رویش کا بلاگ: وہ کون ہے جس کے دباؤ میں ہم اس سسٹم کو اپنائے ہوئے ہیں جو امریکہ، فرانس، جاپان جیسے ترقی یافتہ ممالک تک نہیں اپناتے؟ کس کا پریشر ہے ؟؟؟ اتنا ہی بتا دو کہ دباؤ اندرون ملک سے ہی کسی کا ہے یا کوئی بیرون ملک بیٹھا ہوا سب کچھ سنبھال رہا ہے؟
رپورٹنگ کی روایت کو اداروں کے ساتھ سماج نے بھی ختم کیا، وہ اپنی سیاسی پسندکی وجہ سے میڈیا اور جوکھم لےکر خبریں کرنے والوں کو دشمن کی طرح گننے لگا۔ کوئی بھی رپورٹر ایک آئینی ماحول میں ہی جوکھم اٹھاتا ہے، جب اسے بھروسہ ہوتا ہے کہ سرکاریں عوام کے ڈر سے اس پر ہاتھ نہیں ڈالیں گی۔
25 مارچ کو اشیائےخوردنی کے مرکزی وزیر رام ولاس پاسوان نے بتایا کہ اشیائےخوردنی تحفظ قانون کے تحت اب پی ڈی ایس ہولڈرز کو 2 کلو اضافی اناج ملےگا، جس سے ملک کے 81 کروڑ مستفید اگلے تین مہینے تک مستفیض ہوںگے۔ 26 مارچ کے وزیر خزانہ کے اعلان میں مستفید کی تعداد 80 کروڑ ہے۔ ایک کروڑ کا حساب کیا حکومت کے بولنے-لکھنے میں غائب ہو گیا؟
مودی جب سے برسراقتدار آئے ہیں، عرب ممالک انہیں کچھ زیادہ ہی سر آنکھوں پر بٹھا رہے ہیں۔ ملک میں اقلیتوں کے تئیں خوف و ہراس کی فضا، ہندو تنظیموں اور حکومت کی طرف سے آئے دن دل آزار بیانات، شہریت کے نئے قانون اور دہلی کے فسادات بھی عرب حکمرانوں کو پسیج نہیں پا رہے ہیں۔ عرب حکمراں آخر مودی حکومت کی منہ بھرائی کیوں کر رہے ہیں؟ یہ کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔
ہم ساوتری بائی پھولے کو صرف ڈاک ٹکٹ کے لئے یاد نہ کریں۔یاد کریں تو اس لئے کہ اس وقت کا سماج کتنا گھٹیا اور ظالم تھا۔ اس سماج میں ایک دلیر خاتون بھی تھیں جن کا نام ساوتری بائی پھولے تھا۔
جس وقت رپورٹنگ کی ضرورت ہے، جاکر دیکھنے کی ضرورت ہے کہ فیلڈ میں پولیس کس طرح کا تشدد کر رہی ہے، پولیس کی باتوں میں کتنی سچائی ہے، اس وقت میڈیا اپنے اسٹوڈیو میں بند ہے۔ وہ صرف پولیس کی باتوں کو چلا رہا ہے، اس کوسچ مان لے رہا ہے۔
حکومت کے پاس کوئی آئیڈیا نہیں ہے۔ وہ ہر اقتصادی فیصلے کو ایک ایونٹ کےطور پر لانچ کرتی ہے۔ تماشہ ہوتا ہے، امیدیں بٹتی ہیں اور نتیجہ زیرو ہوتا ہے۔
کسی یونیورسٹی کے برباد ہونے کو جتنی سماجی اور سیاسی حمایت ہندوستان میں ملتی ہے، اتنی کہیں نہیں ملےگی۔ ہم بغیر گرو کے ہندوستان کو وشو گرو بنا رہے ہیں۔ رومیلا تھاپر کو ہندوستان کو وشوگرو بنانے کے پروجیکٹ میں مدد کرنی چاہیے۔
انوپم کھیر جیسے کچھ فنکار تختی لےکر میڈیا کو مدعا دیتے ہیں۔ ان کی تصویر اسکرین پر دکھاکر گھر بیٹھے لوگوں کے ذہن میں زہر بھرا جاتا ہے۔ اس عمل میں مسلمان کو دوئم درجے کا شہری بنایا جاتا ہے۔ لیکن اس سے پہلے جن کے ذہن میں یہ کچرا بھرا جاتا ہے ان کو دوئم درجے کا شہری بنایا جا چکا ہوتا ہے۔ اس لئے وسیع ہندو مفاد میں یہ ضروری ہے کہ تمام نیوز چینل دیکھنا بند کر دیں۔ کیونکہ چینلوں میں مذہب کے نام پر ہندوؤں سے جھوٹ بولا جا رہا ہے۔
