صبح ریاستی پولیس کے تعاون سے شروع ہوئی۔ کہا جا رہا ہے کہ این آئی اے کو کئی دہشت گردانہ سرگرمیوں اور قتل معاملوں میں ملوث پی ایف آئی کیڈر کے خلاف خصوصی ان پٹ موصول ہوئے تھے۔
بہت سے الزامات جو آج پی ایف آئی پر لگائے جا رہے ہیں، کم و بیش ان ہی الزامات کا پٹارہ سیمی کے خلاف بھی کھولا گیا تھا۔سیمی کی طرف سے دائر کئی اپیلیں کئی دہائیوں سے عدالت اعظمیٰ کی کارروائی کی منتظر ہیں۔اگر یہ انصاف ہے تو ظلم اور ناانصافی کسے کہتے ہیں؟ اندیشہ ہے کہ یہی ڈرامہ دوبارہ کھیلا جا رہا ہے۔
آر جے ڈی ایم پی منوج جھا کو 23 اکتوبر کو لاہور میں انسانی حقوق کی معروف کارکن عاصمہ جہانگیر کی یاد میں ہونے والے ایک پروگرام میں مدعو کیا گیا تھا۔ جھا نے ان کی درخواست کو مسترد کیے جانے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ وزارت داخلہ سے منظوری مل گئی تھی، لیکن وزارت خارجہ نے سیاسی منظوری نہیں دی۔
بہوجن سماج پارٹی کی صدر اور یوپی کی سابق وزیر اعلیٰ مایاوتی نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ پر پابندی لگانے کے مطالبے کی حمایت کرتے ہوئے پاپولر فرنٹ آف انڈیا اور اس سے منسلک تنظیموں پر مرکز کی طرف سے لگائی گئی پابندی کو سیاسی مفاد سے متاثر قرار دیا ہے۔
مرکزی حکومت کی جانب سے پاپولر فرنٹ آف انڈیا پر یو اے پی اے کےتحت پابندی عائد کیے جانے کے بعد سامنے آئے ردعمل میں کئی پارٹیوں کے رہنماؤں نے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ سمیت متعدد ہندوتوا تنظیموں پر بھی پابندی لگانے کا مطالبہ کیا ہے۔
گزشتہ دنوں ملک بھر میں پی ایف آئی کے دفاتر پر چھاپوں اور سینکڑوں کارکنوں کی گرفتاری کے بعد مرکزی وزارت داخلہ نے یو اے پی اے کے تحت اس پر پابندی لگا دی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ وہ ملک میں عدم تحفظ کا احساس پیدا کر کے ایک کمیونٹی میں شدت پسندی کو فروغ دینے کے مقصد سےخفیہ طور پر کر کام کر رہے ہیں۔
سچر کمیٹی کی رپورٹ آنے کے پندرہ سال بعد کے ‘نیو انڈیا’ میں اقلیتی برادریوں بالخصوص مسلمانوں کے مسائل یا حقوق کے بارے میں بات کرنے کو اکثریت کے مفادات پر ‘حملہ’ سمجھا جاتا ہے۔ خود مسلمانوں کے لیے اب سب سے بڑا مسئلہ ان کی جان و مال کی حفاظت کا بن چکا ہے۔
قومی راجدھانی میں ہوئے سلسلےوار بم دھماکوں کے چھ دن بعد 19 ستمبر 2008 کو دہلی پولیس کی اسپیشل سیل کے انسپکٹر موہن چند شرما کی قیادت میں سات رکنی ٹیم نے جنوبی دہلی کے جامعہ نگر علاقے میں واقع بٹلہ ہاؤس میں انڈین مجاہدین کے مبینہ دہشت گردوں کی تلاش میں چھاپہ مارا تھا۔ اس دوران انسپکٹر شرما شہید ہو گئے تھے۔
کئی سال پہلےپاکستانی شاعرہ فہمیدہ ریاض نے لکھا تھا کہ ‘تم بالکل ہم جیسے نکلے،اب تک کہاں چھپے تھے بھائی۔ وہ مورکھتا وہ گھامڑ پن ، جس میں ہم نے صدی گنوائی، آخر پہنچی دوار تمہارے…ملک کے آج کے حالات میں یہ مصرعے سچ کے کافی قریب نظر آتے ہیں۔
