اکالی دل پچھلی کئی دہائیوں سے بی جےپی کا ایک دم چھلہ بن گئی تھی۔ جب اس کے گڑھ پنجاب میں مرکزی حکومت کےکسانوں کے تئیں رویہ کی وجہ سے اس کی سبکی ہو رہی تھی تو وہ اپنی ساکھ بچانے کے لیے بی جے پی اور حکومت سے الگ تو ہوگئی مگر سکھوں کی اکثریت کی حمایت سے ابھی بھی وہ محروم ہے۔ اس لیے کشمیر میں سکھ خطرے میں ہے کاالارام بجا کر وہ اپنا سیاسی الو سیدھا کرنا چاہتی تھی، جس کو مقامی آبادی نے ناکام بنادیا۔
ویڈیو: کشمیر میں دو سکھ لڑکیوں کے مذہب تبدیل کرنےاور نکاح کا معاملہ طول پکڑ چکا ہے۔ سکھ کمیونٹی کے لوگ کشمیر سے لےکر نئی دہلی تک مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ کشمیر میں آئے دن اغوا، دباؤ بناکر تو کبھی بہلا پھسلاکر لڑکیوں کا مذہب تبدیل کروایا جا رہا ہے۔ اس موضوع پر عارفہ خانم شیروانی نے جموں وکشمیر کے صحافیوں گوہر گیلانی، شاکر میر اور سماجی کارکن کنول جیت کور سے چرچہ کی۔
بتایا جاتا ہے کہ 1947میں تقسیم کے وقت جب پنجاب اور اس کے 24راجواڑوں میں کشت و خون کا بازار گرم تھا تو دہلی سے 300 کیلومیٹر دور مسلم اکثریتی مالیر کوٹلہ ایک جزیرہ امن کی طرح قائم رہا۔ یہاں کسی کا خون بہا نہ کسی کو ہجرت کرنے کی ضرورت پیش آئی۔ پورے مغربی پنجاب میں یہ واحد علاقہ ہے، جہاں مسلمانوں کی تعداد 65فیصدہے۔
گراؤنڈ رپورٹ: ارریہ ضلع کے ہلہلیا پنچایت میں مسہر کمیونٹی سمیت پسماندہ طبقات کے کئی مزدور، جو روزگار کے لیے پنجاب گئے تھے، انہوں نے سکھ مذہب اپنا لیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے بہت متاثر ہوئے کہ اس مذہب میں اونچ نیچ نہیں ہے۔
امریکی تاریخ سے متعلق ایک صفحہ بتاتا ہے کہ میڈیا اور دانشوروں کے ایک طبقہ کے ذریعےحمایت یافتہ نسل پرستی اورفرقہ واریت کا زہر طویل عرصے سے سیاست کا کھاد پانی ہے۔
گزشتہ دنوں ایک ریلی میں وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ مہاتماگاندھی نے 1947 میں کہا تھا کہ پاکستان میں رہنے والا ہندو، سکھ ہر نظریے سےہندوستان آ سکتا ہے۔ اس سے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی بتایا تھا کہ گاندھی جی نے کہا تھا کہ پاکستان میں رہنے والے ہندو اور سکھ ساتھیوں کو جب لگے کہ ان کوہندوستان آنا چاہیے تو ان کا استقبال ہے۔ کیا واقعی مہاتما گاندھی نے ایسا کہاتھا جیسا وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں؟
پولیس کا کہنا ہے کہ لڑکی کا اغوا اور مذہب تبدیل کرانے کی ملزم مسلم فیملی اس معاملے میں اپنے رشتہ داروں کی گرفتاری کی مخالفت کر رہی تھی۔اسی فیملی کی قیادت میں بھیڑ نے گرودوارہ ننکانہ صاحب پر پتھراؤ کیا۔ پاکستان نے کہا ہے کہ ننکانہ صاحب گرودوارہ بالکل محفوظ۔
سکھ مذہب کے بانی گرو نانک دیو پنجاب کےتلونڈی گاؤں میں1469 پیدا ہوئے ،اس گاؤں کواب ننکانہ صاحب کہا جاتا ہے۔آج ان کے 550ویں یوم پیدائش پر ان سے متعلق ایک دلچسپ واقعہ ملاحظہ کیجے۔
ریٹائر ہونے کے فوراً بعد فاروق خان کو شاید اندازہ تھا کہ کسی نہ کسی وقت وہ مکافات عمل کا شکار ہو جائےگا، تو ڈیفنس میکانز م کے طور پر اس نے بی جے پی جوائن کرکے دفعہ 370 کے خلاف عرضی دائر کی اور وزیر اعظم نریندر مودی اور امت شاہ کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا۔کیا ہی اچھا ہوتا کہ سکھ برادری قومی اور عالمی اداروں کو جھنجھوڑ کر ان واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیق و تفتیش کا مطالبہ کرکے ملزمین کو سزا دلوانے میں رول ادا کرے۔
سپریم کورٹ نے دہلی ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف دائر کی گئی عرضی پر یہ فیصلہ دیا ہے۔ اس سے پہلے نچلی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے دہلی ہائی کورٹ نے ان لوگوں کو مجرم قرار دیا تھا اور پانچ سال جیل کی سزا سنائی تھی۔
یہ فلم ہمارے لیے باعث تشویش کیوں ہے؟ دراصل فلم کیسری اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرتی ہے، ایک تاریخی واقعے کے گرد جھوٹی کہانی بنتی ہے جس میں مسلمان دشمن اور ولن ہے اور اسلام کٹہرے میں کھڑا ہے ۔