صحافی تناؤ میں ہے۔ لہر کھوجنے آیا تھا۔ انڈرکرنٹ مل رہا ہے۔ تبھی مودی-مودی کرتی ہوئی ایک جیپ گزرتی ہے۔ آج شام امت شاہ کی ریلی ہونے والی ہے۔ دہلی سے یوپی آیا صحافی ٹوئٹ کرتا ہے کہ راہل گاندھی سو رہے ہیں۔ اکھلیش یادو کھو گئے ہیں۔ مایاوتی مل نہیں رہی ہیں۔ انتخاب صرف مودی لڑ رہے ہیں۔ صحافی انتظار نہیں کر سکتا ہے۔ وہ یوپی آیا ہے دہلی جاکے ٹوئٹ کرنے کے لئے۔
وزیر اعظم کی وجہ سے الیکشن کمیشن ہر دن اپنا بھروسہ کھو رہا ہے۔ الیکشن کمیشن نے اڑیسہ کے آبزرور محمد محسن کو برخاست کر دیا۔ وزیر اعظم مودی کے ہیلی کاپٹر کی تلاشی کی وجہ سے کمیشن نے جن اصولوں کا حوالہ دیتے ہوئے محسن کو برخاست کیا […]
انتخابی منشور میں سرکاری نوکریوں کو ایک لفظ کے لائق نہ سمجھکر بی جے پی نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کے لئے نوجوان اور روزگار دونوں کا مطلب بدل گیا ہے۔
ویڈیو: گزشتہ دنوں وزیراعظم نریندر مودی نے الہ آباد میں کنبھ میلے کے دوران کچھ صفائی ملازمین کے پاؤں دھوئے تھے۔ان صفائی اہلکاروں سے بات چیت۔
راہل کے وعدے میں ایک ڈیڈلائن ہے اور ایک نمبر ہے۔ مودی کی طرح ہرسال دو کروڑ روزگار دینے کا وعدہ کر کے دائیں بائیں کرنے کا پیٹرن نہیں ہے۔
نوجوانوں نے اپنی طرف سے 2014 کی طرح مودی-مودی نہیں کیا۔ 2014 کے انتخابات میں کسی کے سامنے مائک رکھتے ہی مودی-مودی شروع ہو جاتا تھا۔ کچھ بھی سوال پوچھنے پر جواب مودی-مودی آتا تھا۔ اس بار ایک بار بھی ایسا نہیں ہوا۔ کیا یہ نوجوان مودی کو ووٹ نہیں کریںگے؟
نہرو چپ ہو گئے لیکن نریندرچپ نہیں رہیںگے۔ جو نہرو نہیں کر پائے، وہی تو نریندر کرتے ہیں۔ وہ جھولا جھلاتے ہیں تو چین کو جھلسا بھی دیںگے۔ مار پچکاری، مار پچکاری رنگ دیںگے۔ چین کا چہرہ بدل دیںگے۔ مسعود اظہر کا جو دوست ہے، وہ چین ہمارا دشمن ہے۔
اب تو وزیر اعظم نے نوکری کے بارے میں جھوٹ بولنابھی بند کر دیا ہے۔ کیا اس بار پچھلے انتخاب کی طرح 2 کروڑ کی جگہ 4 کروڑ روزگار دینے کا جھوٹا نعرہ آئےگا؟
آپ سمجھ سکتے ہیں کہ کیوں وزیر اعظم نریندر مودی بےروزگاری پر بات نہیں کر رہے ہیں۔ پلواما کے بعد ایئر اسٹرائک ان کے لئے بہانہ بن گیا ہے۔راشٹر واد راشٹر واد کرتے ہوئے انتخاب نکال لیںگے اور اپنی جیتکے پیچھے خوفناک بےروزگاری چھوڑ جائیںگے۔
الہ آباد میں وزیر اعظم نریندر مودی کے ذریعے صفائی اہلکاروں کے پاؤں دھونے پر کانگریس صدر راہل گاندھی نے کہا کہ وہ کیمرے کے لیے جیتے ہیں۔کیمرہ بند ہو نے کے بعد وزیر اعظم نے صفائی ملازمین کے مسائل تک نہیں سنے۔ایونٹ بنایا اور نکل گئے،اگلے ایونٹ کے لیے۔
صحافیوں کی اپنی ذاتی رائے ہو سکتی ہے، لیکن رپورٹنگ کرتے وقت ان کو اس سے دور رہنا ہوتا ہے-کیونکہ رپورٹنگ ان کی حب الوطنی کا آئینہ نہیں ہے، بلکہ اپنے قارئین کے ساتھ پیشہ ورانہ ڈیل کا حصہ ہے۔