ایک جمہوری معاشرہ کی بنیاد ہی اظہار رائے کی آزادی ہے، مگر کسی بھی مہذب سوسائٹی میں آزادی مطلق نہیں ہوسکتی ہے۔ اگر سوسائٹی میں کسی بھی طرح کا کنٹرول نہ ہو، تو کمزوروں کے حقوق پامال ہوں گے اور انارکی کی سی کیفیت پیدا ہوگی۔ ڈنمارک کے […]
مجھے پورا یقین ہے کہ شاہد یہ جان کر بہت خوش ہو ں گے کہ ان کی قربانی رائیگاں نہیں گئی ہے۔آج دس سال بعد بھی انہیں یاد رکھنے والوں کی تعداد میں کوئی کمی نہیں آئی ہے۔ان سے متاثر ہوئے بنا رہنا ایک نہایت ہی مشکل کام تھا۔
مودی حکومت کشمیریوں کے خلاف ان سخت قوانین کا استعمال کر رہی ہے جو وہ عام ہندوستانی شہریوں پر نافذ کرنے کی ہمت بھی نہیں کر سکتی۔ سدھارتھ وردراجن بتا رہے ہیں کہ کیسے مودی حکومت کشمیر کے معاملے میں دستور ہند کی روح کے خلاف کارروائی کر رہی ہے۔
پروینہ آہنگر کا کہنا ہے کہ میڈیا ان کی دکھ بھری کہانیوں کو ‘فروخت’ کرتا ہے۔ ان کی دکھ بھری کہانی پڑھی بھی جاتی ہے لیکن کوئی ان کی مدد نہیں کرتا، کوئی ان کے بیٹے کو ڈھونڈھنے میں پہل نہیں کر تا ہے۔قابل ذکر بات یہ ہےکہ ہندوستان میں پروینہ کی جد و جہد سے کو ئی متاثر ہوا ہو یا نہیں لیکن عالمی سطح پر پروینہ کی آواز ضرور سنی گئی۔
ایران کی اسلامی حکومت آ ئے دن حقوق انسانی اور آزادی کے لئے آ واز بلند کرنے والے دانشوروں اور طلباء کو ہراساں کرتی رہتی ہے، یہ خبر سب سے زیا دہ افسوس ناک ہے۔
یو این ہیومن رائٹس چیف نے کہا، مجھے ڈر ہے کہ تقسیم کی پالیسی نہ صرف کئی لوگوں کو نقصان پہنچائے گی بلکہ ہندوستان کی اقتصادی ترقی میں رکاوٹ بھی پیدا کرے گی ۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایمنسٹی انڈیا کے مطابق، ستمبر 2015 سے اب تک مبینہ طور پرہیٹ کرائم کے کل 721 معاملے سامنے آئے ہیں، جن میں ایک بڑی تعداد دلتوں اور مسلمانوں کے خلاف ہوئے جرائم کی ہے۔
متنازعہ پولیس افسر آئی جی کلوری کو گزشتہ دنون اکانومک آفینس ونگ(ای او ڈبلیو)اور اینٹی کرپشن بیورو(اے سی بی)کی ذمہ داری دینے پر بھوپیش بگھیل حکومت کو تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ 15 ایم پی نے کلوری کے خلاف جانچ کے لیے سی ایم کو خط لکھا تھا۔
شاہد اعظمی کے ماضی کے بارے میں بہت کچھ لکھا پڑھا جاچکا ہے لیکن ان کی خدمات کی اصل اہمیت وہی لوگ سمجھ سکتے ہیں جن کے مقدمات انہوں نے اس وقت لڑنا شروع کئے تھے جب ان کے اہل خانہ اور دوست احباب بھی ان سے دور ہوگئے تھے۔
ایک پولیس افسرکے مطابق ،ملی ٹنٹ تنظیمیں اپنی حکمت عملی تبدیل کر رہی ہیں ۔ اس سے پہلے ملی ٹنسی میں شامل ہوئے ہر ایک ملی ٹنٹ کی تصویر جان بوجھ کر سوشل میڈیا پر وائرل کی جاتی تھی مگر اب سائیلنٹ یا چھپ کر ملی ٹنسی میں شمولیت کی حکمت عملی اپنائی جارہی ہے تاکہ نئے ملی ٹنٹ سیکورٹی راڈارسے محفوظ رہیں اور مختلف علاقوں میں نقل و حمل کرسکیں۔
سال 2018 کشمیر میں اس دہائی کا سب سے خونی اور تشدد آمیز سال ثابت ہوا ہے، جس میں کم سے250 ملیٹنٹ، 90 سکیورٹی اہلکار اور 50 سے زائد عام شہری ہلاک ہو گئے۔
جو عوام رام، گائے اور مندر کے جھانسے میں نہیں آئی وہ جنیو اور راہل کے گوتراور شیو پوجا کے جھانسے میں بھی نہیں آنے والی۔