1984 کے سکھ مخالف فسادات چونکہ بہت جذباتی اور حساس معاملہ ہے، چنانچہ اس سے متعلق باتیں کرتے ہوئے راہل چالاکی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
سپریم کورٹ میں ایک پی آئی ایل دائر کر کے کہا گیا ہے کہ ہندو جو ملک گیر اعداد و شمار کے مطابق ایک اکثریتی کمیونٹی ہے، نارتھ ایسٹ کی کئی ریاستوں اور جموں و کشمیر میں اقلیت ہے۔ کورٹ نے اقلیتی کمیشن کو تعریف طے کرنے کے لئے تین مہینے کا وقت دیا ہے۔
بی جے پی رہنما اشونی کمار اپادھیائے نے ایک پی آئی ایل دائر کر کےکہا ہے کہ ہندو جو ملک گیر اعداد و شمار کے مطابق ایک اکثریتی کمیونٹی ہے، نارتھ ایسٹ کی کئی ریاستوں اور جموں و کشمیر میں اقلیت میں ہے۔ ہندو کمیونٹی ان فوائد سے محروم ہے جو کہ ان ریاستوں میں اقلیتی کمیونٹی کے لئے موجود ہیں۔ اقلیتی کمیشن کو اس تناظر میں ’ اقلیت ‘لفظ کی تعریف پر پھر سے غور کرنا چاہیے۔
ہندوستان میں جمہوریت کا مستقبل اس بات پر منحصر کرتا ہے کہ یہ یقینی بنایا جائے کہ اس طرح کے سنگین جرائم بھلائے نہیں جائیںگے اور قصوروار کسی قیمت پر نہیں بچیںگے۔
دہلی ہائی کورٹ نے 1984 کے سکھ مخالف فسادات میں 34 سال بعد کانگریس رہنما سجن کمار کو عمر قید کی سزا سنائی ہے ۔ لیکن انصاف ایک ہی خاندان کو ملا ہے ۔ کیوں انصاف کے لیے غیر معمولی کوشش کرنی پڑتی ہے اور ایک جمہوریت میں انصاف ملنا عام بات نہیں ہے ۔ کیاہم قاتل کے ساتھ رہنے کے عادی ہوگئے ہیں ؟ پروفیسر اپوروانند کی پہلی ماسٹر کلاس۔
دہلی ہائی کورٹ نے کانگریس رہنما سجن کمار کو عمر قید کی سزا دیتے ہوئے کہا کہ انسانیت کے خلاف جرم اور قتل عام ہمارے گھریلو قانون کا حصہ نہیں ہیں۔ ان کمیوں کو ختم کرنے کی جلد سے جلد ضرورت ہے۔
دہلی ہائی کورٹ نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا،’متاثرین کو یہ احساس دلانا ضروری ہے کہ کتنا بھی چیلنج آئے لیکن سچ کی جیت ہوگی۔‘
دہلی ہائی کورٹ نے 1984 سکھ مخالف فسادات معاملے میں ایک نچلی عدالت کے فیصلے کے خلاف کی گئی مجرموں کی 22 سالہ پرانی اپیلوں کو خارج کر دیا اور سزا کاٹنے کے لیے سرینڈر کرنے کو کہا۔
دہلی کی پٹیالہ ہاؤس کورٹ نےاس معاملے میں مجرم یشپال سنگھ کو موت کی سزا سنائی ہے جبکہ نریش سہراوت کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔
2015میں مرکزی حکومت کی ہدایت پر ایس آئی ٹی بننے کے بعد سے یہ پہلا مقدمہ ہے جس میں 3 سال کے اندر کوئی فیصلہ آیا ہے۔
’اگر آپ ایک رہنما ہیں اور آپ کی نظروں کے سامنے بڑی تعداد میں لوگوں کا قتل کیا جاتا ہے، تب آپ لوگوں کی زندگی بچا پانے میں ناکام رہنے کی جوابدہی سے مکر نہیں سکتے۔ ‘
گلاب سنگھ نے کہا؛1947 سے میری فیملی پاکستان میں رہتی آئی ہے۔فسادات ہونے کے باوجود ہم نے پاکستان کو نہیں چھوڑالیکن اب ہمارے ساتھ زبردستی کرکے ہمیں ملک چھوڑنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔
امریکی حکومت کے ذریعے قائم کیے گئے ایک کمیشن نے عالمی مذہبی آزادی پر اپنی تازہ ترین رپورٹ میں کہا ہے کہ ملک میں جاری بھگواکرن مہم کے شکار مسلمان، عیسائی، سکھ، بدھ، جین اور دلت ہندو ہیں۔
برقع اور ٹوپی کو مسلمانوں کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بتانے والوں کو اپنے تعصبات کے پردے ہٹانے کی ضرورت ہے۔
یہ فیصلہ اس کی طرف سے قائم ایک کمیٹی کی سفارش کے بعد آیا۔ کمیٹی نے 241 بند معاملات میں سے 186 کو دوبارہ کھولنے اور اسے دوبارہ جانچ کرنے کی سفارش کی ہے۔
سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو کے شاعر طالب سولا پوری کا کہنا ہے کہ ہر مذہب میں انسانی عظمت کے ترانے موجود ہیں ٗلیکن ہم نے نفرت کرنا سیکھ لیا ہے۔ نئی دہلی :ان دنوں سوشل میڈیا پر لگ بھگ دو منٹ کا ایک ویڈیو وائرل ہورہا ہے،جس […]
روہنگیا پناہ گزینوں کی امداد کے جذبے کو خالصہ ایڈ نے تاریخی قرار دیا ہے۔ نئی دہلی :جامع مسجد لدھیانہ اورگرودوارہ نے مشترکہ طور پر بھائی چارگی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی مثال پیش کرتے ہوئے روہنگیا پناہ گزینوں کی مدد کے لیے سکھ فلاحی تنظیم خالصہ […]