2015 – 2016 سےتین سال تک 10.4 فیصد کی شرح سے ترقی کرنے پر ہی ہم زراعتی شعبے میں دوگنی آمدنی کے ہدف کو پا سکتے تھے۔ اس وقت یہ 2.9 فیصد ہے۔ مطلب صاف ہے ہدف تو چھوڑئیے، آثار بھی نظر نہیں آ رہے ہیں۔ اب بھی اگر اس کو حاصل کرنا ہوگا تو باقی کے چار سال میں 15 فیصد کی شرح نمو حاصل کرنی ہوگی جو کہ موجودہ آثار کے حساب سے ناممکن ہے۔
ذات پات کو صحیح ٹھہرانے والے نریندر مودی نے گجرات کا وزیر اعلیٰ رہتے ہوئے اپنی کتاب’ کرم یوگی ‘میں غلاظت صاف کرنے والے دلتوں کو ان کی مجبوری کا کام نہیں بلکہ روحانیت کا کام قرار دیا تھا۔
کیا آپ پبلک کے طور پر ان چینلوں میں پبلک کو دیکھ پاتے ہیں؟ ان چینلوں نے آپ پبلک کو ہٹا دیا ہے۔ کچل دیا ہے۔ پبلک کے سوال نہیں ہیں۔ چینلوں کے سوال پبلک کے سوال بنائے جا رہے ہیں۔
حکومت نے پیغام دیا ہے کہ گالی اور دھمکیاں دینے والے ہمارے لوگ ہیں۔ان کو کچھ نہیں ہونا چاہیے۔اس کی یہ کارروائی ایک ایماندار اور باضمیر افسر کو مایوس کرتی ہے اور بد قماش لوگوں کی جماعت کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔
شیو سینا نے اپنی پارٹی کے ماؤتھ پیس سامنا میں کہا ہے کہ ، صفائی ملازمین کے پاؤں دھونے کے لیے مودی کو مبارکبا ددینی چاہیے لیکن ان سے جڑا سوال ان کے پیٹ کے بارے میں ہے نہ کہ ان کے پیر کے بارے میں۔
سیور میں ہونے والی اموات کے خلاف صفائی ملازمین کی تنظیم نے نئی دہلی کے جنتر منتر پر کیا تھامظاہرہ۔ تنظیم نے کہا کہ صفائی ملازم کا بچہ صفائی ملازم نہ بنے، اس کے لئے حکومت کو کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔
نیوز چینلوں کی حب الوطنی سے ہوشیار رہیے۔ اپنی حب الوطنی پر بھروسہ کیجئے۔ جو چینل ملک کی حکومت سے سوال نہیں پوچھ سکتے وہ پاکستان سے پوچھ رہے ہیں۔ فوج اپنے جوانوں سے کہے کہ نیوز چینل نہ دیکھیں ورنہ گولی چلانے کی جگہ ہنسی آنے لگےگی۔
کیا کسی بے روزگار کے گھر سموسہ کھالینے سے بے روزگاروں کی عزت ہوسکتی ہے ؟ ان کو نوکری چاہیے یا وزیر اعظم کے ساتھ سموسہ کھانے کا موقع؟ اگر پاؤں دھونا ہی عزت ہے تو پھر آئین میں ترمیم کرکے پاؤں دھونے اور دھلوانے کا حق جوڑ دیا جانا چاہیے۔
آپ گودی میڈیا کی حب الوطنی کو لےکر کسی غلط فہمی میں نہ رہیں۔ جب کسان دہلی آتے ہیں تو یہ میڈیا سو جاتا ہے۔ جانتے ہوئے کہ انہی کسانوں کے بیٹے سرحد پر شہید ہوتے ہیں۔
مودی حکومت کے ذریعے کئے گئے معاہدے کے تحت گارنٹی سے متعلق اہتماموں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سی اے جی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ معاہدہ ٹوٹنے کی صورت میں ہندوستان کو پہلے پنچاٹ یا ثالثی کے ذریعے سیدھے طور پر ہوائی طیارے کے فرانسیسی فراہم کنندگان کے ساتھ معاملے کو سلجھانا پڑےگا۔