ویڈیو: پاکستان کی مشہور شاعرہ اور قلم کار فہمیدہ ریاض کو یاد کر رہی ہیں یاسمین رشیدی۔
کشمیر تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ اس دوران جو نسل تیار ہوئی ہے اس کے زخموں پر مرہم لگانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ کشمیر میں عسکریت دم توڑ رہی ہے مگر یہ خیال کرنا کہ وہاں امن و امان ہوگیا ہے خود کو دھوکہ دینے کے سوا کچھ نہیں۔
گزشتہ 10 سالوں میں پولیس کو کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔یہ ابھی تک ثابت ہونا باقی ہے کہ 13 ستمبر کے بلاسٹ میں ان ملزموں کا ہاتھ تھا،جن کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا تھا۔
کشمیر کے موجودہ حالات پر سینئر صحافی اور The Generation of Rage in Kashmir کے مصنف ڈیوڈ دیوداس کے ساتھ مہتاب عالم کی بات چیت۔
یوروپی یونین نے تو اپنے رکن ملکوں کے لئے باضابطہ ایک ہدایت نامہ ہی جاری کیا ہے کہ ہولوکاسٹ کو غلط قرار دینے والے ادیبوں یا مصنفین کو سخت سے سخت سزا دی جائے ۔ جس میں ایک سے تین سال قید بامشقت کی سزا بھی شامل ہے۔
کلدیپ نیئر نے اپنے کاموں سے ایک پوری نسل کی ذہن سازی کا کام کیا۔ نو واردان صحافت میں ان کی خاص دلچسپی تھی۔ اس کا ندازہ ذاتی طور پر مجھے علیگڑھ مسلم یونیورسیٹی میں اپنی طالب علمی کے زمانے میں ہوا۔
نجمہ کو راؤر کیلا جیل میں رکھا گیاتھا، جبکہ محبوب کو بھوپال سینٹرل جیل میں رکھا گیا جہاں 31 اکتوبر 2016 کو ایک انکاؤنٹر میں وہ بھوپال پولیس کےہاتھوں مارا گیا۔
میڈیا بول کے اس ایپی سوڈ میں سنیے متنازعہ علاقوں میں ماؤوادیوں کا قتل اور پریس فریڈم انڈیکس میں ہندوستان کے مقام میں آئی گراوٹ پر وکیل اور ہیومن رائٹس کارکن سدھا بھاردواج اور نیوز لانڈری کی کنسلٹنگ ایڈیٹر براج سوین کے ساتھ ارملیش کی بات چیت
جسٹس سچر اب ا س دنیا میں نہیں رہے مگر انصاف کے لیے جنگ اور بے باکی کے لیے دہلی میں لاہور کا دل رکھنے والا یہ شخص تاریخ میں امر رہےگا۔
ہیومین رائٹس کمیشن نے ایک جانچ میں بھوپال سینٹرل جیل میں سیمی سے جڑے زیر سماعت قیدیوں کے ساتھ زیادتی کی شکایتوں کو صحیح پایا ہے اور ا س کے لیے جیل اسٹاف کے خلاف قانونی کارروائی کی سفارش کی ہے۔
آرمس ٹریننگ اور ترشول دیکشا جیسے پروگرام پر حکومت فوری طور پر پابندی کے علاوہ اس کا نفرنس میں سچر کمیٹی کی سفارشات پر عمل، ریاستی مائنورٹی کمیشن کا قیام اور The Minorities (Prevention Of Atrocities) Act بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔
حقوق انسانی کے وکیل پرشانت بھوشن کا کہنا ہے کہ جب تک یہ مدعے سیاسی نہیں بنتے، حکومت کے کان نہیں کھلیںگے۔
ایمنسٹی کا ماننا ہے کہ ہندوستان میں ہیٹ کرائم کی سطح ابھی تک معلوم نہیں ہے کیونکہ عام طور پر قانون ہیٹ کرائم کو خاص جرم کی شکل میں تسلیم نہیں کرتا ہے۔
2010میں کمیشن نے تمام ریاستی حکومتوں کو ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پولیس کارروائی میں کوئی مارا جائے تو انہیں فوری طور پر این ایچ آر سی کو رپورٹ کرنا ہوگا۔