کیا واقعی بہتر شرطوں پر ڈیل ہوئی؟ سی اے جی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ یہ ڈیل صرف اور صرف داسو کی شرطوں پر ہوئی۔ میک ان انڈیا کی شرط کا کیا ہوا، کچھ نظر نہیں آیا۔
رافیل کو لےکر مودی حکومت کا دعویٰ ہے کہ نئی ڈیل یو پی اے حکومت سے بہتر ہے اور اس کی وجہ سے ہندوستان کو طیارے جلدی مل جائیںگے۔ حالانکہ وزارت دفاع کے تین سینئر افسروں نے حکومت کے ان دعووں سےاتفاق نہیں کیا تھا۔
اخبار نے وزیر اعظم کی تقریر کو اتنے ادب سے چھاپا ہے جیسے پورا اخبار ان کا ٹائپسٹ ہو گیا ہو۔2019 میں 2030 کی ہیڈلائن لگ رہی ہے۔ آخر کیوں اخبار چھپکر آتا ہے، خبر چھپی ہوئی نہیں دکھتی ہے۔
کانگریس کو ابھی بھروسہ نہیں ہے کہ وہ لوک سبھا انتخاب میں 100 سیٹوں سے زیادہ لا پائے گی۔ ایسے میں امید کی کرن یہی ہے کہ رائے دہندگان پارلیامنٹ میں کی گئی مودی کی تقریر سے متاثر نہ ہوں۔
آخر مودی حکومت فرانس کی دونوں کمپنیوں کو بد عنوانی کی حالت میں کارروائی سے کیوں بچا رہی تھی؟ اب مودی جی ہی بتا سکتے ہیں کہ بد عنوانی ہونے پر سزا نہ دینے کی مہربانی انہوں نے کیوں کی۔ کس کے لئے کی۔
دی ہندو میں این رام نے جو نوٹ چھاپا ہے وہ کافی ہے وزیر اعظم مودی کے کردار کو صاف صاف پکڑنے کے لئے۔ یہی نہیں حکومت نے اکتوبر 2018 میں سپریم کورٹ سے بھی یہ بات چھپائی ہے کہ اس ڈیل میں وزیر اعظم دفتر بھی شامل تھا۔
کیا اگلے عام انتخاب میں مودی حکومت یا مہاگٹھ بندھن میں سے کوئی رہنما یا جماعت اپنے انتخابی منشور میں یہ وعدہ کر سکتی ہے کہ وہ ملک کےعوام کو تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولت دینے کی آئینی ذمہ داری نبھانے کے لئے 2019 سے ملک کے ارب پتیوں اور امیروں پر مناسب ٹیکس لگانے کا کام کرےگی؟
ملک کے سرکاری اسکولوں میں دس لاکھ اساتذہ نہیں ہیں۔ کالجوں میں ایک لاکھ سے زیادہ اساتذہ کی کمی بتائی جاتی ہے۔ سرکاری اسکولوں میں آٹھویں کے بچّے تیسری کی کتاب نہیں پڑھ پاتے ہیں۔ ظاہر ہے وہ ڈپریشن سے گزریںگے کیونکہ اس کے ذمہ دار بچّے نہیں، وہ سسٹم ہے جس کو پڑھانے کا کام دیا گیا ہے۔
ایک شہری اور کارکن کے طور پر محتاط رہنا چاہیے کہ سیاست چند گھرانوں کے ہاتھ میں نہ رہ جائے۔ لیکن اس سوال پر بحث کرنے کے لائق نہ تو امت شاہ ہیں، نہ نریندر مودی اور نہ راہل گاندھی۔ صرف عوام اس کی صلاحیت رکھتی ہے ۔ جب تک یہ رہنما کوئی صاف لائن نہیں لیتے ہیں، پریوارواد کے نام پر ان کی بکواس نہ سنیں۔
لندن میں ہوئی ہیکر سید شجاع کی پریس کانفرنس کو دو حصے میں دیکھا جانا چاہیے۔ ایک ای وی ایم کو چھیڑنے کی تکنیک کے طور پر ، جس پر ہنسنے والوں کے ساتھ ہنسا جا سکتا ہے، مگر دوسرا حصہ قتل کے سلسلے کا ہے۔ ایک کمرے میں ای وی ایم چھیڑنے کی تکنیکی جانکاری رکھنے والے 11 لوگوں کو بھون دیا جائے، یہ بات فلمی لگ سکتی ہے تب بھی اس پر ہنسا نہیں جا سکتا۔